تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     06-11-2021

ریاستی انتخابات میں بھاجپا کی شکست

بھارت میں حال ہی میںہوئے 13 ریاستی چنائو کے جو نتائج سامنے آئے‘ ان سے کیا پیغام ملتا ہے؟ ویسے تو تین لوک سبھا سیٹیں اور 29 ریاستی اسمبلی سیٹوں کی بنیاد پر اگلے عام چنائو کے بارے میں کچھ بھی پیشگوئی کرنا ویسا ہی ہے جیسا ندی میں بہتی ہوئی مچھلیوں کو گننا‘ پھر بھی اگر ان چنائو کے نتائج کا تجزیہ کریں تو بھارت میں عوام کے رویے کی کچھ جھلک تو ضرور مل سکتی ہے‘ جیسے ہماچل‘ راجستھان اور کرناٹک میں بھاجپا کے امیدواروں کا ہارنا اور جیتی ہوئی کچھ سیٹوں کا کھو جانا واضح اشارہ ہے کہ ان صوبوں کی بھاجپا قیادت کی لیاقت مشکوک ہے۔ اگر ان ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے بڑھیا کام کیا ہوتا تو بھاجپا اتنی بری طرح سے نہیں ہارتی۔ ان چنائوں نے یہ بھی ثابت کردیا کہ ان پر بھاجپا کی مرکزی قیادت کا بھی کوئی اثر نہیں پڑا۔ بھاجپا کے مرکزی رہنماؤں کیلئے یہ بھی خصوصی فکر کا باعث ہو سکتا ہے کیونکہ اگلے کچھ ماہ میں تقریباً آدھ درجن ریاستوں کی اسمبلیوں کے چنائو منہ کھولے سامنے کھڑے ہیں۔ اگر ان میں بھی اسی طرح کے نتائج آ ئے تو اگلے لوک سبھا چنائو کا اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھ سکتا ہے۔ جہاں تک کانگرس کا سوال ہے تو اس کی شبیہ زیادہ نہیں بگڑی لیکن ہماچل اور راجستھان میں اس کی شاندار جیت کا کریڈٹ ہماچل میں بھاجپا کے وزیر اعلیٰ اور راجستھان کے کانگرسی وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کو دیا جاسکتا ہے۔ ہماچل کے بھاجپا مکھیہ منتری نے کانگرس کی جیت کیلئے وبا‘ بیروزگاری اور مہنگائی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے لیکن مدھیہ پردیش میں بھاجپا کے وزیر اعلیٰ شیو راج چوہان نے اپنے دھواں دھار چنائو کے ذریعے کھنڈوا کی لوک سبھا سیٹ تو جیتی ہی‘ دو ریاستی اسمبلی کی سیٹیں بھی جیت لیں۔ آسام‘ بہار‘ آندھرا‘ تلنگانہ وغیرہ میں اکثر صوبائی پارٹیوں کا دبدبہ رہا لیکن مغربی بنگال میں ممتا کی ترنمول کانگرس نے ریاستی اسمبلی کی چاروں سیٹوں سے بھاجپا کو گھاس کے تنکے کی طرح اکھاڑ پھینکا۔ ایک امیدوار کی تو ضمانت ہی ضبط کروا دی۔ بھاجپا سے ٹوٹ ٹوٹ کر کئی نیتا آج کل ترنمول کانگرس میں شامل ہو رہے ہیں۔ ممتا بینر جی آہستہ آہستہ شمالی ہند کے صوبوں میں ہی اپنی جڑیں جمانے کی کوشش کررہی ہیں۔ یہ کانگرس کیلئے فکر کی بات ہے کیونکہ ممتا کا ماننا ہے کہ کانگرس کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر ہی بھاجپا مضبوط ہوئی۔ ان ضمنی چنائو کے نتائج اپوزیشن جماعتوں کو پہلے سے زیادہ نزدیک کر سکتے ہیں۔ نریندر مودی کو اپنی سرکار کے ساتھ ساتھ اپنی پارٹی کی خبر بھی لینا پڑے گی۔
جنوبی ایشیا میں اقلیتوں کی حالت
بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ کوئی بھی گڑ بڑ ہوتی ہے تو اپوزیشن رہنما شدید تنقید کرتے ہیں‘ بین الاقوامی فورمز پر بھی بھارت کو بخشا نہیں جاتا۔ اس کا مطلب قطعی نہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوتی۔ ناانصافی کئی شکلوں میں ہوتی ہے اور اکثر اوقات ذات‘ مذہب اور صوبہ وغیرہ کی حدود پار کر جاتی ہے۔ اگر آپ اقلیت ہیں تو ظاہر ہے کہ ناانصافی کرنے والے کو ظلم کرتے ہوئے زیادہ ڈر نہیں لگتا‘ لیکن ذرا ہم یہ بھی دیکھیں کہ دوسرے ملکوں میں اقلیتوں کی حالت کیسی ہے؟ آج کل وہاں کی اقلیتیں کون ہیں؟ وہاں ہندو‘ سکھ اور عیسائی اقلیت ہیں۔ بھوٹان‘ برما اور سری لنکا بدھ ریاستیں ہیں‘ وہاں ہندو‘ مسلمان اور عیسائی اقلیت میں ہیں۔ بھارت اور نیپال ہندو ریاستیں نہیں‘ مگر ہندو اکثریتی ممالک ہیں۔ ان میں مسلمان اور عیسائی اور یہودی اقلیت میں ہیں۔ اب ذرا ہم موازنہ کریں کہ ان سب ممالک میں ان کی اقلیتوں کے ساتھ ان کی سرکاریں اور ان کی جنتا کیسا سلوک کرتی ہے؟ پاکستان اور بنگلہ دیش کی حکومتیں کافی محتاط ہیں‘ وہاں اقلیتوں پر حملے ہوں تو ان کی حفاظت کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے لیکن پھر بھی یہ سوال ہے کہ اقلیتوں کی تعداد دن بدن گھٹتی کیوں جا رہی ہے؟ وہاں کے ہندو اور عیسائی لوگ اپنا ملک چھوڑ کر بدیش کیوں بھاگ رہے ہیں؟ بدھ دیشوں کا بھی یہی حال ہے۔ گوتم بدھ کی اہنسا کو رویے میں اتارنے کی جگہ وہ تشدد کا سہارا کھلے عام لیتے ہیں۔ میانمار اور سری لنکا میں ہم نے دیکھا کہ اپنے آپ کو بھکشو یا سَنت یا منی سمجھنے والے لوگ اقلیتوں کا قتلِ عام کرنے میں ذرا بھی نہیں جھجکتے۔ ان پڑوسی ملکوں میں اقلیتوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ ان کے غصے یا عدم اطمینان کی کوئی فکر ہی نہیں کرتا لیکن بھارت میں جب بھی اقلیتوں کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے تو وہ خود تو اپنی آوازبلند کرتے ہی ہیں‘ ان کی حمایت کرنے کے لیے متعدد نیتا‘ دانشور اور غیر جانبدار لوگ بھی سامنے آنے سے ڈرتے نہیں۔
افغان طالبان کی منظوری کا سوال
طالبان سرکار کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں ایک پریس کانفرنس میں بولتے ہوئے دنیا کے ملکوں پر زور دیا کہ اگر مختلف ممالک نے طالبان سرکار کو جلد ہی تسلیم نہ کیا تو اس کے برے نتائج ساری دنیا کو بھگتنا ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ انہیں قبول کیا جانا ان کا حق ہے اور اس سے انہیں محروم کرنا کسی کے مفاد میں نہیں۔ طالبان کی پہلی بات عملی ہے اور سچ ہے لیکن دوسری بات آدھا سچ ہے۔ طالبان کو تسلیم کرنا اگر ممالک کے مفاد میں ہوتا تو وہ ابھی تک چپ کیوں بیٹھے رہتے؟ پاکستان‘ سعودی عرب اور یو اے ای جیسے ممالک نے بھی طالبان سرکارکو ابھی تک تسلیم نہیں کیا جبکہ پچھلی طالبان حکومت کو انہوں نے برسر اقتدار آتے ہی منظوری دے دی تھی۔ طالبان کو سب سے پہلے ایک سوال خود سے پوچھنا چاہئے‘ وہ یہ کہ پاکستان‘ سعودی عرب اور یو اے ای کو ابھی تک ان سے کیوں پرہیز ہے؟ ان کی مدد کے بغیر طالبان کا چلنا مشکل ہے۔ کابل پر طالبان کا کنٹرول ہونے کے بعد پاکستان نے اپنے ہائی آفیشلز کو کابل بھیجا۔ طالبان کے نمائندے امریکہ‘ چین‘ روس‘ ترکی‘ ایران اور یورپی یونین سے بھی برابر مل رہے ہیں۔ یہ ممالک افغان جنتا کو بھکمری سے بچانے کیلئے مدد بھی بھجوا رہے ہیں لیکن طالبان سرکار کو منظوری دینے کی ہمت کوئی بھی ملک کیوں نہیں جٹا پارہا؟ اس کی کئی وجوہات ہیں‘ ایک تو طالبان نے اپنی سرکار کا خود ہی کام چلاؤ اعلان کر رکھا ہے یعنی اسے درمیان میں لٹکا رکھا ہے تو دنیا کے ممالک اسے زمین پر اتارنے کی ذمہ داری کیوں لیں۔ دوسرا‘ طالبان سرکار کئی گروپوں سے مل کر بنی ہے۔ کب کون سا گروہ کس کا ساتھ چھوڑ دے‘ کچھ معلوم نہیں۔ 40 سال پہلے کا خلقی پرچمی زمانہ لوگ بھولے نہیں۔ تیسرا‘ ڈھائی ماہ گزر گئے لیکن ابھی تک طالبان ایسی جامع سرکار نہیں بنا پائے جسے مکمل افغان عوام کا نمائندہ کہا جاسکے۔ چوتھا‘ اب بھی افغانستان سے ایسی خبریں برابر آرہی ہیں جو طالبان کی شبیہ پر دھبا لگاتی ہیں۔ وہاں کی عورتوں‘ سٹوڈنٹس اور صحافیوں کو مارنے اور ستانے کی خبریں رک نہیں رہی ہیں۔ چاہے خود طالبان رہنما اس طرح کے ظالمانہ کارناموں کو فروغ نہ دیتے ہوں لیکن وہ اپنے حامیوں کو روکنے سے بھی قاصر ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو طالبان کا تسلیم کیا جانا مشکل ہوگا اور افغانستان کی جو 10 ارب ڈالر کی رقم امریکی بینکوں میں پڑی ہوئی ہے وہ بھی اسے نہیں مل پائے گی۔ اس وقت ضروری یہ ہے کہ افغان جنتا کو بھکمری اور انارکی سے بچایا جائے اور اس ٹارگٹ کے حصول کیلئے طالبان کو اگر سخت قدم اٹھانا پڑیں تو وہ بھی بے جھجک اٹھائے جائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved