کالعدم ٹی ایل پی اور اربابِ اختیارکے درمیان معاہدے پر عمل شروع ہوچکا ہے۔ وزیراعظم نے بھی اپنے وزرا کو نہ صرف بیان بازی سے روک دیا ہے بلکہ اس حساس معاملے کی نزاکت کے پیشِ نظر احتیاط برتنے کا بھی کہا گیا ہے۔ دھرنے‘ مظاہرے اور معاہدے ہماری ریاست اور سیاست کو اس طرح جکڑ چکے ہیں کہ لاکھ کوشش کے باوجود عوام ان کے شکنجے سے نکلنے میں ناکام ہیں۔ سبھی دھرنوں اور مظاہروں سے لے کر معاہدوں تک‘ پہلوتہی سے لے کر ایک دوسرے پر الزام تراشی تک‘ بروقت فیصلہ سازی میں ناکامی سے لے کر زبانی جمع خرچ تک‘ حکومتی سطح پر لمبی زبان اور عقل کے فقدان کا تاثر اپنے تمام تر گہرے نقوش کے ساتھ صلاحیتوں اور قابلیت کا پنڈورا باکس کھولتا نظر آتا ہے۔
جو دھرنوں اور مظاہروں کو جمہوری عمل اور آوازِ خلق کہا کرتے تھے آج وہی مظاہروں اور دھرنوںکو سرکشی کے زمرے میں شامل کرتے ہیں۔ ان کو ہلہ شیری دینے والے ہوں یا ان کی مالا جپنے والے‘ سبھی کو آج ریاست کی طاقت اور آہنی ہاتھ کا زعم ہو چلا ہے۔ کہیں خندقیں کھود کر ان میں پانی بھرا جاتا ہے تو کہیں کنٹینر کھڑے کرکے راستے بند کیے جاتے ہیں۔ کہیں پولیس کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے تو کہیں انتظامیہ کو۔ کبھی آئی جی کی کارکردگی کو ناقص قرار دیا جارہا ہے تو کہیں سی سی پی او لاہور سمیت دیگر اضلاع کے پولیس افسران کو تبدیل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ آئی جی پنجاب صاحب حکمرانوں کی برہمی کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے ہی ماتحتوں پر برس پڑے اور اتنا برسے کہ انہیں نالائق قرار دیتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ ان کی اے سی آرز سرخ پنسل سے لکھی جائیں گی۔ وہ اچھے بھلے پروفیشنل اور اسی سسٹم کا حصہ ہونے کے باوجود نہ جانے کیوں پہلے سے Demoralized فورس کو مزید ڈی موریلائز کر رہے ہیں۔ ماتحت افسران کو قربانی کا بکرا بنانے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ اگر کسی سر چڑھے مشیر یا چیمپئن نے وزیر اعظم کا دھیان ان کی طرف دلوا دیا تو ان کی بھی تبدیلی کو کوئی نہیں روک پائے گا۔ نہ ماتحت افسران کے تبادلے کام آئیں گے اور نہ سرخ پنسل سے لکھی گئی اے سی آرز بچا پائیں گی۔
سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد اعلیٰ پولیس افسران سے لے کر ماتحت اہلکاروں تک کون ہے جو اپنے کیریئر سے لے کر زندگی تک کو حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اور نا موافق اقدامات کی بھینٹ چڑھائے؟ باوردی لیکن غیر مسلح پولیس فورس کس طرح پُرتشدد مظاہرین کو روک سکتی ہے؟ زمینی حقائق اور ناقابل تردید پیچیدگیوں کے باوجود پولیس فورس سے جو توقعات حکومت لگا بیٹھی ہے وہ نہ تو موجودہ آئی جی صاحب پوری کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہ مزید درجنوں آئی جی تبدیل کرنے کے باوجود پوری ہو سکتی ہیں۔ قانونی نکات سے لے کر تکنیکی مسائل اور سماجی پہلوئوں تک اس موضوع پر اگر مباحثہ کروایا جائے تو پولیس کے دفاع میں دلائل اور توجیہات کا انبار لگ سکتا ہے۔ سیاسی اور فکری محاذ پر حکومتی ناکامی کو پولیس کی نالائقی اور نااہلی قرار دینا متعصب سوچ کی عکاسی ہے؛ تاہم تبادلے اور اے سی آرز خراب کر کے افسران کا خانہ خراب کرنے کے بجائے حکومت کو پولیس فورس کی ان مجبوریوں اور ان قانونی تقاضوں کا احساس دلایا جائے جن کی وجہ سے پولیس اب حکمرانوں کی فرمائش پر کسی دھرنے اور مظاہرین پر طاقت کا استعمال کرنے سے قاصر ہے۔ جب ریاست ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری لینے سے بھاگ رہی ہو اور حکمران مظاہرین کو مذاکرات کی میز پر مطمئن کرنے میں ناکام ٹھہریں تو غیر مسلح پولیس کس بوتے پر اور کب تک پُرتشدد مظاہروں میں ٹھہر سکتی ہے؟ قومی املاک کو بچانے سے لے کر شہریوں کی جان و مال کی حفاظت یقینی بنانے تک ان تمام مراحل میں کون طے کرے گا کہ بلوائی ہوں یا مظاہرین ان کو کیسے روکنا ہے؟ حکومت کے سبھی درشنی وزیر تو خود کونے ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ ایگزیکٹو مجسٹریسی کا ادارہ بوئے سلطانی کی بھینٹ چڑھنے کے بعد انتظامیہ میں بھی کسی افسر کو کوئی اختیار اور مینڈیٹ حاصل نہیں کہ وہ مظاہرین سے مذاکرات کرے اور پُرتشدد واقعات کو روک سکے۔ اس قحط الرجالی کے عالم میں لے دے کر سارا بوجھ پولیس پر ہی آ جاتا ہے اور حکمرانوں کی مرضی کے برعکس نتائج کی صورت میں سارا ملبہ بھی پولیس پر ہی ڈال دیا جاتا ہے اور اس پر صوبے کا سپریم کمانڈر اپنی ہی فورس کی سرزنش شروع کر دے تو وہ کسے وکیل کرے‘ کس سے منصفی چاہے؟ اور پھر اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جو وسائل دستیاب تھے‘ ان میں جو کچھ ہو سکتا تھا‘ پولیس نے وہ سب کچھ کیا۔
کاش معاہدہ کروانے والے سرکار اور عوام کے درمیان بھی کوئی ایسا معاہدہ کروا سکتے جس کے تحت حکمرانوں کو اس حلف کے انحراف سے روکا جا سکتا جسے اٹھاتے وقت انہوں نے ریاست اور عوام سے وفاداری کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ ان وعدوں اور دعووں کی پاسداری کا بھی کوئی ایسا معاہدہ ہو سکتا جو یہ اقتدار میں آنے سے پہلے عوام سے تواتر سے کرتے چلے آئے ہیں۔ سبز باغ دکھانے سے لے کر ان بڑھکوں اور شعلہ بیانیوں پر عملدرآمد تک کا بھی کوئی معاہدہ ہو سکتا۔ کاش کوئی معاہدہ‘ کوئی کرشمہ‘ کوئی چمتکار تو ایسا ہوکہ انتخابی وعدوں سے لے کر بلند بانگ دعووں اور برسراقتدار آنے کے بعد حلف برداری تک ان کے منہ سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ کو یاد کروانے سے لے کر ان پر عملدرآمد کروانے کی کوئی صورت ہو۔ دور دور تک نہ کہیں احساسِ ندامت ہے نہ احساسِ ذمہ داری۔ نہ کسی کو قول و فعل کی حرمت کا پاس ہے نہ اس حلف کا جو انہوں نے برسراقتدار آنے کے وقت اٹھایا تھا۔ اسی حلف سے انحراف کرتے کرتے یہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ ان سماج سیوک نیتائوں کی سماجی اور مالی حیثیت‘ ان کی موجودہ شان و شوکت‘ ٹھاٹ باٹ اور موج مستی ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے سے کس قدر متصادم ہے۔
ان سماج سیوک نیتائوں کی دیکھا دیکھی سرکاری بابو بھی خوب رنگ پکڑ رہے ہیں۔ طویل عدالتی جدوجہد اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود بلدیاتی اداروں کے عوامی نمائندوں کو آج بھی بیوروکریسی کے سرخ فیتے کا سامنا ہے۔ پنجاب کے سب سے بڑے شہر کے میئر کو اسی سرخ فیتے کے زور پر صوبے کے ایک اعلیٰ افسر نے اپنے دفتر میں داخل ہونے سے بیس منٹ تک روکے رکھا۔ جب رسائی ملی تو میئر لاہور نے شکوہ کیا کہ کوئی افسر کام نہیں کرتا‘ جس کے پاس جائو کوئی کام کرنے کو تیار نہیں‘ اس رویے کے ساتھ شہر کے مسائل کیسے حل ہوں گے؟ اس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے میئر صاحب سے کہا گیا کہ آپ کا رویہ درست نہیں‘ میں عوام کی خدمت کے لیے یہاں بیٹھا ہوں اور دفتر میں اپنے کام نمٹا رہا تھا۔ میئر لاہور یہ کہتے ہوئے باہر نکل آئے کہ میں چیف جسٹس آف پاکستان کو اعلیٰ افسر کے اس رویے سے ضرور آگاہ کروں گا۔ یاد رہے کہ عدالت عظمیٰ نے بلدیاتی اداروں کی بحالی کے فیصلے سے پہلے حکومت کی متعدد بار سرزنش کی اور برہمی کا اظہار کیا تھا۔ میری نظر میں میئر لاہور کرنل (ر) مبشر جاوید اور صوبے کے اعلیٰ افسر کے مابین یہ ٹاکرا طرزِ حکمرانی اور من مانی کا ایک نمونہ ہے۔ سرکاری دفاتر میں ایسے نجانے کتنے نمونے گورننس کو شرمسار اور میرٹ تار تار کر رہے ہیں؛ چنانچہ اعلیٰ افسر کا یہ دعویٰ ایک معمہ ہی لگتا ہے کہ وہ عوام کی خدمت کے لیے بیٹھے ہیں۔