حکمران چاہے کوئی بھی جماعت ہو‘ پاکستان کی سیاست اور معاشرہ‘ دونوں ایک بحران سے دوسرے بحران کی طرف گامزن رہتے ہیں۔ دو بڑے ایشوز پاکستان کے سماجی و اقتصادی مسائل کی جڑ ہیں: گورننس اور شہریوں کے لیے معاشی تحفظ۔ معاشی تحفظ کا قریبی تعلق میکرو لیول کے معاشی اشاریوں سے ہے جیسے مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی)، اقتصادی ترقی کی شرح، بجٹ خسارہ، ادائیگیوں کا توازن اور تجارتی توازن کے معاملات اور یہ سوال کہ اقتصادی ترقی سے کس کو فائدہ ہوتا ہے؟
کوئی بھی معاشرہ داخلی ہم آہنگی اور امن کو برقرار نہیں رکھ سکتا جب تک حکومت کی طرف سے گورننس کے مسائل پر توجہ نہیں دی جاتی اور معاشی پالیسیوں سے عام لوگوں کو غیرامتیازی بنیادوں پر فائدہ نہیں پہنچتا۔ حکومت کو گڈگورننس یقینی بنانے کیلئے کام کرنا چاہیے‘ جس کا مطلب ہے بدعنوانی سے پاک مؤثر انتظامیہ، قومی وسائل کے ضیاع کو روکتے ہوئے ان کا مناسب استعمال، قانون کی حکمرانی‘ ریاست کی جانب سے شہریوں کے ساتھ مساوات پر مبنی طرزِعمل اور ان کے جان و مال کی حفاظت۔ معاشرے میں امن و استحکام کی دوسری شرط کا انحصار معیشت کی انتظام کاری پر ہے۔ تناسب کے لحاظ سے معاشی ترقی‘ اقتصادی ترقی کی پیمائش کیلئے ایک ناقص معیار ہے۔ اہم معاملہ یہ ہے کہ معاشی ترقی سے فائدہ کون اٹھاتا ہے؟ اگر معاشی ترقی عدم مساوات بڑھاتی ہے تو اس سے معاشرے میں تلخی اور تنازعات پیدا ہوتے ہیں‘ لہٰذا حکومت کو معاشی ترقی کے سماجی اثرات پر کڑی نظر رکھنی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ معاشی ترقی سے عام لوگ بھی مستفید ہوں۔ گڈ گورننس پر یقین رکھنے والی حکومت کا فرض ہے کہ وہ معاشرے کے غریب اور پسماندہ طبقات کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کیلئے معاشی سیکٹر پر توجہ دے۔ حکومت کو شہریوں کو باعزت زندگی گزارنے کیلئے صحت، تعلیم اور شہری سہولیات جیسی بنیادی خدمات فراہم کرنی چاہئیں۔ سیلاب، زلزلوں ‘وبائی امراض اور دوسری آفات سے نمٹنے کی صلاحیت ہونا بھی اسی کا حصہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ افراد کی صلاحیتوں اور قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بہتر مستقبل کی امید کے ساتھ انہیں ایک باوقار زندگی گزارنے کے قابل بنائے۔ اگر روزگار کے مواقع کم اور روزگار ملنے کے امکانات محدود ہو جائیں یا موجود ہی نہ رہیں تو لوگ ریاست اور حکومت کے بارے میں منفی رویے ظاہر کرتے ہیں اور معاشرہ وقتاً فوقتاً خرابی کا شکار ہو جاتا ہے۔
آج، حکومتوں کی کارکردگی کو 2015 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے منظور کردہ 17 معیاروں پر پرکھا جاتا ہے، جنہیں ''پائیدار ترقیاتی اہداف‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اہداف 2015 اور 2030 کے درمیانی عرصے میں ''سب کیلئے ایک بہتر اور زیادہ پائیدار مستقبل‘‘ کے حصول کی خاطر رہنما خطوط کے طور پر مقرر کیے گئے ہیں۔ ان اہداف نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی حکومتوں پر عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کے حوالے سے زیادہ ذمہ داری عائد کر دی ہے۔اگرچہ گورننس اور سماجی ترقی کے معاملات داخلی ریاستی امور کی انتظام کاری کیلئے ہمیشہ اہم رہے، لیکن 1989-90 میں سرد جنگ کے خاتمے اور دسمبر 1991 میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد ان پر زیادہ توجہ دی جانے لگی۔ ان پیشرفتوں کو ریاست کے زیر کنٹرول معیشت کے مقابلے میں مغربی جمہوریت اور لبرل معیشت کی فتح کے طور پر بیان کیا گیا۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے جمہوریت، شہری اور سیاسی حقوق اور لبرل معاشیات پر زور دینا شروع کر دیا جس کے تحت پرائیویٹائزیشن، سرمایہ کاری اور علاقائی حدود میں آزادانہ تجارت پر زور دیا گیا۔ اس نے اس مظہر کی راہ ہموار کی جسے گلوبلائزیشن کہا جاتا ہے‘ جس کا مقصد ریاستوں کی علاقائی حدود میں اقتصادی تعامل کو مضبوط بنانا تھا۔
پاکستان گڈگورننس اور 'غریبوں کیلئے معیشت‘ کے اہم تقاضوں پر پورا نہیں اترسکا ہے۔ معیشت کو ہمیشہ کئی مسائل کا سامنا رہا‘ جن میں معاشی تفاوت اور بیروزگاری بھی شامل ہیں۔ اگست 2018 میں موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو یہ مسائل پاکستان میں موجود تھے۔ غیرملکی قرضوں کا بھاری بوجھ اور معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے آئی ایم ایف کی مدد حاصل کرنے کی میراث بھی‘ اسے ورثے میں ملے تھے۔ پی ٹی آئی کے تین سالہ دور حکومت میں ان مسائل کی شدت میں اضافہ ہوا۔ سب سے مشکل مسئلہ معیشت کا ہے جس کا تعلق عام لوگوں سے ہے۔ قیمتوں میں اضافے نے عوام کو بری طرح متاثر کیا ہے اور پی ٹی آئی حکومت کو ان معاشی مسائل سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سرکاری دلیل یہ ہے کہ قیمتوں میں حالیہ اضافہ کسی پالیسی کی ناکامی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کا سبب عالمی رجحان ہے۔ قیمتوں میں اضافے کی عالمی لہر سے پاکستان بھی متاثر ہورہا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہر جگہ قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے‘ اس کے باوجود حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو شدید معاشی دباؤ سے بچائے۔ قیمتوں میں اضافہ کاروباری اور تجارتی طبقوں کی لالچ کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔
اشیا کی قیمتیں ناقابلِ وضاحت تیزرفتاری سے بڑھ رہی ہیں۔ قیمتوں کو مستحکم کرنے کیلئے مارکیٹ کی قوتوں کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے جس کیلئے مارکیٹ میں مداخلت ناگزیر ہے‘ لیکن پی ٹی آئی حکومت نے صارفین کو کچھ سبسڈی دینے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ احساس پروگرام کے تحت کچھ مالی مدد کی پیشکش کی جا رہی ہے۔ ان اقدامات سے کچھ لوگوں کو معاشی ریلیف ملا ہے؛ تاہم یہ حکمت عملی معاشی مسائل کا کوئی پائیدار حل نہیں۔ سبسڈیز حکومت پر مالی بوجھ بڑھا رہی ہیں جس سے پہلے سے بلند بجٹ خسارہ مزید بڑھ جائے گا۔ اس سے پاکستان کا غیرملکی قرضوں اور گرانٹس پر انحصار بڑھے گا۔ اس کے بجائے حکومت کو اچھی گورننس‘ اور مارکیٹ کی قوتوں کی انتظام کاری پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے تاکہ انہیں قیمتوں میں تیزی سے اضافہ کرنے سے روکا جا سکے۔
یہ واضح کرنے کیلئے کافی تاریخی شواہد موجود ہیں کہ اگر نوجوان سیاسی نظام سے امید کھو دیں، محفوظ معاشی مستقبل کے امکانات محدود ہوتے دیکھیں تو سیاسی نظام سے ان کا لگاؤ کمزور ہو جاتا ہے اور وہ انتہا پسندانہ اپیل یا سیاسی ڈھانچے‘ جس کی بنیاد نسل، علاقے یا کسی اور تنگ بنیاد پر ہو‘ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر موجودہ بحران زدہ معاشی رجحانات جاری رہے اور حکومت معقول طور پر اچھی حکمرانی کو یقینی نہ بنا سکی تو پاکستان کو غیرریاستی متشدد تنظیموں کی جانب سے مزید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کیلئے واحد خوشخبری یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مہنگائی کے خلاف بڑے پیمانے پر متحرک ہوکر چیلنج کرنے کی بار بار کوششوں کے باوجود عام لوگ حکومت کو ناک آؤٹ کرنے کیلئے متحرک نہیں ہوئے‘ تاہم یہ حالت غیر معینہ مدت تک جاری نہیں رہ سکتی۔ ایجی ٹیشن سے دور رہنے کے عوامی فیصلے کے ذریعے حکومت کو جو موقع ملا ہے‘ اسے حکومت کو اپنی قانونی اور انتظامی طاقت بڑھانے اور ریاستی مشینری کو قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے تاکہ عوام کی بہتری کیلئے معیشت کو سنبھالا دیا جا سکے۔ ایسا نہ کر سکنے کی صورت میں حکومت کی سیاسی مشکلات بڑھ جائیں گی۔