تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     26-07-2013

کھیلا تو خوب لیکن

ویسٹ انڈیز کے خلاف 5 میچوں کے سیریز میں ‘ جب آخری میچ شروع ہوا‘ توپوزیشن بڑی دلچسپ تھی۔ ویسٹ انڈیز یہ میچ جیت نہیں سکتا تھا۔ ہم ہار نہیں سکتے تھے۔ کھیلے گئے 4 میچوں میں ایک برابر ہو گیا تھااور باقی 3 میں سے‘ ایک ویسٹ انڈیز نے جیت رکھا تھا اور دو ہم نے۔ اگر ویسٹ انڈیز یہ میچ جیت جاتا‘ تو سیریزبرابر ہو جاتی۔ ہم جیت جاتے‘ تو سیریز کے فاتح تھے۔گویا پاکستان کے لئے اس میچ میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ ایسی صورت حال میں ‘ پاکستانی ٹیم نہ کسی دبائو میں تھی اور نہ خطرے میں۔ ایسے حالات میں کھلاڑی بڑے آرام سے اپنے اپنے مزاج اور سٹائل کے مطابق‘ صلاحیتیں آزما سکتے تھے اور اپنا فطری کھیل دکھا کر‘ تماشائیوں کو محظوظ کر سکتے تھے۔ موجودہ ٹیم میں ایک پرانے اوپنر کو پھر سے جھاڑپونچھ کر ٹیم میں شامل کیا گیا۔ اس پوری سیریز میں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ رہا کہ شروع کے کھلاڑی بری طرح پٹتے رہے اور اکثر یوں ہوا کہ چار پانچ کھلاڑی ‘ 50رنز کے اندر اندر آئوٹ ہو جاتے تھے۔ نئے اوپنر شہزاد کا اضافہ کسی کام نہیں آیا۔ آخری میچ کے بارے میں خیال تھا کہ شہزاد‘ دبائو میں نہ ہونے کی وجہ سے بڑھ چڑھ کے ہاتھ مارے گا۔توقع کے مطابق اس نے بڑھ چڑھ کے ہاتھ تو مارے لیکن اپنے ہی ساتھیوں کو۔ پہلا ہاتھ ناصر جمشید کو لگا اور دوسرے کا شکار حفیظ بنا۔ ان دونوں کو فارغ کرنے کے بعد بھی شہزاد کی مشین ٹھیک نہ ہوئی اور وہ ٹک ٹک کرنے لگا۔ اسے ٹک ٹک سے نکالنے کے لئے‘ دوسرا ٹک ٹک میدان میں آیا اور اس کے بعد شہزاد کا ہاتھ گرم ہوا۔ شہزاد کھیلا تو خوب۔ لیکن اسے اچھا کھلانے کے لئے ‘ اسے دو کھلاڑیوں کی لاشوں کا نذرانہ دینا پڑ گیا اور تیسرے کھلاڑی کو ‘ اسے موڈ میں لانے کی ڈیوٹی دینا پڑی۔ ناصر جمشید اچھا بھلا اپنی طرز سے کھیل رہا تھا کہ شہزاد نے ایک سٹروک لگا کر‘ ناصر کو دوڑنے کے لئے پکارا اور جب ایک کھلاڑی دوسری سمت والے کو دوڑنے کی کال دے دے‘ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ یقینی طور پر رنز لینے والا ہے‘ اس لئے دوسری طرف کے کھلاڑی کو سرپٹ بھاگنا ہوتا ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ کال دینے والا تو لازمی اپنی سائیڈ پر آئے گا۔ کیونکہ شہزاد نے کال دے کردوڑنا شروع کیا اور جب ناصر جمشید آدھی سے زیادہ دوڑ پوری کر چکا‘ تو شہزاد اچانک پلٹ کر واپس اپنی کریز میں آ گیا اور شہزاد کے لئے واپس جانے کا موقع نکل چکا تھا۔ اسے رن آئوٹ ہونا پڑا۔ ناصر کے جاتے ہی‘ شہزاد نے ٹک ٹک شروع کر دی۔ حفیظ اس ٹک ٹک سے تنگ آ گیا اور اس نے غصے میں ایک شارٹ لگا کر سکور کی رفتار بڑھانے کی کوشش کی اور اس طرح کیچ دے بیٹھا۔ میں حفیظ کو بھی‘ شہزاد کا شکار ہی سمجھتا ہوں۔ نہ وہ ٹک ٹک کرتا اور نہ حفیظ یوں بور ہو کراوچھا شارٹ لگاتا۔ میرے نزدیک ناصر اور حفیظ دونوں کو آئوٹ کرانے کی ذمہ داری شہزاد پر ہے۔ دو کھلاڑیوں کا ناشتہ کر کے‘ شہزاد کا ہاتھ رواں ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن جب کپتان ٹک ٹک میدان میں آئے‘ توبھی وہ ان سے مقابلے پر اتر آیا۔ خدا کا شکر ہے مصباح نے اپنے تجربے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ اسے دھکا دے کر ٹک ٹک سے نکالااور وہ رنز بنانے پر مجبور ہو گیا۔ رنز تو خوب بنائے لیکن شہزاد کو فارم میں لانے کے لئے جو کچھ کرنا پڑا‘ وہ بار بار نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر مجھے ایک کہانی یاد آ گئی۔ پرانے زمانے میں سوداگر سامان لے کر قافلوں کی صورت میں سفر کرتے تھے اور حفاظت کے لئے ساتھ غلام رکھے جاتے تھے‘ جو ڈاکوئوں اور رہزنوں سے مقابلہ کر کے‘ سوداگر کے سامان کو بچا کر منزل تک پہنچاتے۔ ایک سوداگر‘ غلاموں کی منڈی سے گزرا‘ تو وہاں ایک غلام کی قیمت بڑھ چڑھ کر لگائی جا رہی تھی۔ خریداروں کے ہجوم میں جا کر سوداگر نے غلام کی بھاری قیمت کی وجہ پوچھی۔ اسے پتہ چلا کہ یہ اکیلا ہی 100 غلاموں کے برابر ہے۔ جس قافلے کے ساتھ یہ ہو‘ اسے ڈاکو لوٹ نہیں سکتے۔ کیونکہ یہ اکیلا ہی سب پر بھاری پڑتا ہے۔ سوداگر نے سوچا 100غلاموں کا خرچ اٹھانے سے بہتر ہے کہ ایک غلام کو خرید لیا جائے۔ اس نے بڑھ چڑھ کے بولی لگانا شروع کر دی۔ آخر میں جیت اس کی ہوئی اور غلام کو خرید لیا گیا۔ چند روز کے بعد سامان تجارت جمع ہو گیا۔ رخت سفر باندھا گیا اور درجنوں اونٹوں پر مشتمل قافلہ ایک سوداگر اور ایک غلام کے ساتھ منزل کی طرف روانہ ہوا۔ سوداگر کی دیکھ بھال کے لئے اس کے ذاتی خدمت گار ساتھ تھے۔ کافی سفر طے کرنے کے بعد قافلہ ایک ویران جگہ سے گزرا‘ تو ڈاکوئوں نے حملہ کر دیا۔ سوداگر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ غلام نے ذرا بھی مزاحمت نہ کی۔ دو ڈاکوئوں نے آگے بڑھ کر غلام کو ایک طرف دھکیلا اور وہ کچھ کئے بغیر ہی زمین پر جا گرا اور بے حس و حرکت ہو گیا۔ ڈاکوئوں کو لوٹ مار کی بھی ضرورت نہ پڑی۔ انہوں نے اطمینان سے اونٹوں کا رخ موڑا۔ انہیں اپنے کنٹرول میں لیا اور اپنے راستے کی طرف رخ کر لیا۔ سوداگر نے جب دیکھا کہ اس کا قافلہ تو لٹ ہی گیا ہے۔ کیوں نہ ڈاکوئوں سے کچھ بات کر لی جائے۔ سوداگر نے ڈاکوئوں کے سردار سے التجا کی کہ ’’تم قافلے کو تو لوٹ ہی چکے ہو۔ مہربانی سے اس لٹے ہوئے سوداگر کی ایک درخواست ہی قبول کر لو۔‘‘ سردار نے ولن کی طرح ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا ’’بولو سوداگر!موگیمبو آج بہت خوش ہے۔ تم جو چاہو مانگ سکتے ہو۔ مگر اپنا سامان واپس مت مانگنا۔‘‘ سوداگر نے وعدہ کیا کہ وہ اپنے سامان میں سے کچھ واپس نہیں مانگے گا ۔ صرف یہ درخواست کی کہ ’’اے سردار! میں نے یہ غلام بہت ہی مہنگے داموں خریدا ہے۔ میں چاہتا تو قافلے کی حفاظت کے لئے 100 سے زیادہ غلاموں کو ساتھ لا سکتا تھا۔ لیکن میری قسمت پھوٹ گئی۔ میں نے لوگوں کی بات پر اعتبار کر کے یہ مہنگا غلام خریدااور بھروسہ کر کے سفر پر نکل پڑا۔ میرے ساتھ جو ہو گئی‘ وہ تمہارے اپنے ہاتھوں سے ہوئی ہے۔ تم خود میری حالت کا اندازہ کر سکتے ہو۔ بس میری ایک چھوٹی سی خواہش پوری کر دو۔‘‘ سردار موڈ میں آیا ہوا تھا۔ اس نے کہا ’’تم اپنی خواہش بیان کرو۔ میں ضرور پوری کروں گا۔‘‘ سوداگر نے التجا کی کہ ’’اپنے ساتھیوں سے کہو کہ میرے اس بدبخت غلام کے منہ پر ایک ایک تھپڑ مار کے اس کے منہ پر تھوک دیں۔‘‘ سردار نے ایک بار پھر ولن کی طرح قہقہہ لگایا اور ساتھیوں کو حکم دیا کہ سوداگر کی خواہش پوری کرو۔ڈاکو قطار میں کھڑے ہو گئے۔ غلام کو ایک طرف کھڑا کر دیا گیا۔ ڈاکو باری باری آگے بڑھتے۔ اس کے منہ پر تھپڑ جڑتے اور تھوک کر آگے نکل جاتے۔ غلام بڑے اطمینان سے کھڑا تھپڑ کھاتا اور منہ پر تھکواتا رہا اور کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ 99 ڈاکو تھپڑ اور تھوک سے فارغ ہو گئے تو 100واں ڈاکو آگے بڑھا۔ اس نے تھپڑ مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا۔ غلام نے ایک جھرجھری لی۔ زور سے دھاڑا اور اس کا تھپڑ کے لئے اٹھا ہوا ہاتھ پکڑ کے اتنے زور سے کھینچا کہ ڈاکو چیخیں مارتا ہوا زمین پر گر کے تڑپنے لگا۔ بپھرے ہوئے غلام نے ایک ایک کر کے ہر ڈاکو کو اسی طرح چت کیا۔ جو تلوار لایا‘ اسے اسی کی تلوار سے گھائل کر کے پھینک دیا۔ جو نیزہ لایا‘ اس کا نیزہ چھین کر اسی کے پیٹ میں گھونپ ڈالا۔ غرض سو‘سوا سو ڈاکوئوں پر مشتمل پورے کے پورے جتھے کو‘ غلام نے ناکارہ کر کے زمین پر پھینک دیا۔ اونٹوں کو دوبارہ قطار میں لگا کر ان کا رخ اپنی منزل کی طرف موڑا اور سوداگر سے کہا کہ چلو! منزل کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ سوداگر حیرت سے سکتے کی حالت میں تھا۔ وہ غلام سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا۔ مگر اسے حوصلہ نہ ہوا اور خاموشی سے منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔ منزل پر بخیروعافیت پہنچنے کے بعد اس نے قافلہ سرائے میں اپنا سامان محفوظ کیا اور غلاموں کو فروخت کرنے والے ایک تاجر سے کہا کہ ’’میرے اس غلام کی نیلامی کر دو۔‘‘ غلام نے کہا ’’اے سوداگر! میں نے تو قافلے کو لوٹ مار سے بچا کر منزل پر پہنچا دیا ہے۔ سو‘ سوا سو ڈاکوئوں کو اکیلے میں نے شکست دی ہے اور تم پھر بھی مجھے فروخت کر رہے ہو؟‘‘ سوداگر نے جواب دیا ’’تم ڈاکوئوں کو شکست دے کر قافلے کو منزل تک ضرور لے آئے ہو۔ لیکن تمہیں غیرت دلانے کے لئے مجھے ہر بار تو 100 ڈاکو نہیں ملیں گے۔ جس دن ڈاکو 100 سے دوچار بھی کم نکلے‘ تو میرا کیا بنے گا؟‘‘ شہزاد کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کالگتا ہے۔ جس دن اسے 2 کھلاڑیوں کا ناشتہ نہ ملا اور ٹک ٹک کرنے والا کپتان دوسری طرف نہ ہوا‘ تو شہزاد کا ہاتھ گرم کیسے ہو گا؟ کھلاڑی وہی اچھا ہوتا ہے‘ جو کسی دوسرے کھلاڑی کی بھینٹ لئے بغیر کھیل سکتا ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved