تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     06-11-2021

گھر نہ دیکھ‘ رہنے والوں کی بے بسی دیکھ

ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کے سامنے دستِ سوال بلند کیے پاکستانی قوم اپنی قسمت پر ماتم کرنے جا رہی ہے جس کی سب سے پہلی شرط یہی ہو گی کہ آپ نے پٹرول پر جو ٹیکسز کی شرح کم کی ہے‘ اسے بڑھائیں اور اپنی قوم پر مزید ٹیکسز لگائیں، نیز گیس‘ بجلی سمیت جن بھی اشیا پر جو سبسڈی عوام کو دی جا رہی ہے‘ وہ فوری طور پر ختم کر دیں۔ آج میں پاکستان کے عوام سے چند سوالات کرنا چاہتا ہوں‘ایک لمحے کے لیے سیاست کو چھوڑ دیجئے‘ آپ اپنی من پسند جماعتوں کی حمایت ضرور کریں‘ ان کے صحیح غلط فیصلوں کے لیے جواز بھی تراشیں مگر ضمیر کا فیصلہ کرتے ہوئے بتایئے کہ ہمارے لیے اورنج ٹرین ضروری تھی یاعالمی اداروں اور دوسرے ملکوں سے لئے جانے والے قرضوں کی ادائیگیاں؟ قرضوں کے لاتعداد بوجھ کے باوجود قرض لے کر ایسے منصوبے شروع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ پاکستان کی معیشت اور ادائیگیوں کے توازن پر لادا جانے والایہ بوجھ صوبے کے کتنے فیصد عوام کو فائدہ دے رہا ہے؟ اس منصوبے کا اصل زر تو چھوڑیے‘ سالانہ سود کی ادائیگیوں کیلئے پنجاب کئی دہائیوں تک دائروں میں گھومتا رہے گا۔
آئی ایم ایف جیسے ادارے کرپٹ حکمرانوں کے غریب ممالک کو کس طرح اپنے پنجے میں جکڑتے ہیں‘ اس کو ارجنٹائن کی مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے آئی ایم ایف کی آنکھوں میں اس ملک کے ضعیف العمر ریٹائرڈلوگوں کی پنشن کھٹکنا شروع ہوئی جس میں اس کے کہنے پر کمی کر دی گئی‘ نتیجہ یہ نکلا کہ ریٹائرڈ بوڑھے لوگ بھوکوں مرنے لگے۔ کچھ عرصہ بعد ہی ارجنٹائن کی دو ریٹائرڈ بوڑھی عورتوں نے بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر سر عام پھندے لے کر کر خود کشی کر لی۔ زمبابوے میں اس ادارے کی نظرِ انتخاب صحت کے بجٹ پر پڑی اور اس میں 30 فیصد کمی کرا دی گئی جس سے وہاں بچوں کی اموات کی شرح پانچ گنا بڑھ گئی۔ کینیا‘جہاں پرائمری تک تعلیم مفت تھی‘ یہ سہولت ختم کرا کے وہاں تعلیم کے شعبے کو تباہ کر دیا گیا۔ یہ عالمی ساہو کار جب فلپائن کی طرف بڑھا تو اسے مجبور کردیا کہ وہ اپنی زرعی زمینوں کو صنعتی مقاصد کیلئے استعمال میں لائے‘نتیجتاً اس ملک کی زرعی معیشت بھی تباہ ہو گئی۔ پاکستان میں مسلم لیگ کی حکومت میں 2013-14ء کے بجٹ میں حکومتی اللے تللوں کو ختم کرنے کے بجائے آئی ایم ایف کے مطالبے پر تعلیمی اداروں کی فیسوں پرٹیکس کا مقصداعلیٰ تعلیم کی راہیں مسدود کرنے کے علاوہ کیا ہو سکتا تھا؟
ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی بنیاد جولائی 1944ء میں اس و قت رکھی گئی جب دوسری جنگ عظیم اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی ایسے وقت میں امریکا اور برطانیہ سمیت دوسرے یورپی ملکوں نے فیصلہ کیا کہ یورپ کی تباہ حال معیشت سنوارنے کیلئے مالیاتی ادارے قائم کئے جائیں اور اس طرح انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ عالمی مالیاتی بینک، GATT اور آئی ایم ایف کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ان عالمی مالیاتی اداروں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ جنگ سے متاثرہ مغربی اقتصادیات کو دوبارہ منظم اور مستحکم کریں۔ اس حوالے سے منعقدہ کانفرنس نے امریکی ڈالر کو بین الاقوامی کرنسی کی حیثیت دی جس کی بنیاد سرمایے اورا شیا کی آزادانہ نقل و حرکت پر رکھی گئی۔ اس طرح اس کانفرنس کے نتیجے میں پوری بین الاقوامی تجارت امریکی ڈالر سے منسلک ہو گئی۔ ان مالیاتی اداروں نے بہت جلد یورپی ممالک کی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کر دیا کیونکہ وہاں کرپشن نہ ہونے کے برابر تھی اور ان کا کوئی ترقیاتی منصوبہ ہمارے منصوبوں کی طرح بے مقصد نہیںہوتا تھا۔
یورپی ممالک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے بعد ان مالیاتی اداروں نے تیسری دنیا کا رخ کیا تاکہ ترقی پذیر دنیا کے ملکوںکی اقتصادی حالت کو مضبوط کیا جائے۔ بظاہر ان کا نعرہ خوش کن او ر غریب ممالک کیلئے ہمت افزا تھا لیکن درپردہ مقصد ان ممالک کے تمام وسائل پر قبضہ کر نا تھا۔ یہ بدنیتی اس طرح ظاہر ہوئی کہ سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کے منہ سے ایک دن اچانک یہ جملہ نکل گیا ''غریب ملکوں کی امداد کا اصل مفہوم ان ملکوں کی مدد کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد خود اپنی مدد کرنا ہے‘‘۔ لوگ دیکھتے ہی ہوں گے کہ یہ مالیاتی ادار ے تیسری دنیا کے ملکوں کی مدد کے نام پر غریب ممالک کے فنڈز ضائع کرنے والے منصوبوں کیلئے قرضوں کی بھر مار کردیتے ہیں جو ان ملکوں کے حکمران اور افسران اپنے اللے تللوں پر خرچ کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی ملک ان عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ لینا شروع کر دیتا ہے تو ساتھ ہی وہ اپنی خود مختاری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور سول و عسکری معاملات پر وہاں کے حکمرانوں کی گرفت کمزور پڑ نا شروع ہوجاتی ہے۔ جمیکا کے صدر کا بڑا مشہور واقعہ ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کی تقریب میں دستخط کرنے کے بعد قانونی دستاویزات آئی ایم ایف کے نمائندے کے حوالے کرتے ہوئے انہوں نے نہایت بے بسی اور بیچارگی سے کہا تھا ''اب میرے ملک میں میری حکومت نہیں رہی‘ میری حکومت تو آپ کی نگران حکومت ہے اورآج سے میں جمیکا کا نگران صدر ہوں‘‘۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا کے غریب ملکوں کی معاشی‘ داخلی اور دفاعی پالیسیاں یہی عالمی مالیاتی ادارے بناتے ہیں۔ اگر آپ ان عالمی مالیاتی اداروں کے وسائل کی طرف دیکھیں تو یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ ان کا اپنا ایک دھیلا نہیں ہوتا مگر یہ پرائے دھن پر ہم جیسے ملکوں کو تگنی کا ناچ نچا دیتے ہیں۔
اگرچہ پاکستان نے پہلا غیر ملکی قرضہ 1950ء میں جبکہ 1958ء میں پہلی بار آئی ایم ایف سے قرض لیا لیکن پاکستان پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قبضے کا با قاعدہ آغاز 1972-77ء کے دوران اس وقت ہوا جب ''اوپیک‘‘ کے تیل پیدا کرنے والے ممالک نے قیمتیں بڑھا کر خطیر منافع حاصل کرنا شروع کر دیا۔ تیل پیدا کرنے والے چھوٹے چھوٹے ممالک اور ریاستوں نے تیل سے حاصل ان رقوم کو اپنے پاس رکھنے کے بجائے امریکا، برطانیہ،فرانس، جرمنی اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے بینکوں میں جمع کرا نا شروع کر دیا اور ان بھاری بھر کم رقوم کے رکھوالے ممالک کے بینک سوچ میں پڑ گئے کہ اتنی بڑی رقوم کا کیا کریں۔ ایسے وقت میں امریکی سرکاری ادارے اپنے خفیہ منصوبوں کے تحت آگے بڑھے اور عالمی بینکوں کو استعمال کرتے ہوئے تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی ساری دولت تیسری دنیا کے ملکوںکو مختلف قسم کے منصوبوں کے نام پر بطورِ قرض دینا شروع کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 1972ء سے 1982ء تک کے عشرے میں تیسری دنیا کے تیل پیدا نہ کرنے والے ممالک نے ڈالر کے مقابلے میں اپنی کرنسی کی قیمتیں کم کرنا شروع کر دیں جس سے ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ممالک پر قرضوں کا بوجھ پانچ گنا تک بڑھ گیا۔ 1980ء کے عشرے کے وسط میں اور پھر بعد میں بھی‘ گاہے گاہے سود کی جو بلند شرح مقرر کی جانے لگی اس نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا۔ دوسری طرف قرض کے طور پر ملنے والی ان رقوم کا بڑا حصہ تیسری دنیا کے ممالک نے یا تو غیر ضروری اور لایعنی منصوبوں پر ضائع کر دیا یا ان ممالک کے حکمرانوں اور اعلیٰ افسران کے ذاتی کھاتوں میں منتقل ہو کر یہ رقم دوبارہ ترقی یافتہ ممالک کے انہی بینکوں میں پہنچ گئی جہاں کے کھاتوں سے نکال کر یہ رقوم غریب ملکوں کو قرض کے طور پر دی گئی تھیں۔ پاناما، پنڈورا پیپرز، پاپڑ فروش، فالودے والا،نائی‘ دھوبی اور گمنام لوگوں کے بینک اکائونٹس سے کروڑوں‘ اربوں کی ٹرانزیکشنز ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ''گم ہوجانے والے‘‘ قرضوں کا کھرا بتا رہی ہیں۔
گھرکی ظاہری خوبصورتی اور دکھاوے کیلئے ترتیب دی گئی سجاوٹ اور بناوٹ نہ دیکھ‘ اگر دیکھنا ہے تو اس گھر کے مکینوں کو دیکھ! ان کو ہسپتالوں میں معمولی ادویات کیلئے دھکے کھاتے دیکھ‘ انہیں انصاف کے لیے تھانوں اور کچہریوں میں روتا بلکتا ہو ادیکھ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved