تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     07-11-2021

قتل گاہوں کا مسکن

دلت‘ سکھ‘ عیسائی اور مسلمانوں کے قتل عام میں پیش پیش رہنے والے بھارت کی 19 ریا ستوں کے اراکین اسمبلی اور لوک سبھا سمیت راجیہ سبھا کے1600 سے زائد اراکین پارلیمنٹ کے خلاف درج 3211 مقدمات کی سماعت روکنے کے بعد اب مودی ٹولے نے بھارت کے پینل کوڈ کے سیکشن321 کا حوالہ دیتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ ان کے خلاف درج کئے گئے یہ سب مقدمات خارج کر دیے جائیں‘ یعنی مودی ٹولے کے ایک حکم کے ذریعے بھارت میں بسنے والے 2345 انسانوں کا قانون بنانے والے اراکین اسمبلی کے ہاتھوں کیا گیا قتل عام جائز ہے اور اس حکم کے ذریعے بھارت کے قانون نافذ کرنے والے ا داروں کو یہ چتاؤنی دی گئی ہے کہ آ ئندہ بھارت میں بسنے والی ان اقلیتوں کے انفرادی یا اجتماعی قتل عام پر آنکھیں بند کر لی جائیں اور اسے ایک عام سی بات سمجھ کر نظر انداز کردیا جائے ۔ ان میں کیرالہ‘ اتر پردیش‘ تلنگانہ‘ تامل ناڈو اور کرناٹک میں بہیمانہ قتل عام بھی شامل ہیں جن میں سینکڑوں بچوں او ر عورتوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔ مظفر نگر میں تو خون کی وہ ہولی کھیلی گئی جس میں 65 مسلمانوں کے جسموں کو کاٹ کر پھینک دیا گیا تھا۔ اندور سے اجمیر تک خونِ مسلم سے اپنی پیاس بجھانا اب بھاجپا کا قومی کھیل بنتا جا رہا ہے۔
آج کرۂ ارض پر جدھر بھی نگاہ ڈالیں خون مسلم بہایا جا رہا ہے‘ جسے بہتا دیکھنے کے باوجوددنیا بے حس ہے۔ میانمار میںبدھسٹ انتہا پسندوں نے ہند وشدت پسند تنظیموں کی مالی مدد اور فوجی جنتا کی پشت پناہی سے میڈیا کے کیمروں کے سامنے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ کیا کسی پر کوئی اثر ہوا؟ کسی نے ان کا ہاتھ پکڑا؟میڈیا اس قتل عام پر نہ جانے کیوں خاموش رہا۔ جب روہنگیا مسلمانوں کی لاشیں جلائی جا رہی تھیں‘ بچوں کو دریائوں میں پھینکا جا رہا تھا تو اس وقت انسانی حقوق اور مسنگ پرسنز کی گردان کرنے والے کہاں تھے؟ انہیں مصر ‘ یمن‘ تیونس ‘ ایران ‘ سعودی عرب اور پاکستان میں بنیا دی حقوق کی پا مالی سوتے جاگتے نظر آ جاتی ہے‘ انہیں افغانستان میںانتہا پسندی نظر آنے لگتی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ انہیں فلسطین‘ میانمار‘مقبوضہ کشمیر اور ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی عزتوں اور جان و مال کی تباہی و بربادی کرنے والے کبھی بھی دکھائی نہیں دیتے ؟
شام اور افغانستان میں ہونے والی قتل و غارت‘ جس کی پشت پناہی امریکہ ‘ اسرائیل اوربھارت اپنی لے پالک داعش سے کررہے ہیں‘کے خلاف عالمی ضمیر کیوں بیدار نہیں ہوتا؟ وادی کشمیر میں وہ کون سا دن ہے‘ وہ کون سی گھڑی ہے جب وہاں مقابلے کے نام پر کشمیریوں کی نوجوان نسل کو قتل نہ کیا گیا ہو؟ اگر برطانیہ‘ آسٹریلیا اور سائوتھ افریقہ کی شہریت لینے کے باوجود‘ ان ممالک سے وفاداری کا حلف اٹھانے کے با وجود بھارتی کرکٹ ٹیم کو وہاں کھیلتے ہوئے سپورٹ کر سکتے ہیں ‘ بھارتی ٹیم کی جیت پر لڈیاں ڈال سکتے اور نعرے لگا سکتے ہیں تو کشمیر جس پر بھارت نے جبری اور غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے وہاں رہنے والے بھارت سے نجات کیلئے بھارت کے خلاف پاکستان کی فتح پر خوشی مناتے ہی تو یہ کون سا جرم ہے جس کا بدلہ لینے کے لیے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ان کی قتل گاہ بنا دیا ہے ؟
گزشتہ 73 برسوں سے کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان بہو بیٹیوں بچوں ‘ بوڑھوں اور نوجوانوں کی بھارتی قتل گاہوں سے اٹھنے والی چیخوں سے کشمیر کی وادیاں گونج رہی ہیں‘ یہ چیخیں کسی کو کیوں سنائی نہیں دیتیں؟ مقبوضہ جموں وکشمیر خواتین کمیشن کی 2010-12 ء کی رپورٹ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں کے پاس محفوظ ہے جس کے مطابق270 مسلم کشمیری خواتین کی عصمت دری اور 746 کے اغوا کے واقعات بھارتی فوج اور سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہو ئے۔1989ء سے اب تک مجموعی طور پر 10333 کشمیر ی مسلم خواتین ریپ کا شکار ہو چکی ہیں اور ایک رپورٹ کے مطابق 43763 کشمیری خواتین بھارتی فوج کی درندگی کے ہاتھوں بیوہ ہو چکی ہیں۔اس کے با وجوداقوام متحدہ اور اس کے سر پرستوں سمیت آج کی ترقی یافتہ دنیا‘ میڈیا اورہیومن رائٹس تنظیموں کی جانب سے عالمی ضمیر جھنجھوڑنے کے با وجود بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔یہ کیسا عالمی ضمیر ہے جو ہمیشہ ایک آنکھ سے دیکھتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ برما اور کشمیر سے چونکہ تیل نہیں نکلتا اس لیے وہاںانسانی حقوق‘ جمہوریت اور مذہبی انتہا پسندی کے جرائم کی طرف دیکھنے والی کوئی آنکھ نہیں۔
مقبوضہ کشمیراور ہندوستان کے مسلمان اقوام متحدہ کی نظروں میں شاید انسان نہیں ہیں‘ جب وہاں عورتوں اور معصوم بچوں سمیت ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے تو لگتا ہے کہ عالمی ضمیرنام کا وجودبے سدھ پڑا ہے ۔ میانمار کی اپوزیشن لیڈر آنگ سانگ سوچی کی قید پر ہر وقت تڑپنے اور سسکنے والوں کا ضمیر بیس ہزار سے زائد روہنگیا مسلمانوں کی کٹی پھٹی لاشوں پر کیوں نہ جاگ سکا ؟ شاید اس کی صرف ایک ہی آنکھ ہے۔ مسلم دشمنی کی آنکھ‘ اسلام سے تعصب برتنے والی آنکھ ‘خون مسلم کو بہتا دیکھ کر مدہوش رہنے والی آنکھ۔
اگر اقوام متحدہ کبھی امریکی اور یہودی تسلط سے آزاد ہو جائے‘ اگر دنیا بھر کی ہیومن رائٹس تنظیموں میں سے کسی کو احساس ہو جائے اور اگر دنیا بھر کے میڈیا میں سے کسی ایک کو بھی یاد آ جائے کہ 11 دسمبر1946ء کواقوام متحدہ نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس کے تحت شہریوں کا کسی بھی قسم کا قتل عام اور نسل کشی ‘چاہے وہ حالت ِجنگ میںہو یا امن میں‘ عالمی قوانین کے تحت ایک سنگین جرم ہے اور اس قرار داد پر دستخط کرنے والے اقوام متحدہ کے ہر رکن ملک پر واجب ہے کہ وہ اس قتلِ عام کو روکے‘ لیکن بھارت میں قانون فوج کی باندی بن چکا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ پانچ نہتے مسلمانوں کو پتھری بل میں بھارتی فوجی افسروں اور جوانوں نے سب کے سامنے گولیوں سے بھون دیا ‘جس پر جوڈیشل مجسٹریٹ سری نگر نے انہیں مجرم قرار دے دیا اور سری نگر ہائی کورٹ نے جوڈیشل مجسٹریٹ سری نگر کے فیصلے کی توثیق کر دی ‘جس کے خلاف بھارتی فوج نے سپریم کورٹ میں اس بنا پر اپیل کر دی کہ بھارتی فوجی افسروں اور جوانوں پر قتل عام کا مقدمہ چلانے کی باقاعدہ اجا زت حاصل نہیں کی گئی۔ جس کے جواب میں کہاگیا کہ بھارتی قانونArmed Forces Special Powers Act (AFSPA)کے تحت کسی اجا زت کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ''cold-blooded murder‘‘ سرکاری فرائض کی حدود میں نہیں آتے ۔ بھارتی سپریم کور ٹ آئین اور قانون سے ہٹ کر بھارتی فوج کو بچانے کیلئے بے بس ہوگئی اور اس قتل عام پر اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈال دی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved