قومی کرکٹ ٹیم نے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں اب تک جو فتوحات حاصل کی ہیں‘ اُن کی بدولت عوام کچھ دیر کے لیے اپنی تمام پریشانیاں بھول گئے ہیں، تمام مسائل بہت حد تک طاقِ نسیاں پر دَھر دیے گئے ہیں۔ دس‘ بارہ سال کے دوران کرکٹ کے میدانوں میں قومی ٹیم کی کارکردگی کھٹّی میٹھی رہی ہے۔ کمی صلاحیت کی ہے نہ جذبے کی۔ مسئلہ یہ ہے کہ کرکٹ کی دنیا پر جن کا راج ہے‘ اُن کی من مانی چل رہی ہے۔ حالات کی خرابی کو بہانہ بناکر بڑی ٹیمیں پاکستان آنے کے لیے تیار نہیں۔ آئی سی سی میں جن ممالک کی بات زیادہ سُنی جاتی ہے اور جو اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرتے ہیں وہ پاکستان کو کرکٹ کے افق پر منور و تاباں دیکھنے کے قائل نہیں۔ اس حوالے سے بھارت کا کردار خصوصی طور پر انتہائی منفی رہا ہے۔ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر اُس نے پاکستان کو کرکٹ کی دنیا میں اجنبی بنانے کی بھرپور کوششیں کی ہیں۔ اگر کوئی اور ٹیم ہوتی تو 'اچھوتوں‘ والا سلوک نہ سہہ پاتی اور اُس کا مورال ایسا گرتا کہ پھر بحالی کی طرف نہ آتا۔ قومی کرکٹ ٹیم کو اس بات کی داد نہ دینا ناانصافی ہوگی کہ اُس نے انتہائی نوعیت کے امتیازی سلوک کے باوجود صلاحیت و سکت کا چراغ گل نہیں ہونے دیا۔ سٹار کرکٹر شاہد آفریدی نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان میں عالمی معیار کا ٹیلنٹ دکھائی نہیں دے رہا۔ میر ے نزدیک یہ بات درست نہیں کیونکہ ہمارے ہاں کرکٹ کی دنیا میں ہر طرح کا ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آتا رہا ہے۔ اگرچہ ڈومیسٹک کرکٹ کا ڈھانچا انتہائی کمزور ہوچکا ہے مگر پھر بھی لڑکے اپنی محنت کے بل پر بہت کچھ سیکھ کر ابھر رہے ہیں۔ بابر اعظم بھی ایسے ہی ماحول سے ابھرے ہیں۔ نئی نسل کو معلوم ہے کہ کرکٹ کے معاملات رُلے ہوئے ہیں‘ پھر بھی وہ اپنے بل پر محنت کرکے ابھر رہی ہے تو اِس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے؟
غیر معمولی عالمی دباؤ کے باوجود قومی ٹیم نے 2010ء کے بعد سے متعدد مواقع پر محض غیر معمولی نہیں‘ مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ 2014ء میں بنگلہ دیش میں میزبان ٹیم کے خلاف شاہد آفریدی کی شاندار کارکردگی والا میچ ہمارے لیے اب تک مایۂ ناز ہے۔ 2014ء ہی میں شاہد آفریدی نے آخری اوور میں بھارت کو آخری اوور میں دو چھکّے مار کر اہلِ وطن کو سرخرو کیا تھا۔ یہ سب ایسے وقت ہوا تھا جب پاکستان کو انتہائی خطرناک ملک قرار دے کر یہاں آنے سے ہر بڑے ملک کی کرکٹ ٹیم نے انکار کردیا تھا۔ چیمپئنز ٹرافی کے آخری ایونٹ میں قومی ٹیم نے بھارت کو جو عبرت ناک طریقے سے شکست دی تھی‘ وہ بھی پاکستان میں کرکٹ کا چراغ گُل کرنے کی حسرت رکھنے والوں کے سینے میں خنجر کی طرح گڑ گئی تھی۔ اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے بھارتی ٹیم نے 2019ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان کو سیمی فائنل تک پہنچنے سے روکنے کی ریشہ دوانیوں میں کھل کر حصہ لیا۔ جب بھی ہمارے خلاف خوب چالیں چلی گئیں‘ تب خدائے مہربان کی تدبیر نے حساب برابر کر دیا۔
قومی ٹیم کے تمام کھلاڑی ہر اعتبار سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے حالات کے شدید دباؤ کا پامردی سے سامنا کرتے ہوئے قوم کے دل خوش کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ جب جب قومی ٹیم پر عالمی کرکٹ کے اجارہ داروں نے دباؤ ڈال کر پاکستان میں کرکٹ کا گلا دبانے کی کوشش کی‘ تب تب ہمارے باصلاحیت کرکٹرز یوں ابھرے کہ ایک دنیا نے حیرت سے دیکھا اور دل کھول کر سراہا۔ گزشتہ ماہ نیوزی لینڈ کی ٹیم نے بالکل آخری لمحات میں نہ صرف میچ کھیلنے سے گریز کیا بلکہ سکیورٹی کا بہانہ بناکر پاکستان سے رخصت بھی ہوگئی۔ اس کے بعد انگلینڈ نے اپنا شیڈولڈ دورہ منسوخ کردیا۔ یہ انتہائی نوعیت کے اقدام تھے اور معاملہ کرکٹ کی دنیا میں خوب اُچھلا۔ کرکٹ کا فروغ چاہنے والوں نے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کو خوب مطعون کیا۔ کھیلوں جیسے انسان دوست معاملات میں کسی بھی ملک کو دبوچنے کا یہ بھونڈا طریقہ ہر اعتبار سے اس قابل تھا کہ اِس کی شدید بھرپور مذمت کی جاتی۔ قومی کرکٹ ٹیم نے شدید دباؤ ڈالے جانے پر اُتنی ہی شدت اور تیزی سے ابھرنے کی اپنی روایت نہ صرف یہ کہ برقرار رکھی ہے بلکہ یہ معاملہ انوکھی شان کا حامل رہا ہے۔ کم و بیش ایک عشرے سے ہر بڑی ٹیم پاکستان آنے سے انکاری رہی ہے اور ایسے تمام میچ متحدہ عرب امارات میں ہوتے رہے ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان سے جو امتیازی سلوک روا رکھا گیا‘ اُس کے پاداش میں سب کو منہ کی کھانا پڑی اور ٹیم پاکستان رینکنگ میں پہلے نمبر تک پہنچنے میں کامیاب رہی۔ پاکستان نے انگلینڈ کو بھی ہرایا اور اِس طرح کہ اپنے تو اپنے ‘ بیگانے بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔
متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں جاری ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں قومی کرکٹ نے اب تک انتہائی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم کے لیے خوب دل بستگی کا سامان کیا ہے۔ ایک زمانے سے یہ قوم فتوحات کے لیے ترسی ہوئی تھی۔ اللہ کے کرم سے فتوحات نصیب بھی ہوئیں تو کن ٹیموں کے خلاف؟ اُن کے خلاف جو ہمارا بُرا چاہنے میں پیچھے نہیں رہی تھیں۔ بھارت، نیوزی لینڈ اور افغانستان کو شاندار انداز سے شکست دینے کے بعد قومی ٹیم نے نمیبیا کو بھی ہرایا اور سیمی فائنل میں پہنچ گئی۔ جب ٹورنامنٹ شروع ہوا تھا تب پاکستان کے حوالے سے ملی جلی آرا کا اظہار کیا جارہا تھا۔ پاکستان کو ہاٹ فیورٹ قرار دینے کا حوصلہ چند ہی تجزیہ کاروں میں تھا اور اُن میں بھی بیشتر اپنے ہی تھے۔ سیمی فائنل تک تو ہم خیر بھارت کو ہراتے ہی پہنچ گئے تھے! ہاں! رسمی کارروائی کی مد میں باقی میچز بھی کھیلنا پڑے۔ اب صرف کل (اتوار کو) سکاٹ لینڈ سے میچ باقی رہتا ہے۔ پاکستان اور سکاٹ لینڈ کے میچ سے قبل نیوزی لینڈ اور افغانستان کا میچ ہے۔ اس میچ کا نتیجہ غیر یقینی صورتِ حال کو مکمل طور پر ختم کردے گا، اس وقت تک صورتِ حال کافی حد تک واضح ہوچکی ہوگی اور نیوزی لینڈ کی فتح کی صورت میں اس امر کا تعین ہوچکا ہوگا کہ گروپ بی سے پاکستان کے علاوہ‘ کون سی ٹیم سپر فور کے مرحلے میں جائے گی۔
پورا خطہ یہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہے کہ بھارت سیمی فائنل تک پہنچ پاتا ہے یا نہیں۔ جس گروپ میں پاکستان ہے اُس کے پچھلے دو تین میچوں کے دوران بھارت، نیوزی لینڈ اور افغانستان پر سب سے زیادہ دباؤ رن ریٹ کا رہا ہے۔ بھارت پر یہ دباؤ بہت زیادہ ہے۔ رن ریٹ کی بنیاد پر اپنے لیے امکانات زندہ رکھنے کے لیے لازم تھا کہ وہ افغانستان کو کم از کم 65 رنز سے شکست دے اور اُس نے ''کسی نہ کسی طرح‘‘ یہ میچ 66 رنز کے فرق سے جیتا۔ سکاٹ لینڈ کو بھی بڑے فرق سے ہرانا بھارت کے لیے لازم ہوگیا تھا۔ہاں! نیوزی لینڈ نے نمیبیا کو 52 رنز سے شکست دے کر اپنا رن ریٹ +1.277 کرلیا ہے۔ اب بھارت سکاٹ لینڈ کے خلاف کھیلے جانے والے میچ میں بچ رہنے والی کسر نمیبیا کے خلاف پوری کرنے کی کوشش کرے گا۔ خیر! دوسروں سے ہمیں کیا۔
ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ ہم نے اب کیا کرنا ہے۔ سیمی فائنل کا مرحلہ شروع ہوا چاہتا ہے۔ قومی ٹیم تیار ہے۔ سیمی فائنل میں آسٹریلیا سے ٹاکرا متوقع ہے اور یہ ٹاکرا بھی دیکھنے سے تعلق رکھے گا۔ پوری قوم اس بات سے بے حد خوش ہے کہ جن ٹیموں نے ہمارے معاملات بگاڑنے کی کوشش کی تھی اُن سب کا حشر نشر ہوا۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے‘ عزت و ذلت کے فیصلے اس جہان میں نہیں ہوتے۔جب اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کرلیا ہو کہ فلاں کو عزت ملنی ہے تو پھر اسے عزت مل کر ہی رہے گی۔ پاکستان سے جو امتیازی سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے اُس کے تناظر میں ہماری فتوحات اللہ کے خاص کرم کا اظہار ہیں۔ اِن شاء اللہ یہی جذبہ برقرار رہے گا، قومی ٹیم کا مورال بلند رہے گا اور ہم پوری شان و شوکت کے ساتھ فتوحات کا سفر جاری رکھیں گے۔