تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     07-11-2021

خبطِ عظمت کا جنون

شعیب اختر اور پی ٹی وی سپورٹس چینل کے میزبان ڈاکٹر نعمان نیاز کے درمیان لائیو شو میں جو کچھ ہوا اسے دیکھ اور سن کر شمس تبریز اور رومی کے مابین گفتگو یاد آئی جو ترکی کی شاندار مصنفہ نے اپنے کمال ناول Forty Rules of Love میں لکھی تھی۔
مجھے اعتراف کرنے دیں کہ حالیہ برسوں میں جن دو ناولوں نے میری سوچ بدلی یا مجھے ٹرانسفارم کیا ان میں ''فورٹی رولز آف لو‘‘ اور ماریو پزو کا ناول ''گاڈ فادر‘‘ شامل ہیں۔
جب شمس تبریز کی رومی سے ملاقات ہوئی اور وہ اکٹھے رہنے لگے تو شمس کو اندازہ ہوا لوگ رومی کی بے پناہ عزت کرتے ہیں‘ اسے دنیا کا نیک ترین انسان تصور کرتے ہیں جو کبھی کوئی غلط یا غیر شرعی کام نہیں کر سکتا۔ شمس کو لگا رومی میں زعم تقویٰ بھرتا جارہا ہے۔ ایک دن رومی کو شمس نے کہا: جائو اور شہر کے شراب خانے سے میرے لیے وائن لے کر آئو۔ رومی اپنے گرو کو بھلا کیسے انکار کرتا۔ شراب خانے سے شراب خریدنے اندر داخل ہوا تو پورا شہر امڈ آیا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ رومی جیسا نیک انسان شراب خانے سے شراب لینے آیا ہے؟
رومی نے شراب خریدی اور جاکر اپنے گرو کو پیش کی۔ شمس صرف یہ چاہتا تھا کہ رومی کے اندر اتنا تقویٰ نہ بھر جائے کہ وہ خبطِ عظمت کا شکار ہو جائے‘ لوگ اس کی پوجا نہ شروع کر دیں کہ وہ انسان نہیں کوئی دیوتا ہے۔ اسی ناول میں ایک اور واقعہ جس نے مجھے بہت متاثر کیا اور میری سوچ انسانوں کے حوالے سے بدلی‘ وہ تھا جب شمس تبریز رومی کے گھر ٹھہرا ہوا ہوتا ہے تو ایک دن باہر شور مچ جاتا ہے۔ شمس باہر نکل کر پوچھتا ہے کیا ہورہا ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ ایک طوائف رومی کے گھر شمس سے ملنے آئی ہے۔ شمس پوچھتا ہے: اس پر اتنا شور کیسا؟ گھر والے جواب دیتے ہیں: آپ کے نزدیک یہ کوئی بات ہی نہیں کہ رومی جیسے نیک انسان کے گھر کی چھت کے نیچے ایک طوائف موجود ہے۔
شمس تبریز نے انگلی اٹھا کر آسمان کی طرف اشارہ کرکے کہا: پہلے بھی تو رومی اور یہ طوائف بلکہ ہم سب لوگ اس بڑی نیلی چھت تلے اکٹھے رہتے ہیں۔ اگر اس چھت کے نیچے ایک طوائف کے ساتھ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو رومی کی چھت سے کیا فرق پڑ جائے گا؟
اسی طرح جب گوتم بدھ نے پاس شہزادے آتے تھے تو وہ پہلا کام یہ کرتا کہ انہیں کشکول دے کر کہتا: جائو گائوں گائوں پھرو اور بھیک مانگ کر لائو۔ اب شہزادوں سے بھیک منگوانے کا کیا مقصد تھا؟ ایک ہی تھاکہ انسان کی انا کو توڑا جائے۔ انسانی مسائل کی ذمہ دار جہاں دیگر خرابیاں ہیں‘ ان میں سے ایک بڑی خرابی اس کی انا ہے۔ انسان انا کی خاطر اچھے کام کرتا ہے اور برے بھی۔ یہی انا اس سے نیکی کراتی ہے لیکن اپنے جیسے انسان کا قتل بھی کرا دیتی ہے۔
میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میری انا نے مجھے کئی مواقع پر بہت نقصان پہنچایا۔ آج پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ کئی مواقع پر مجھے خاموش رہنا چاہیے تھا۔ کچھ کام مجھے نہیں کرنے چاہیے تھے۔ بعض باتیں کسی کی مان لینا چاہیے تھیں۔ اپنی انا کو اتنی اہمیت نہیں دینا چاہیے تھی کہ مجھے ہی نقصان ہوتا۔ اب بھی میری انا بہت دفعہ اکساتی ہے‘ مجھے غصہ دلاتی ہے لیکن میں خود کی کونسلنگ کرتا ہوں۔ رومی اور شمس تبریز کی ملاقات کا احوال یاد کرتا ہوں یا پھر خیالات میں گوتم بدھ کے شہزادوں کو گلی گلی‘ کریہ کریہ ہر دروازے پر دستک دے کر کچھ مانگتے دیکھتا ہوں تو میرا اندر کچھ سکون پاتا ہے۔ ہم انسانوں کی کتنی اوقات ہے اور کتنی دیر لگتی ہے ہیرو سے زیرو بننے میں۔ ایک چھوٹی سے انسانی غلطی یا بے احتیاطی اور آپ پر سب پتھر لے کر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ خدا تو انسان کو معاف کر دیتا ہے لیکن ہم انسان ایک دوسرے کو معاف نہیں کر پاتے۔ ہم بھی شاید زعمِ تقویٰ کا شکار ہوتے ہیں ۔
اینکر ڈاکٹر نعمان نیاز بھی شاید اس لمحے اپنی انا کے ہاتھوں شکست کھا گئے جب انہوں نے شعیب اختر کو شو سے چلے جانے کو کہا‘ اور پھر شعیب کے کہنے پر ایک لفظ 'سوری‘ کہنے سے انکاری ہو گئے۔ ڈاکٹر نعمان کی انا نے کہا ہوگا کہ وہ عالمی کھلاڑیوں گاور اور رچرڈز سامنے کیوں سوری کریں یا شعیب نے سوچا ہوگا‘ ان دونوں عظیم کھلاڑیوں کے سامنے اس سے سوری نہ کی گئی تو اس کی ساکھ خراب ہوگی یا پھر سوچا ہوگا کہ پوری دنیا دیکھ رہی تھی کہ کیا ہوا؟
اب اگر ڈاکٹر نعمان ایک لفظ 'سوری‘ کہہ دیتے تو کیا بگڑ جاتا؟ اس کے بعد جو کچھ انہیں فیس کرنا پڑا‘ اس کے مقابلے میں 'سوری‘ کہنا بہت چھوٹی قیمت تھی۔ میں نے جب ڈاکٹر نعمان نیاز کے ساتھ تبادلہ خیالات کیا تو انہوں نے کھل کر شعیب اختر سے معافی مانگی۔ ان دنوں میں ڈاکٹر نعمان کو سوشل میڈیا پر ہدفِ تنقید بنایا گیا‘ بُرا بھلا کہا گیا۔ جس ویڈیو میں ڈاکٹر صاحب نے معافی مانگی تھی‘ اس کے نیچے دو ڈھائی ہزار نامناسب کمنٹس کیے گئے۔ بندہ اپنی غلطی کی معافی نہ مانگے تو پھر باتیں سننا پڑتی ہیں۔ ڈاکٹر نعمان سے اگر غلطی ہوئی تو کیا ان کے قریبی افراد کو بھی اس غلطی کی سزا گالیوں کی صورت میں بھگتنا ہو گی؟ ہمارے دینِ اسلام میں معاف کر دینے والے کے لیے بڑا صلہ اور اس کا بڑا مقام بتایا گیا ہے۔ کیا ہم میں سے کوئی زندگی میں غلطی نہیں کرتا؟ کیا ہم سب فرشتے ہیں؟ کیا ہم سب ہی نیک روحیں ہیں؟ ہم خود اپنے لیے لوگوں سے معافی کی توقع رکھتے ہیں اور دوسروں کے کیس میں ہم سزا پر یقین رکھتے ہیں۔
اختلاف کا اظہار تمیز سے بھی ہو سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ گالیاں دے کر ہی غصہ نکالا جائے۔ مشہور ہونا جہاں ایک نعمت ہے وہیں یہ بہت بڑی سزا بلکہ آزمائش بھی ہے۔ آپ کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کون سی چھوٹی یا بڑی غلطی کی سزا نہ صرف آپ کو بلکہ آپ کے قریبی لوگوں کو بھی جھیلنا پڑے۔
مشہور بندے کو گرانے کے لیے لوگ موقع ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ میرا خیال تھا‘ شعیب اختر بڑے دل کا مظاہرہ کریں گے اور ڈاکٹر نعمان کی معافی کو پازیٹو لیں گے۔ اگرچہ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ڈاکٹر نعمان کو معاف کر دیا تھا‘ لیکن پھر 'اگر مگر‘ کر کے جو باتیں کی گئیں‘ اس سے لگتا ہے کہ ہم سب کے اندر چھوٹے چھوٹے دیوتا بستے ہیں جو ہمیں نچلا نہیں بیٹھنے دیتے۔ خدا ہمیں جتنی شہرت اور عزت دیتا چلا جاتا ہے ہماری انا کا قد بھی اتنا بلند ہوتا جاتا ہے۔ ہم خبطِ عظمت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہی بات کہ انا آپ کو اوپر بھی لے جاتی ہے اور وہی نیچے بھی لے آتی ہے۔ شعیب اختر کو اپنے تیس سالہ پرانے دوست ڈاکٹر نعمان سے سبق سیکھنے کی ضرورت تھی کہ انسان خود پر کنٹرول نہ کرے تو کیا کیا مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ شعیب اختر کا اس واقعے بعد بار بار اپنی عظمت کو اپنے منہ سے دہرانا بھی ان کے لیے خطرے کی نشانی ہے۔ خبطِ عظمت نقصان پہنچاتا ہے۔ شعیب اختر کو ٹی وی پر اس ایشو پر بولتے سن کر پتہ نہیں مجھے کیوں لگتا ہے وہ بھی اسی خبطِ عظمت کا شکار ہو رہے ہیں جس کا شکار ان کے تیس سال پرانا دوست ڈاکٹر نعمان ہوئے تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved