تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     07-11-2021

کرکٹ کپ اور خالصتان

باوجود اس کے کہ جنوبی ایشیا کے لوگ کرکٹ کپ میں ہر طرح سے مگن ہیں اور ہر شعبہ زندگی بالخصوص میڈیا کی توجہ بلکہ شہ سرخیاں بھی کرکٹ کی خبروں کے گرد گھومتی ہیں ‘پھر بھی یکم نومبر کو بھارتی سکھوں نے اپنے لئے ایک آزاد ریاست خالصتان حاصل کرنے کے لئے برطانیہ میںاپنی طرز کا ایک ریفرنڈم کروایا۔واضح رہے سکھ دنیا کی وہ سب سے بڑی قوم ہیں جنہوں نے اپنے ملک میں نا مساعد حالات کی وجہ سے اپنا ملک چھوڑ کرپوری دنیا میں ہجرت کی ہے۔مجبوراً ہجرت کرنے والی قوم کو Diaspora کہا جاتا ہے۔اس وقت چالیس سے ساٹھ لاکھ سکھ انڈیا سے دور رہ رہے ہیں جبکہ سکھوں کی کل آبادی اڑھائی سے تین کروڑ بتائی جاتی ہے۔یکم نومبر کے دن کا انتخاب در اصل سکھوں پر ہونے والے 1984ء کے نسل کش اقدامات کی وجہ سے تھا جو اندرا گاندھی کے اکتوبر میں اپنے سکھ باڈی گارڈز کے ہاتھوںقتل کے بعد ہوئے جبکہ اندرا گاندھی کے قتل کی وجہ 1984ء میں جون کے مہینے میں سکھوں کی سب سے بڑی اور مقدس عبادت گاہ پر بھارتی فوج کے ٹینکوں سے حملے اور اس عبادت گاہ کے بڑے حصے کی تباہی تھی ۔اس حملے میں سکھوں کے سب سے بڑے آزادی پسند ہیرو نما لیڈر سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کی ساتھیوںسمیت ہلاکت کے ساتھ ساتھ سینکڑوں یاتریوں کی بھی ہلاکت ہوئی ۔ان ہلاک شدگان میں عورتیں ‘بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے۔اس حملے کی کمان بھارتی فوج کے میجر جنرل رینک کے ایک افسر نے کی تھی۔اس آپریشن کو بہت سے لوگ Oppressionکا نام دیتے ہیں ۔اس کی بہت بڑی اور مدلل وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اگر صرف گولڈن ٹیمپل کی بلڈنگ کا کچھ دنوں یا ہفتوں کے لئے گھیرائو کر لیا جاتا ‘اس کی بجلی ‘ٹیلی فون اور پانی کاٹ دیا جاتا ‘ خوراک کی سپلائی بند کر دی جاتی تو لازمی طور اند ر پناہ حاصل کئے لوگوں کو سررنڈر کرنے پر مجبور کیا جا سکتا تھا ‘لیکن اس Oppressionکا مقصد سکھوں کے اندر پائی جانے والی وسیع تر آزادی کی تحریک کو کچلنا اور باقی کے سکھوں کی حوصلہ شکنی کرکے ان کے اند ڈر اور خوف پیدا کرنا تھا۔اس آپریشن کا نام'' بلیو سٹار‘‘ رکھا گیا تھا ۔
31 اکتوبر کواندرا گاندھی کے قتل کے بعد یکم نومبر کو ہی پنجاب سمیت پورے بھارت میں سکھوں کے خلاف بھیانک ترین حملے شروع کر دیے گئے۔زیادہ تر سکھوں کو جلا کر ہلاک کیا گیا۔اسی طرح ان کی املاک کو بھی خاکستر کر دیا گیا۔یہ نسل کش فسادات کئی دن تک جاری رہے۔ان حملوں میں سرکار کے کردار کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اندرا گاندھی کے بیٹے اور اگلے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے جان لیوا فسادات پر صرف یہ الفاظ بولے تھے ''جب بڑا درخت گرتا ہے تو زمین لرزتی تو ہے‘‘۔ حالات کی تلخی اور انڈین حکومت اور فوج کی پتلی حالت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس آپریشن کے انچارج میجر جنرل کے ایس برار تا حال ایک مفرور کی سی زندگی گزار رہاہے ۔اس پر آخری حملہ ستمبر 2012ء میں برطانیہ میںہوا تھا جبکہ اُس وقت کے انڈین آرمی چیفAS Vaidya کو 1986ء میں قتل کر دیا گیا تھا ۔اسی طرح اس آپریشن کے بعد اگلے بھارتی وزیر اعظم سے قدرے صلح جُو معاہدہ کرنے والے بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ ہرچند سنگھ لونگووال کو بھی 1985ء میں قتل کر دیاگیاتھا۔
بھارت کے سکھوں کی اپنی آزادی کی تحریک یوں تو تقسیم ہند کے بعد جلد ہی شروع ہوگئی تھی کیونکہ خود مختار صوبہ تو کجابھارتی پنجاب کا پہلا سکھ وزیراعلیٰ بھی 1967ء تک نہیں بن سکا تھا۔ گویا بیس سال تک بھارتی پنجاب ‘جس کی آبادی کا 60فیصدسکھ ہیں‘کے وزیر اعلیٰ ہندو ہی رہے۔1973ء میں سکھوں نے انندپور میں اپنے حقوق کے لئے ایک قرارداد منظور کی جس کو منوانے کے لئے جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے نے نئے سرے سے ایک تحریک شروع کی ۔اس سلسلے میں 1981ء میں ہونے والی مردم شماری میں ایک نیا تنازع ایک ہندو صحافی کی تحریک نے کھڑا کر دیا اس صحافی کا نا م جگت نارائن تھا جس نے بھارتی پنجاب کے ہندوئوں کو اکسایا کہ وہ اپنی مادری زبان پنجابی کی بجائے ہندی لکھوائیں۔اس کشمکش اور چپقلش نے بھی بہت شدت اختیار کی اور اس کا محرک بھی مارا گیا ۔
یہاںایک اہم بات کا تذکرہ ضروری ہے کی بھارتی پنجاب کو پہلے ہی تین حصوں میں تقسیم کیا جا چکا تھا۔ بھارت میں سکھ کل آبادی کا بمشکل دو فیصدہیں جبکہ بھارتی فوج کا آٹھ سے دس فیصد سکھ ہیں‘ جس کی بڑی وجہ سکھ قوم کا دلیر ہونا ہے۔بھارت کے اندر سکھوں کو چونکہ نظر انداز کیا گیا اور واضح طور پر انہیں برہمن کی تنگ نظری کا سامنا کرنا پڑتا تھا اس لئے 1970ء کی دہائی میں بالخصوص اس قوم کے لوگ کینیڈا‘ امریکہ اور دیگر ملکوں کو جانا شروع ہو گئے اور اس وقت تقریباً پچاس لاکھ سکھ انڈیا سے باہر ہیں۔ یہ سکھDiaspora جو مجبوری میں انڈیا چھوڑ کر گئے ہیں اس وقت خالصتان کی تحریک کا اصل روح رواں اور جان ہیں۔ یہ سکھ یورپ‘امریکہ‘کینیڈا‘آسٹریلیا اور دیگر ملکوں میں آباد ہیں ۔اس سلسلے میں سکھوں نے اقوام متحدہ کے سامنے اس سال بھی‘ کووڈ وبا کے باوجود بڑی تعداد میں اکٹھے ہو کر مظاہرہ کیا۔اس مظاہرے کے موقع پر سب سے اہم بات سکھ بچوں کے درمیاں سانحہ گولڈن ٹیمپل کی یاد میں ہونے والا تصویری نمائش کا مقابلہ تھا ۔مقصد یہ تھا کہ سکھ اپنے ماضی اور حقوق کے حوالے سے اپنی بیرون ملک پیدا ہونے والی نسل کو آگاہ کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ اس وقت کینیڈا کا وزیر دفاع ایک بھارتی سکھ ہے جس نے 2017ء میں جون کے مہینے میں گولڈن ٹیمپل کی یاد میں ایک مظاہرے کا اہتمام کروایا تھا جس میں کینیڈا کے وزیراعظم نے بھی اپنے سر پر خالصتان کے جھنڈے کے رنگ کا کپڑا پہن کر شرکت کی تھی۔بعد ازاں اسی سکھ وزیر کے دورہ ٔبھارت کے موقع پر پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے ملاقات تک نہیں کی تھی۔
یہاں ایک تاریخی حوالے کا ذکر بہت ضروری محسوس ہوتا ہے۔وہ کچھ یوں ہے کہ جب اندرا گاندھی سے خالصتان کی تحریک کے بارے میں ایک انٹرویو میں سوال کیا گیا تو اس نے یہ کہہ کر بات کو رد کرنے کی کوشش کی کہ خالصتان تحریک صرف کینیڈا اور برطانیہ کی حد تک ہے‘یعنی بھارت میں اس کا کوئی وجود نہیں ‘ جبکہ بعد میں وہ اس تحریک کے تناظر میں ہی قتل ہو ئی تھی۔ اس کے بعد راجیو گاندھی سری لنکا کے تاملوں کی پر تشدد علیحدگی پسند تحریک کی ہر طرح سے حمایت اور دخل اندازی کے نتیجے میں ‘اسی تحریک کے لوگوں کے ہاتھوں ایک خود کش دھماکے میں قتل ہو گیا ۔رہی بات افغانستان سے ایک فکس میچ جیتنے اور We will ball First کی ویڈیو کے چرچے کی تو بھارت تا حال اسی طرح عالمی طاقتوں کی وجہ سے ہر میدان فکس کر کے چل رہا ہے ۔ برہمنی سوچ اور راج کے اندر صرف ایلیٹ کلاس کے ہندو کے اقتدار اور فائدے کا دور دورہ ہے مگر سکھوں کا حالیہ ریفرنڈم اصل ہے اور اس کا نتیجہ بھارت کی ہار میں نظر آرہا ہے کیونکہ خالصتان کی تان پوری دنیا میں گونج رہی ہے ۔اس تحریک کی اہمیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ تین سال قبل بھارت میں چین کے سفیر نے سکھوں کے مذہبی مقام کا دورہ کیا تھا جس کا صاف اور واضح مقصد بھارت کو پیغام دینا تھا کہ اگر وہ بلا وجہ اور اپنے حد اور قد سے بڑھ کر علاقائی جنگی حرکتوں سے باز نہ آیا تو چین ایک عالمی طاقت اور ہمسایہ ملک ہونے کی وجہ سے کبھی بھی اس تحریک کو عملی شکل دے سکتا ہے اور یہ سب بھی ایک فکس میچ کی طرح ہو گاجس کا نتیجہ بھارت کے خلاف نکلے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved