عوام کی خدمت ہی نون لیگ کا
واحد سیاسی ایجنڈا ہے: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''عوام کی خدمت ہی نون لیگ کا واحد سیاسی ایجنڈا ہے‘‘ دراصل یہ سیاسی نہیں بلکہ معاشی ایجنڈا ہے تا کہ ملک میں کاروبار کو ترقی حاصل ہو اور ہر طرف روپے کی ریل پیل ہو جائے، ہر طرف نہیں تو کم از کم ایک طرف ضرور ہو جائے اور یہی وہ خدمت ہے جو نون لیگی حکومت ہر بار کرتی ہے اور اسی طرح اس کے ایجنڈے پر عمل درآمد ہوتا رہا ہے جو اب خواب و خیال ہو کر ہی رہ گیا ہے، اس لیے عوام اس ترقی کا ایک بار پھر مزہ چکھنے کے لیے تیار اور خبردار ہو جائیں ع
پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی
آپ اگلے روز لاہور میں جرمن سفیر سے ملاقات کر رہے تھے۔
حکومت سرمایہ کاروں کو سہولت
فراہم کر رہی ہے: فواد چودھری
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''حکومت سرمایہ کاروں کو سہولت فراہم کر رہی ہے‘‘ جو دراصل سرمایہ دار ہی ہیں کیونکہ ایک سرمایہ دار ہی سرمایہ کاری کر سکتا ہے جس کا اصل فائدہ عوام کو ہو گا کیونکہ ہم انہیں بھی عوام ہی سمجھتے ہیں کیونکہ یہ بھی ایک طرح سے غریب ہی ہوتے ہیں اس لیے ہم ان کی غریبی پر ترس کھاتے ہوئے انہیں سہولتیں فراہم کرتے ہیں تاکہ ساتھ ساتھ غریبوں کا بھی بھلا ہوتا رہے۔ اگرچہ وہ مست ملنگ واقع ہوئے ہیں اور انہیں کسی سہولت کی کچھ ایسی ضرورت نہیں ہے اور جہاں تک مہنگائی کا سوال ہے تو لوگ مہنگی چیزیں خریدتے ہی کیوں ہیں؟ اس کو آ بیل مجھے مار کہتے ہیں۔ آپ اگلے روز انٹرپرنیور آرگنائزیشن کے وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے
جس نے صحت کو ترجیح دی: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جس نے صحت کو ترجیح دی‘‘ جو ہماری اپنی صحت سے ظاہر ہے کہ ہٹے کٹے ہیں اور دس‘ دس سال کی قید سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ جیل سے مزید صحتمند ہو کر نکلتے ہیں اور یہی ہمارے عوام کا تقاضا بھی ہے کہ ہم تندرست رہیں جبکہ ہمیں دیکھ دیکھ کر وہ خود کو بھی صحتمند محسوس کرنے لگتے ہیں، اسی لیے ہم نے ان میں صحت کارڈ تقسیم نہیں کیے کیونکہ اگر وہ ہمیں جی بھر کے دیکھ سکتے ہیں تو انہیں ان چیزوں کی ضرورت ہی کیا ہے، البتہ ہمارے برعکس ان کے معدے اور ہاضمہ ابھی تک ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ آپ اگلے روز لاڑکانہ میں ایس آئی یو ٹی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت جیب کتروں کی طرح
لوٹ رہی ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت جیب کتروں کی طرح لوٹ رہی ہے‘‘ اگرچہ جیب کترا لوٹتا نہیں بلکہ چوری کرتا ہے کیونکہ لوٹ مار وہ ہوتی ہے جو بتا کر اور زبردستی کی جاتی ہے اور اسے لوٹ مار اس لیے کہا ہے کہ وہ بتا کر اور زبردستی جیبیںکترتی ہے کہ جو کچھ کرنا ہے کر لو، ہم تمہاری جیب کترنے لگے ہیں، اور اسی کو چوری بذریعہ سینہ زوری کہتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ عوام کی جیب اکثر خالی ہی نکلتی ہے جس سے اسے الٹا شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ جیب تراشی سے پہلے متعلقہ شخص سے پوچھ لیا کرے کہ تمہاری جیب میں کچھ ہے بھی کہ نہیں؟ آپ اگلے روز دورۂ فیصل آباد پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعظم نے میرا استعفیٰ مسترد کر
دیا، اب میں کیا کروں؟ عامر لیاقت
پی ٹی آئی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم نے میرا استعفیٰ مسترد کر دیا، اب میں کیا کروں؟‘‘ جو دراصل تکنیکی بنیادوں پر ایسا ہوا ہے کیونکہ سپیکرز آفس نے اس پر اعتراضات لگا دیے تھے اور استعفے میں یہ سقم اگر رکھے گئے تھے تو اس سے سپیکرز آفس کی اہلیت کا امتحان ہی لینا مقصود تھا اور میں اس بنا پر خاصا متجسس تھا کہ حکومت کو نا اہل کیوں کہا جا رہا تھا اور میرے استعفیٰ پر لگنے والے اعتراضات سے یہ بات غلط ثابت ہو گئی ہے؛ تاہم اب دوبارہ اور صحیح استعفیٰ دینا میں ضروری نہیں سمجھتا کہ آخر وضعداری بھی کوئی چیز ہوتی ہے جس کا میں ہمیشہ بہت خیال رکھتا ہوں، آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
جو لگی ہی نہیں وہ آگ بجھائی کیسی
کوئی قربت ہی نہیں تھی تو جدائی کیسی
تھی جو افواہ خبر بن کے ہوئی ہے ظاہر
میرے یاروں نے اڑائی تھی ہوائی کیسی
الٹے دیوالیہ ہو گئے ہیں محبت میں یہاں
اس تجارت میں بھی کی ہم نے کمائی کیسی
اور ہوتا گیا ہے گہرا اندھیرا کیا کیا
روشنی کے لیے یہ شمع جلائی کیسی
ایک ہی رنگ میں جب رنگے ہوئے ہیں سارے
کہیں اچھائی نہیں ہے تو برائی کیسی
ہم نے ہتھیار جو ڈالے ہیں تو جھگڑا کیسا
ہار ہی مان گئے ہیں تو لڑائی کیسی
صاف پہلے کی طرح ہو گئی ہے دل کی سلیٹ
ہم نے اس پر سے تری یاد مٹائی کیسی
یوں ہی موجود رہا اس کا شکنجہ ہم پر
ہم نے یہ اپنے تئیں جان چھڑائی کیسی
تم رنگے ہاتھوں ہی پکڑے گئے ہو تو ظفرؔ
عُذر پھر کیا ہے مری جان‘ صفائی کیسی
آج کا مطلع
اک دن ادھر سوارِ سمندِ سفر تو آئے
خود بڑھ کے روک لیں گے کہیں وہ نظر تو آئے