تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     08-11-2021

کچھ غیر ضروری باتیں

ضروری باتوں کا ہم سب سے زیادہ کس کو پتہ ہو سکتا ہے۔ آئیے آج چند غیر ضروری باتیں کرکے دیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم سب کو پتہ ہے کہ کراچی کے سیاست کار ہر روز کہتے ہیں: کراچی کو کچرا کنڈی بنادیا گیا۔ وہ سارے جانتے ہیں کہ کراچی کبھی روشنیوں کا شہر تھا‘ یہ بھی خوب جانتے ہیں کہ کراچی میں سرکلر ریلوے‘ پبلک ٹرانسپورٹ‘ بسوں اور ٹرکوں کے بیچوں بیچ گھنٹہ بجاتی‘ بھاگتی دوڑتی ٹرام چلا کرتی تھی۔ سرکلر ریلوے‘ سرکل کے پیچھے ایسی گھمائی گئی کہ بیچاری چکر کھا کر گر گئی۔ پبلک ٹرانسپورٹ والی بس کی تو بس ہی ہو کر رہ گئی۔ ٹرام کی ٹاں ٹاں نکل گئی‘ اور شہر میں جمہوریت کے ثمرات اور چائنا کٹنگ کے درمیان پھلنے پھولنے کا مقابلہ شروع ہو گیا۔
ایک اور غیر ضروری بات یہ بھی ہے کہ کراچی کی کچرا کنڈیوں کے لیے کچرا آتا کہاں سے ہے؟ ظاہر ہے‘ پاک سرزمین کے شاد آباد باسی گند پھیلانے سے رہے۔ ہو سکتا ہے تل ابیب سے رات گئے کچرے کے بھرے ہوئے جہاز صہیونی سازش کے تحت آکر کچرا گرا جاتے ہوں۔ ویسے غیر ضروری زمانے کی ایک اور بات بھی کر لینی چاہئے جو کسی درویش نے کہی تھی۔ دنیا میں گندگی پھیلانے کا ذمہ دار وہ شخص ہے جو اپنے گھر کے باہر گندگی کی ڈھیری لگاتا ہے پھر اسے محلے میں پھیل جانے کا موقع دیتا ہے۔ اپنے دروازے کے اندر صفائی رکھتا ہے اور اپنے دروازے کے باہر غلاظت پسند کرتا ہے۔ اس غیر ضروری بات کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں اور آئیے سب مل کر انتظار کریں کہ ہم سب کے گھروں کے باہر کچرا اُٹھانے والا کب آئے گا۔
مرحوم ٹی وی فنکار معین اختر اور صاحبِ طرز لکھاری جناب انور مقصود نے اسی غیر ضروری موضوع پر آپس میں کچھ غیر ضروری گفتگو کی تھی‘ جس کے وڈیو کلپ میں ایک ڈائیلاگ یوں ہے۔ انور مقصود ٹی وی اینکر بن کر بیٹھے ہیں جبکہ معین اختر کچرا کنڈی کی صفائی کرنے والا سینیٹری ورکر۔ اینکر نے سینیٹری ورکر سے پوچھا: تمہیں اپنی قو م سے کیا چاہئے؟ سینیٹری ورکر نے برجستہ جواب دیا: مجھے پرائیڈ آف پرفارمنس چاہئے۔ اینکر بولے: کس بات کا پرائیڈ آف پرفارمنس‘ تم صفائی والے ہو‘ تمہاری پرائیڈ والی پرفارمنس ہے کون سی؟ سینیٹری ورکر نے جواب دیا: جی وہی والی‘ جس میں پرفارمنس آپ لوگ پھیلاتے ہیں اور بڑے پرائیڈ کے ساتھ اُس کی صفائی کرنا ہمارا کام ہے۔
کراچی میں یہ جو علامتی گفتگو ہوئی‘ اُس کی پرفارمنس اب ملک کے شہروں میں کیا‘ چھوٹے چھوٹے دیہات کی گلیوں میں بھی کھلے عام دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی تسلسل میں ایف بی آر کے ایک سابق بڑے ذمہ دار نے چند باتیں یوں کر رکھی ہیں۔
پہلی غیر ضروری بات: میری کوشش تھی کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بینکنگ ڈیٹا تک رسائی حاصل ہو جائے۔ پاکستان میں بزنس اکائونٹس کی تعداد چار کروڑ ہے لیکن ان میں سے صرف ایک کروڑ بزنس اکائونٹس ٹیکس میں ڈکلیئرڈ ہیں۔ ملک میں امیروں کی ریل پیل کے مظاہرے ہر طرف نظر آتے ہیں۔ یہاں اس غیر ضروری بات میں یہ اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان حکومت کے دور میں ٹیکس کولیکشن میں ریکارڈ اضافہ ہوا‘ مگر ٹیکس دینے والے ملک کی کُل آبادی کا اعشاریہ صفر لگا کر بھی معمولی سا حصہ بنتے ہیں‘ یعنی دو ملین سے تھوڑے اوپر۔
دوسری غیر ضروری بات: وطن عزیز میں گوشت (بیف انڈسٹری) کی اتنی بڑی ٹریڈ ہے کہ ایک ایک گوشت والا منوں‘ ٹنوں کے حساب سے روزانہ گوشت بیچتا ہے لیکن اس میں سے سرکار کو ایک پیسہ بھی نہیں جاتا۔ ہاں جو خزانے کے حصے میں آتا ہے وہ گوشت کی آلائشوں اور غلاظتوں کو مفت میں اٹھانے والی پرفارمنس کا پرائیڈ ہے‘ اور کچھ نہیں۔
تیسری غیر ضروری بات: پاکستان میں سِلک پروڈیوس کرنے والا کوئی بھی یونٹ نہیں چل رہا‘ نہ ہی پاکستان سلک امپورٹ کر رہا ہے۔ اس حوالے سے انتہائی غیر ضروری بات یہ ہے کہ کوئی اندازہ لگائے کہ پاکستان کے گلی کوچوں میں پھیلا ہوا سلک کا کپڑ ا سمگل نہیں ہوتا تو پھر یہ کہاں سے آ رہا ہے۔ ملک میں وہ کون سا مائی کا لعل ادارہ ہے جو گُڈز آف سمگلنگ بیچنے والوں پر کہیں چھاپہ مار سکے‘ سمگلنگ آئٹم کی بر آمدگی کرسکے‘ یا پھر کسی شاپنگ مال‘ کسی باڑے میں گھس کر اوپن سیل آف سلک کو روک سکے۔
چوتھی غیر ضروری بات: پورے ملک میں بڑی کمائی والی بہت بڑی انڈسٹری‘ سیاست کاروں اور ان کے خانوادوں کے پاس ہے مگر ماسوائے ایک کے کسی سیاست کار کی کوئی کمپنی لسٹڈ نہیں۔ یہ ایشو ہے معیشت کے منظم یا غیر منظم ہونے کا جیسے فرٹیلائزر تو ڈاکومینٹڈ ہے لیکن اُس کا کوئی ڈیلر رجسٹرڈ نہیں ہے۔ اسی طرح سے چینی کا بھی کوئی ڈیلر رجسٹرڈ نہیں۔
پانچویں غیر ضروری بات: میں نے ایک اکائونٹ ایسا بھی دیکھا‘ جس میں اربوں روپے آ جا رہے ہیں لیکن اس کا کوئی این ٹی این نمبر نہیں۔ جس کسی کے اکائونٹ میں اتنی بڑی رقم آئے جائے‘ اُس کا نیشنل ٹیکس نمبر ہونا چاہئے۔ چاہے اس کی لمِٹ آپ ایک کروڑ روپے کر لیں‘ 10 کروڑ روپے رکھ دیں‘ لیکن این ٹی این کا نمبر تو ہونا چاہئے۔
اپنے ہاں ایک اور ماڈرن رواج چل نکلا ہے‘ ہم تجزیہ کرنے کے لیے اپنا مقابلہ یورپ‘ برطانیہ‘ امریکہ سے نیچے کسی سے نہیںکرتے۔ بنگلہ دیش‘ انڈیا‘ ایران‘ افغانستان تک ہماری بریک ہی نہیں لگتی۔ چلئے یورپ برطانیہ اور امریکہ سے بھی مقابلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں‘ لیکن ایک غیر ضروری بات یہ ضرور ہے کہ وہاں کس طرح کے ٹیکس سسٹم ہیں‘ یہ بھی تو کوئی قوم کو بتائے۔ ان ملکوں میں کیا سمگل شدہ سلک کے ڈھیر‘ سلک کی باڑا منڈیاں اور سلک سینٹرز کھولنے کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟ کیا کسی کے اکائونٹ میں اربوں آ جا رہے ہوں اور وہ ٹیکس ادا نہ کرے‘ اس کا کوئی سوچ بھی سکتا ہے؟ ان سارے سوالوں کا جواب یہاں نہیں دیا جا سکتا‘ اس لئے کہ نہ یہ سوال ہمارے ہیں اور نہ ہی جواب ہمارے ہو سکتے ہیں۔
غیر ضروری کا ذکر آتے ہی ایک اور بات یاد آ گئی۔ ان دنوں ماضی مرحوم کا پی ڈی ایم مہنگائی کے خلاف مظاہرے کرنے نکلا ہے۔ پی ڈی ایم کی بانی ہونے کا برانڈڈ رائٹ رکھنے والی پی پی پی سندھ میں مہنگائی کے خلاف مظاہرے کرنے نکل کھڑی ہوئی‘ جسے پہلا اقتدار 1970ء میں ملا تھا اور اب پچھلے 14 سال سے وہ صوبہ سندھ میں مسلسل برسر اقتدار چلی آ رہی ہے۔ پی ڈی ایم کے صاحبِ صدر والی جمعیت 1970ء سے لے کر 2017ء تک کہیں نہ کہیں شریکِ اقتدار رہی۔ احتجاج سب کا حق ہے‘ اس پہ کون اعتراض کرے‘ لیکن ایک غیر ضروری بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ احتجاج کے ایجنڈے میں منافع خور‘ ذخیرہ اندوز‘ مڈل مین‘ آڑھتی‘ کم تولنے والے‘ دودھ میں ملاوٹ کرنے والے اور گدھے کا گوشت بیچنے والے شامل کرنے میں کیا حرج ہے؟ سیاسی احتجاج ضروری ہے مگر ان کے خلاف احتجاج غیر ضروری بات کیوں ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved