ملکی مفاد و ضروریات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کوئی دیر پا پالیسی بنانا، اسے لاگو کرنا اور اس کے اثرات سے مستفید ہونا ایک مثبت عمل ہے لیکن محض وقت گزاری کے لیے کوئی پالیسی لانچ کر دینا نہایت منفی اپروچ ہے۔ یہ خود کو دھوکا دینے اور قوم کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ بدقسمتی سے ہماری اکثر معاشی پالیسیاں دوسری کیٹیگری میں شمار ہوتی ہیں، بالخصوص جن بنیادوں پر پچھلے تین سال میں معیشت سے متعلق فیصلے ہو رہے ہیں‘ عوام میں یہ رائے تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ عوام کے سامنے پورا سچ نہیں رکھا جا رہا۔ منزل پر پہنچنے کے لیے درست راستے کا تعین کرنا اور پھر مستقل مزاجی سے اس پر چلتے رہنا ہی فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملکی معیشت کی منزل کیا طے کی گئی ہے۔ یہ درست راستے پر چل نکلی ہے یا نہیں اور تیسراسوال یہ کہ‘ منزل کتنی دور ہے۔ عوام ان سوالوں کے جوابات جاننے کے لیے منتظر ہے لیکن کنفیوژن یہ ہے کہ یہ گزارشات کس کے سامنے رکھی جائیں؟ تین سالوں میں چار وزیرِ خزانہ آ چکے ہیں‘ اس وقت ملک کا کوئی وزیرِ خزانہ نہیں ہے۔ شوکت ترین صاحب مشیرِ خزانہ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں‘ معاشی امور پر وزیراعظم کے اور بھی چند مشیر ہیں۔ ترین صاحب کے حکومت میں رہنے کا کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو‘ ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کے گھر جانے سے حکومت کو ٹھیک ٹھاک فائدہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کمزور معاشی پالیسیوں کا سارا بوجھ ترین صاحب پر ڈال کر بری الذمہ ہو سکتی ہے۔ ماضی میں اسد عمر اور حفیظ شیخ کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا حالانکہ وزیر خزانہ اپنے فیصلے کسی پر مسلط نہیں کرتا بلکہ اس کے فیصلوں میں وزیراعظم اور کابینہ کی مرضی شامل ہوتی ہے۔ ذرائع کے مطابق رضا باقر صاحب وزارتِ خزانہ کے اگلے امیدوار ہیں کیونکہ وہ ان اداروں کے منظورِ نظر ہیںجن کا سکہ ملک پاکستان میں چلتا ہے۔
اس وقت حکومت کیلئے جو معاملہ دردِ سر بنا ہوا ہے وہ آئی ایم ایف کی جانب سے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو حکومت سے ماورا فیصلے کرنے کی آزادی دینے کے لیے قانون سازی کے عمل کو مکمل کرنے کا مطالبہ ہے۔ مارچ 2021ء میں حکومت نے آئی ایم ایف سے 500 ملین ڈالرز لینے کے لیے سٹیٹ بینک کی آزادی کے حوالے سے قانون سازی مکمل کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ شوکت ترین صاحب نے حالیہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ آئی ایم ایف سے تمام معاملات طے پا گئے ہیں، سوائے سٹیٹ بینک والے معاملے کے، اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے تو معاہدہ دو دنوں میں ہو سکتا ہے۔ اس کا سارا ملبہ حفیظ شیخ صاحب پر ڈالا جا رہا ہے کہ انہوں نے جلد بازی میں ایسا معاہدہ کر لیا جو پاکستانی آئین اور قانون کے خلاف ہے۔ ریاستی قانون کے مطابق‘ تمام سرکاری ملازم اپنے کام کے حوالے سے جواب دینے کے پابند ہیں کیونکہ وہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ نیب، ایف آئی اے اور دیگر تحقیقاتی ادارے ان سے پوچھ گچھ کر سکتے ہیں، ان پر مقدمات ہو سکتے ہیں،ٹرائل ہو سکتا ہے اور سزا بھی مل سکتی ہے۔ ان میں سربراہِ حکومت اور عدلیہ سمیت سرکار سے تنخواہ لینے والے تمام ملازمین شامل ہیں لیکن حالیہ معاہدے کے مطابق گورنر سٹیٹ بینک اور بڑے فیصلے کرنے والے سٹیٹ بینک کے دیگر ملازمین اس احتساب سے زمرے میں نہیں آتے یعنی کہ وہ تنخواہیں اور مراعات ریاست سے لیں گے لیکن ان کے بدلے میں وہ ریاست کو جوابدہ نہیں ہوں گے۔ شوکت ترین صاحب نے فرمایا کہ اس قانون کو اسمبلی سے منظور کروانے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے جو موجودہ حکومت کے پاس نہیں؛ اگرچہ وہ جانتے ہوں گے کہ یہ معاملہ آرڈیننس کے ذریعے بھی حل کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح نیب اور دیگر اداروں کے حوالے سے قوانین آرڈیننس کے ذریعے جاری کیے جا رہے ہیں‘ اسی طرح سٹیٹ بینک کا معاملہ بھی حل ہو سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایک لیگل ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو اس معاملے کے تمام پہلوئوں کا دوبارہ جائزہ لے گی۔ وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم صاحب نے وڈیو لنک کے ذریعے آئی ایم ایف سے بات کی ہے جس میں یہ سمجھانے کی کوشش گئی ہے کہ پاکستان میں احتساب کے حوالے سے ججز کو سب سے زیادہ چھوٹ حاصل ہے لیکن جو قانون آپ نے سٹیٹ بینک کے گورنر اور دیگر ملازمین کے لیے تجویز کیا ہے وہ تو ججز کے لیے بھی نہیں ہے۔ فروغ نسیم صاحب کی بات درست معلوم ہوتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آٹھ ماہ پہلے کیبنٹ نے اسے منظور کیا تھا‘ اس وقت وزارتِ قانون کا مدار المہام کون تھا؟ کیا وزیراعظم صاحب کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ جس معاہدے پر آپ دستخط کرنے جا رہے ہیں وہ آئین پاکستان سے متصادم ہے اور کوئی بھی ایسا معاہدہ کرنا جرم ہے جو آئین کے خلاف ہو۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت نے صرف آٹھ ماہ گزارنے اور 500 ملین ڈالر حاصل کرنے کے لیے یہ معاہدہ کیا تھا؟ میں نے کالم کے شروع میں ذکر کیا تھا کہ حکومت شاید معاہدے کر کے وقت گزاری کرنا چاہتی ہے۔ اس کے بعد کیا صورتحال بنے گی‘ وہ بعد بھی دیکھا جائے گا۔ مبینہ طور پر پچھلے تین سال اسی اصول کے تحت گزرے ہیں۔
میں یہاں یاد دہانی کرتا چلوں کہ شوکت ترین صاحب نے 16 اکتوبر کو تیل کی قیمتوں میں پانچ روپے اضافہ آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لیے کیا تھا، اس کے علاوہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید ا ضافے کے معاہدے بھی کیے گئے ہیں۔ شرحِ سود بڑھانے کے حوالے سے بھی یقین دہانی کرا دی گئی ہے جس سے مہنگائی میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ اس وقت مہنگائی کی صورتحال یہ ہے کہ اکتوبر 2021ء میں یہ نو فیصد سے بڑھ گئی تھی اور یہ پچھلے چار ماہ میں سب سے زیادہ شرح ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تیل کی قیمت میں اضافہ بتائی جا رہی ہے لیکن افسوس کہ مشیرِ خزانہ اس کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا فرمانا ہے کہ جب پوری دنیا میں گندم، چینی اور دیگر اشیا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں تو پاکستان میں بھی اضافہ ہو گا، پاکستان چینی اورگندم درآمد کرتا ہے‘ آپ ہی بتائیے کہ میں کیا کروں، مہنگائی میں اضافہ روکنا ہمارے بس میں نہیں ہے، عالمی قیمتیں ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب عالمی معیشت میں قیمتیں کم تھیں‘ اس وقت حکومت نے کیا کیا تھا؟ پیپلز پارٹی کے دور میں جب ترین صاحب وزیرِخزانہ تھے‘ تب بھی مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ ہوا تھا۔ اس وقت بھی ذمہ داری لینے کے بجائے حالات کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا اور آج بھی بچ نکلنے کا راستہ تلاش کیا جا رہا ہے۔ جب مشیرِ خزانہ ہی مسائل کی ذمہ داری لینے اور انہیں حل کرنے کے بجائے عوام کو بہلانے کے لیے بہانے اور جواز تلاش کر رہے ہوں گے تو ایسی صورت میں بہتر مستقبل کے بارے میں کون سوچے گا؟ حالات میں سدھار کیسے آئے گا؟ یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ترین صاحب کے دور میں ملک کے دو بڑے معاشی اداروں پر تاریخ کا بدترین سائبر حملہ ہو چکا ہے جس سے اربوں روپوں کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ایف بی آر اور نیشنل بینک کے سسٹم ہیک ہوئے لیکن اصل ذمہ داروں کا تعین کرنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بجائے روایتی بیان بازی کی جا رہی ہے کہ یہ حملے مشرقی دشمن کر ا رہا ہے اور آنے والے دنوں میں مزید حملے ہو سکتے ہیں۔حالانکہ بات اس معاملے پر ہونی چاہیے کہ سکیورٹی اقدامات بہتر کیے جا رہے ہیں یا نہیں ۔ میڈیا کو اس حوالے سے اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے جو افسوس ناک ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کمزور سائبر سکیورٹی والے اداروں کی نشاندہی کرے تاکہ عوام بھی آگاہ ہو سکیں اور حکومت سے اس بارے میں اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کرتے رہیں۔ آنے والے دنوں میں سٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ کا معاملہ کیا رخ اختیار کرتا ہے کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن ایک بات اب وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اس مرتبہ آئی ایم ایف مطالبات پورے کرائے بغیر قرض بحال نہیں کرے گا۔