تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     26-07-2013

آؤ بچو سیر کرائیں تم کو پاکستان کی

ڈیلاویر کے نسیم حسن اور سیاٹل کے سعید احمد خان دوست ہیں۔ پہلے مشرقی اور دوسرے مغربی ساحل پر رہتے ہیں۔ وہ دونوں امریکی شہری ہیں مگر پاکستان سے تعلق خاطر رکھتے ہیں‘ روزگار کے جھمیلوں میں وہ پاکستان کو بھول نہیں سکے ۔ایک عشرے کے بعد دونوں یکے بعد دیگرے پاکستان گئے اور اپنے آبائی شہر لاہور کے گلی کوچوں میں گھومے پھرے۔ واپس آکر انہوں نے ایک دوسرے اور باقی دوستوں کے لئے اپنے تاثرات قلم بند کئے ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان بدل گیا ہے مگر اس کے کچھ حصے اب تک جوں کے توں ہیں ۔ نسیم حسن لکھتے ہیں کہ پاکستان کو دو بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ اول‘ آبادی میں بے تحاشا اضافہ جس کے نتیجے میں بے روزگاری بڑھی ہے اورتعلیم اور صحت کے انتظامات نا کافی ہو گئے ہیں ۔ دوم‘ قانون کی عملداری کا فقدان جس نے کرپشن اور دہشت گردی کو جنم دیا ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ اگر قیادت کی اوپری تین تہیں بد ل دی جائیں تو ملک ایک بار پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے ۔یاد رہے کہ نسیم نے جمہوریت کا راگ نہیں الاپا جو ایک فرد ایک ووٹ کا تقاضا کرتا ہے اور دونوں دوستوں کا یہ سفر پنجاب تک محدود رہا جب کہ پاکستان کے تین صوبے اور بھی ہیں ۔ نسیم حسن کے الفاظ: ’’چلتے چلتے میں Alfred Woolner کا بت دیکھتا ہوں جو لاہور میں مذہب کی مضبوطی کے باوجود ایستادہ ہے۔ پروفیسر وولنر (1878-1936ء) پنجاب یونیورسٹی میں سنسکرت اور انگریزی پڑھاتے رہے ۔ سڑک پار کر کے میں دوسری جانب جاتا ہوں اور میو سکول آف آرٹس کو تکتا ہوں وہاں پولیس موجود ہے جو لاہور میوزیم جانے والے ہرشخص کو روک کر تلاشی لے رہی ہے ۔ٹریفک کی ریل پیل ہے مگر علاقہ اب تک چھا بڑی فروشوں سے پاک ہے… میں پرانی ٹولنٹن مارکیٹ کی طرف چلتا رہتا ہوں۔ عمارت اب تک اچھی حالت میں ہے ۔پولیس کے ناکے سے گزر کر میں میوزیم میں داخل ہوتا ہوں ۔مقامی لوگوں کا گزر یہاں شاذ و نادر ہوتا ہے‘ کچھ غیر ملکی ایشیائی البتہ موجود ہیں۔ میں یہ دیکھنے کے لئے میوزیم گیا تھا کہ آیا پاکستان کے معاشرے میں عمومی انحطاط قومی ورثے پر اثر انداز ہوا ہے ؟ میں ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوں ۔میوزیم اچھی حالت میں ہے اور گندھارا آرٹ گیلری دیدنی ہے ۔ یہ میوزیم ٹریفک کی بھیڑ بھاڑ اور آلودگی کے سمندر میں ایک پرُ سکون جزیرے کی مانند ہے… نیلا گنبد کی طرف جاتے ہوئے دیکھتا ہوں کہ پاک ٹی ہاؤس دوبارہ کھل گیا ہے ۔میں رک جاتا ہوں مگر کسی شاعر یا ادیب کو ادبی اور سیاسی مسائل پر بحث کرتے نہیں پاتا‘‘۔ سعید احمد خان:’’پاکستان میں اب ہم کسی ایسے کھلے معاشرے کے فرد نہیں جیسا کہ ہم سن پچاس اور ساٹھ کے عشروں میں ہوتے تھے۔ آپ نے بندوق بردار محافظوں کا ذکر کیا ہے مگر ان نشانچیوں کا نہیں جو ریت کے بوروں کے پیچھے مورچہ بند ہیں اور اس مچان کا بھی نہیں جو گورنمنٹ کالج لاہور کے گیٹ پر‘ مال پر پرل کانٹیننٹل کے صدر دروازے یا کئی دوسری جگہوں پر دیکھی جا سکتی ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ بھی سن ساٹھ کے عشرے کا کھلا معاشرہ نہیں رہا‘‘۔ سعید احمد خان کا حرف آخر‘ عدم برداشت کے موضوع پر واپس آتے ہوئے: ’’ہم اپنے معاشرے کے حقائق کا سامنا کرنے میں خوف زدہ اور جرأت سے عاری ہیں ۔ سب سے پہلے ہم نے 1977ء میں یہ انحطاط دیکھا ۔فوجی بغاوت نے مرض کو بڑھاوا دیا۔ خفیہ افغان جنگ جنگل کی آگ بن گئی ۔اس سب نے اور پھر ’’دہشت گردی سے لڑائی‘‘ نے پاکستان کو بھاری نقصان پہنچایا ۔ چند روز پہلے نا نگا پربت کے قریب نو سیاحوں کا قتل‘ اس لڑائی کو ایک قدم آگے لے گیا ۔ افغانستان کے حوالے سے امریکہ‘ بھارت کا ساتھ دے رہا ہے جو نیک شگون نہیں‘‘۔ نسیم حسن کا جواب الجواب۔ ’’ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں گنگا رام جیسے لوگوں کا شکر گزار ہونا چاہیے جنہوں نے تمام مذاہب کے لوگوں کے لئے ایک اسپتال تعمیر کیا ۔ہمیں جان لارنس کے بنوائے ہوئے پارک کا نام تبدیل نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ میں نے بھی لاہور میں ہوش سنبھالا اس لئے کچھ اضافے کی اجازت چاہتا ہوں ۔ پاکستانی بھی ایک ایسی امہ کا جزو ہیں جس نے افغانستان میں بر سر اقتدار آتے ہی بودھ کے ہزاروں سال پرانے مجسمے بارود سے اڑا دیے اور یوں بین الاقوامی سیاحت کا ایک دروازہ بند کر دیا۔ لاہور‘ جکارتہ کی طرح کبھی مجسموں کا شہر ہوا کرتا تھا ۔ہم نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملکہ وکٹوریہ کا بت چیرنگ کراس سے ہٹا کر عجائب گھر کے پچھواڑے رکھوا دیا اور بقول سعادت حسن منٹو سر گنگا رام کے گلے میں جوتوں کا ہار ڈالنے کے بعد اسے کسی گودام میں پھینک دیا ۔ پنجاب یونیورسٹی کے باہر مال روڈ پر نہ جانے پروفیسر الفرڈ وولنر کا بت کیوں اب تک ایستادہ ہے۔ شائد تاریخ کے کسی دشمن کی نگاہ اس پر نہیں پڑی ۔ایسے ایک سیاستدان نے اپنے نمبر بڑھانے کے لئے یہ تجویز پیش کی ہے کہ سرکاری عمارتوں سے تمام آمروں کی تصویریں اتروا دی جائیں۔ نسیم حسن نے مزید لکھا: ’’پاکستان کے موجودہ حالات‘ افغانستان سے نازل ہوئے ہیں جہاں دو بڑی طاقتوں نے ایک کھیل کھیلا۔لاکھوں لوگ پاکستان میں پناہ گزین ہوئے جب کہ ان کے پاس کوئی تعلیمی اور تکنیکی ہنر نہیں تھے۔ یہ لوگ بس کھیتی باڑی اور بندوق چلانا جانتے تھے۔ جن لوگوں کے پاس دولت تھی وہ سمگلنگ اور ٹرکنگ میں چلے گئے اور باقی تاریخ کا جز بن گئے‘‘۔ ’’عدم برداشت کے بارے میں مجھے آپ کے خیالات سے اتفاق ہے ۔محافظوں کو میں نے دلچسپی سے دیکھا ۔ان میں سے بہُتے ایسی پرانی بندوقیں اٹھائے تھے جو شائد ایک بھی فائر نہ کر سکیں ۔اس اسلحے کا موازنہ ان خودکار ہتھیاروں سے کریں جن کا پاکستان میں سیلاب ہے (آئے دن ہلاکت خیز دھماکے ہوتے ہیں‘ ان کا بارود کہاں سے آتا ہے؟) میں بڑے گھروں کو سمجھ سکتا ہوں ۔یہ افغانستان میں جاری جنگ کا نتیجہ ہے جہاں امریکہ اور اس کے اتحادی ایک سو بلین ڈالر سالا نہ خرچ کر رہے ہیں۔ کوئی دس فیصد پاکستان آتا ہے اور ایک چھوٹے سے اشرافیہ میں بٹ جاتا ہے ۔ایک مشاہدہ جو میں نے کیا عام لوگوں کی محنت کشی تھی۔ دکاندار‘ رکشا والے‘ چھابڑی فروش اور ایسے دوسرے محنت کش دس گھنٹے روزانہ کام کرنے کے باوجود اپنے کنبے کی پرورش نہیں کر سکتے ۔نو عمر لڑکے اور لڑکیاں بڑے گھروں میں کام کرتے ہیں ۔ میں نے بچوں کی محنت کشی کا احوال تو سنا تھا مگر یہ مسئلہ نظر سے نہیں گزرا تھا‘‘۔ میرے نزدیک کثرت آ بادی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ’’عشرہ ترقی‘‘ کے دوران حبیب جالب نے دو نظمیں لکھیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں متحدہ پاکستان کی آبادی دس کروڑ تھی ( دس کروڑ انسانو‘ زندگی سے بیگانو) دوسری نظم میں جالب نے ایک آمر کے مشیر کا یہ بیان نقل کیا۔دس کروڑ یہ گدھے جن کا نام ہے عوام۔آج پاکستان آدھے سے بھی کم ہے اور اس کی آبادی اٹھارہ کروڑ بتائی جاتی ہے ۔ چین نے آبادی پرقابو پایا ہے اور بقول جالب چین اپنا یار ہے ۔پر وہاں جو ہے نظام اس کو دور سے سلام۔مرکز میں آبادی پر کنٹرول کی وزارت قائم کی جاتی ہے اور اس کا نام رکھا جاتا ہے۔ ’’وزارت بہبود آبادی‘‘ سیلاب یا زلزلہ آتا ہے تو ایک عورت‘ سرکار کی دہائی دیتے ہوئے کہتی ہے کہ نو بچے تو میرے ہیں اور دس میری سوت کے‘ حکومت کو ان کا کچھ تو خیال کرنا چاہیے۔ جو روح بھی اس دنیا میں آتی ہے اپنا رزق ساتھ لاتی ہے۔ پھر ایسی اپیلیں کیوں؟ میں مسلم اکثریت کے ملکوں میں گیا ہوں اور میں نے دیکھا ہے کہ جہاں آبادی کثیر ہے وہاں گداگری ہے۔ انڈونیشیا اور ملا ئشیا ہمسائے ہیں ان کی مثال دی جا سکتی ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved