تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     07-11-2021

حکومت، اپوزیشن اور عوام!!

پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی جو ''کارروائی‘‘ جمعہ کو رات گئے ڈالی گئی‘ اس پر عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ یہ اضافہ یکم نومبر کو ٹال دیا گیا تھا لیکن تین اور چار نومبر کی درمیانی رات کر دیا گیا۔ اس کو کارروائی اس لیے کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ ایک معمول کا فیصلہ تھا جو دن کی روشنی میں ہونا چاہئے تھا‘ لیکن رات دو بجے خبر بریک کی گئی اور عوام صبح نیند سے بیدار ہوئے تو انہیں پٹرول بم گرنے کا علم ہوا۔ اب قیمتوں میں اضافہ اور مہنگائی کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ مہنگائی پر پچھلے ہفتے لکھا کالم بھی پرانا لگتا ہے اور بار بار کا یہ رونا بوریت کا باعث بن رہا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں کے علاوہ بجلی کے نرخ بھی بڑھا دیئے گئے ہیں۔ بجلی کی بنیادی قیمتوں میں 1 روپیہ 68 پیسے فی یونٹ تک اضافہ کردیا گیا ہے۔ کمرشل و صنعتی صارفین کیلئے 1 روپیہ 39 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا۔300 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کیلئے بجلی کی قیمت 13 روپے 83 پیسے فی یونٹ ہوگئی۔ حکومت کا خیال ہے کہ 300 یونٹ بجلی استعمال کرنے والا گھرانہ خوشحال ہوتا ہے اور وہ نرخوں میں اضافے کا متحمل ہے۔ اگر یہ درست ہے تو اس پر بات کرنا بھی فضول ہوگا۔
مہنگائی کی خبروں تلے دبے عوام کی طرح جمعہ کے روز کی سب سے اہم خبر بھی دب گئی اور یہ خبر تھی ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں دھاندلی کے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ۔ یہ رپورٹ چشم کشا ہے اور ''صاف چلی شفاف چلی‘‘ والی تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف سب سے بڑی چارج شیٹ بھی۔
الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 کے ضمنی الیکشن سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ میں منظم دھاندلی کا سراغ لگایا ہے۔ پانچ سال تک اپوزیشن میں رہ کر 35 پنکچرز کا راگ الاپنے اور دھرنوں سے نظام حکومت کو مفلوج کرنے والے جب خود اقتدار میں آئے تو خود کیا کرتے اور سوچتے ہیں، اس رپورٹ نے سب سچ سامنے رکھ دیا ہے۔ یہ رپورٹ صرف دھاندلی آشکار کرنے تک محدود نہیں رکھی جا سکتی بلکہ یہ ایک فوجداری معاملہ ہے۔ کئی ایک نام اس رپورٹ میں لکھے گئے ہیں لیکن اس منظم دھاندلی کا کھرا تلاش کرنا ہوگا، کوئی بھی ڈسٹرکٹ افسر کسی مشیر اطلاعات کے کہنے پر اتنی منظم دھاندلی کا منصوبہ نہیں بنا سکتا‘ اور اس رپورٹ کے مطابق تو محکمہ تعلیم، پولیس اور ضلعی انتظامیہ، یعنی پوری سرکاری مشینری اس دھاندلی میں استعمال ہوئی۔ اس رپورٹ کی روشنی میں سابق معاون خصوصی وزیر اعلیٰ پنجاب فردوس عاشق اعوان کو حکومتی شخصیت کے طور پر دھاندلی کا منصوبہ ساز اور اس پر مکمل عملدرآمد کا اکیلے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ الیکشن کمیشن کی تحقیقات میں اس انتخابی عمل میں براہ راست شریک افراد کے متعلق بات کی گئی ہے اور اس کا دائرہ کار بھی یہیں تک تھا لیکن اس رپورٹ کی بنیاد پر فوجداری کارروائی شروع کرکے اس سے بڑے ملزموں کی نشاندہی لازمی ہے۔
یہ رپورٹ پڑھ کر سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ کیا کرپشن کے خاتمے کا مشن لے کر آنے والوں نے تمام سرکاری مشینری کو ہی کرپٹ کردیا؟ ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز، پریزائیڈنگ افسر، محکمہ تعلیم کے کئی افسر اور پھر پولیس افسروں کی ایک فوج، ان سب کو اکیلے کوئی ایک مینج نہیں کر سکتا تھا، 17 پریزائیڈنگ افسروں کی طرف سے ایک ہی شخص کے ہاتھ سے لکھے گئے خطوط، پولیس کے ایس ایچ اوز کس طرح سے الیکشن منیجر بنے رہے، پولنگ سٹیشنوں پر تعینات پولیس اہلکار سکیورٹی کے بجائے پریزائیڈنگ افسروں کے اغوا کا کام کرتے رہے، ریٹرننگ افسر اور ڈپٹی ریٹرننگ افسر کی لاعلمی، اس دھاندلی میں کتنے ہی عوامل اور کردار ہیں، پرت در پرت کہانی کھلتی چلی جاتی ہے۔
اپوزیشن کا کردار نبھاتے ہوئے یہی تحریک انصاف دوسروں کو بیلٹ باکس چور کہتی تھی، یہاں تو پورے کا پورا الیکشن ہی منصوبے کے تحت چوری کیا گیا، 35 پنکچروں کی کہانی سنانے والوں نے ماضی میں 4 حلقے اس اعتماد پر کھلوائے تھے کہ منظم دھاندلی ثابت ہو جائے گی اور حکومت دھڑام سے نیچے آ گرے گی لیکن اب ان کی اپنی منظم دھاندلی ثابت ہوگئی ہے، دوسروں کو ''بکسہ چور‘‘ کہنے والے، کیا اب خود احتسابی کیلئے تیار ہیں؟
ای وی ایم یعنی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر اپوزیشن کے تحفظات اس رپورٹ کے بعد سچ ثابت ہوتے نظر آتے ہیں اور الیکشن کمیشن کے اختیارات چھیننے کا جو منصوبہ تھا، اس رپورٹ نے حکومتی عزائم کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ اپوزیشن اور اداروں کو بلڈوز کرکے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو لانے پر اصرار کرنے والوں پر اب کون اعتبار کرے گا؟
چار پانچ ہفتوں سے ملک میں جو سیاسی اور انتظامی ہڑبونگ مچی ہے‘ اس سے مجھے یوں لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کسی ''خودکش مشن‘‘ پر ہے۔ پہلے ایک حساس ادارے میں معمول کی تقرری پر بے وجہ لڑائی مول لی، پھر ایک کے ایک بعد مہنگائی بم پھوڑنے میں لگی ہے اور جب اس کے خلاف ردعمل آتا ہے تو کپتان اپنے وسیم اکرم پلس کو مخاطب کر کے کہتے ہیں، ''عثمان بزدار صاحب! جو آپ سے کارکردگی کا سوال کرے ان سے کہیں پانچ سال کے بعد پوچھنا، ہمیں پانچ سال کا مینڈیٹ ملا ہے!‘‘ کوئی انہیں یاد دلائے کہ انہیں اگر کوئی مینڈیٹ ملا تھا تو وہ معاشی انصاف تھا، نظام انصاف کا تھا، سماجی انصاف کا تھا، غربت کے خاتمے کا تھا، روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا تھا، 'سٹیٹس کو‘ توڑنے کا تھا، کرپشن کے خاتمے کا تھا... کپتان کے وعدوں کی ایک لمبی فہرست ہے، جو شاید اب انہیں خود بھی یاد نہ ہو۔
کپتان جب وزیراعلیٰ پنجاب کو یہ کہہ رہے تھے تو یقینی طور پر بزدار صاحب کو بہت حوصلہ ملا ہوگا کہ جس نے مجھ سے پوچھنا تھا اس نے ڈیل اور ڈھیل‘ دونوں دے دیں‘ لیکن کیا سیاسی اور معاشی چیلنجوں میں گھرا کوئی سیاستدان اس طرح پانچ سال کے مینڈیٹ کا بہانہ بناکر ان تمام سوالوں کو مسترد کر سکتا ہے؟؟ یہی شواہد ہیں جن کی بنیاد پر مجھے یقین ہے کہ کپتان اور ان کی ٹیم سیاسی خودکشی کے مشن پر ہے اور کپتان کا بزدار کو بظاہر یہ مشورہ دراصل کسی اور کے لیے پیغام تھا، بالکل ویسا ہی پیغام جیسے ساس اپنی بہو کو جلی کٹی سنانا چاہتی ہے لیکن حوصلہ نہیں پاتی اور بیٹی کو مخاطب کرکے بہانے بہانے سے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتی ہے۔ پنجابی کا ایک محاورہ ہے ''کہنا دھی نوں تے سنانا نونہہ نوں‘‘ یعنی کہنا بیٹی کو اور سنانا بہو کو۔
اس صورتحال میں اپوزیشن کا کردار بھی افسوسناک ہے۔ عوام غربت اور مہنگائی کے بوجھ سے مرنے کو ہیں لیکن اپوزیشن عوامی موڈ کو تحریک میں بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہی۔ ایسا لگتا ہے‘ اپوزیشن یہ سوچ رہی ہے کہ حکومت اپنے بوجھ اور حماقتوں سے خود گر پڑے یا پھر سیاسی خودکشی کے مشن کو خود ہی انجام دے۔ شاید اسی لیے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کی ڈوبتی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے آئینی راستے نکالیں اور اس حکومت سے چھٹکارے کا بندوبست کریں‘‘۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر اپوزیشن اسی طرح انتظار میں رہی تو اسے جان لینا چاہئے کہ عوام کی ترجمانی نہ کرکے ووٹ کیلئے عوام کو باہر نکالنا ممکن نہیں ہوگا۔ اگر آج سیاستدان عوام سے لاتعلق رہے تو کل کو عوام بھی ان سے لاتعلق ہوں گے اور پھر کوئی یہ شکوہ نہ کرے کہ 'قدم بڑھاؤ‘ کا نعرہ لگانے والے ساتھ نہیں آئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved