سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل (ر) حمید گل مرحوم نے ایک بار نریندر مودی کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اپنے ہاتھوں سے بھارت کو تباہ کرے گا۔ آج دیکھا جائے تو بھارت میں حالات اس نہج پر آگئے ہیں۔ سکھوں نے سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی وفات کے بعد جنرل (ر) حمید گل کی رحلت پر اپنی پگڑیاں زمین پر پھینک کر اظہارِ تعزیت کیا تھا۔ بھارتی حکومت نے بھارت میں جاری یہ تحریک روکنے کی بہت کوشش کی لیکن اب برطانیہ، کینیڈا اور امریکا میں زور پکڑنے والی خالصتان تحریک کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے جس نے بھارت پر بوکھلاہٹ طاری کر دی ہے۔ 31 اکتوبر 2021ء سے الگ سکھ ریاست ''خالصتان ‘‘کے قیام کے لیے برطانیہ میں ریفرنڈم کا آغاز ہو چکا ہے جس سے بھارت میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ لندن کے کوئین الزبتھ ہال ٹو میں ریفرنڈم کے موقع پرسکھوں کے الگ وطن خالصتان کا نیا نقشہ بھی جاری کیاگیا جس میں مجوزہ ریاست میںنہ صرف پنجاب بلکہ ہریانہ، ہماچل پردیش، راجستھان اور اترپردیش کے اکثر اضلاع کوبھی شامل دکھایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ 31 اکتوبر وہ دن ہے جب 1984ء میں اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کوان کے سکھ محافظوں نے قتل کردیا تھا اور اس قتل کے بعد دہلی میں حکومتی سرپرستی میں سکھوں کا قتل عام شروع ہوا اور ہندو بلوائیوں نے 5 ہزار سے زائد سکھ مرد و عورتیں اور معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی۔ تاہم31 اکتوبر 1984 ء کو ہونے والی اس نسل کشی نے سکھ قوم کو ایک نیا عزم دیا۔ کانگرس کے لیڈروں نے 1929ء میں سکھ رہنمائوں کو یقین دلایا تھا کہ انہیں نیم آزاد ریاست دی جائے گی جہاں انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو گی۔ یہ وہ وقت تھا جب پنجاب میں مسلمان چھائے ہوئے تھے۔ اکثر بڑے زمیندار مسلمان تھے، اس موقع پر کانگرس نے سکھوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا۔ پنجاب‘ جو ہندوستان کا سب سے امیر اور خوشحال علاقہ تھا اور جس کی زمین سونا اگلتی تھی‘ اجناس کے معاملے میں نہ صرف خود کفیل تھا بلکہ یہ دیگر ریاستوں کو بھی اپنی گندم فروخت کرتا تھا۔ 1966ء میں بھارت میں مردم شماری کے بعد پنجاب کو ایک سازش کے تحت تقسیم کر دیا گیا اور ہماچل پردیش اور ہریانہ کی نئی ریاستیں بنا دی گئیں۔ اس تقسیم کا مقصد سکھوں کے سیاسی اور معاشی کردار کو محدود کرنا تھا۔ سکھ اس فیصلے پر بہت سیخ پا ہوئے مگر ان کے احتجاج کو کسی نے درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ اسی بد دلی اور استحصال کی وجہ سے خالصتان کا نعرہ بلند ہونا شروع ہو گیا۔ 1969ء میں متحدہ بھارتی پنجاب کے سابق وزیر خزانہ سردار جگجیت سنگھ چوہان نے باقاعدہ طور پر آزاد خالصتان ریاست کا اعلان کیا اور خالصتان تحریک کی بنیاد رکھی۔
جہاں تک خالصتان تحریک کا تعلق ہے تو بھارتی انتہا پسند ہندوؤں اور میڈیا کی نظر میں یہ بھارت کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری تحریکِ آزادی سے زیادہ خطرناک اور بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کی غیر منصفانہ اور ظالمانہ پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف آواز بلند کرنا سکھوں کا بنیادی حق ہے۔ مغربی ممالک میں بسنے والے سکھ بھارتی حکومت کی چیرہ دستیوں سے کافی حد تک محفوظ ہیں‘ اس لئے وہ بہت کھل کر اور نہایت جوش و خروش کے ساتھ خالصتان کی مہم چلا رہے ہیں۔ وہ خالصتان تحریک کی سیاسی و اخلاقی حمایت ہی نہیں کر رہے بلکہ معقول فنڈنگ بھی کر رہے ہیں جس سے تحریک کو نہایت تقویت ملی ہے اور دنیا بھر میں اسے خصوصی توجہ مل رہی ہے۔ لہٰذا اس سے بھارت کا خوفزدہ ہونا تعجب خیز نہیں کیونکہ اس طرح ساری دنیا میں اس کی نام نہاد جمہوریت اور انسانی حقوق کی پاسداری کا پول کھل رہا ہے؛ اگرچہ اس وقت یہ تحریک ''سکھ فار جسٹس‘‘ تنظیم کے زیرانتظام چل رہی ہے مگر یہ ایک پرانی تحریک ہے اور اس تحریک کے سرکردہ رہنما جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی گرفتاری کیلئے‘ جو گولڈن ٹیمپل میں پناہ لئے ہوئے تھا‘ اندرا گاندھی نے آپریشن بلیو سٹار کے تحت سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی کر دی۔ 3 جون 1984ء سے 6 جون تک جاری اس آپریشن میں ڈیڑھ ہزار سے زائد سکھ مارے گئے جبکہ گولڈن ٹیمپل اور اکالی تخت کو بھی نقصان پہنچا۔ اس آپریشن کی کمان جنرل کلدیپ سنگھ کے پاس تھی۔ اس آپریشن کے بعد اس کا انتقام لینے کیلئے دو سکھ محافظوں نے اندرا گاندھی کو قتل کر دیا تھا جبکہ اس آپریشن سے جڑے دیگر کئی کلیدی کردار بھی اسی طرح کے انجام سے دوچار ہوئے۔
اب سکھ فار جسٹس کے برطانیہ میں منعقدہ ریفرنڈم کے بعد حسبِ معمول بھارت نے پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دی ہے۔ ٹائمز آف انڈیا نے ایک بھارتی انٹیلی جنس آفیسر کے حوالے سے ایک من گھرت رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق‘ ایک آفیسر کے کمپیوٹر سے کچھ دستاویزات چرائی گئی ہیں جن میں ریفرنڈم 2020ء اور خالصتان تحریک کا پورا روڈ میپ اور تفصیلات درج ہیں ۔ اس من گھڑت رپورٹ کا پول اس حقیقت سے ہی کھل جاتا ہے کہ اگر واقعی ایسی دستاویزات پکڑی جاتیں تو بھارت سرکار نے اب تک چیخ چیخ کر ساری دنیا کو سر پر اٹھا لینا تھا اور بھارتی میڈیا پر ایک جنون طاری ہو جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کیلئے بھارت سرکار اور انٹیلی جنس ادارے ہمیشہ کی طرح آئی ایس آئی پر الزام دھر کر خود کو بری الذمہ قرار دینا چاہتے ہیں۔ اس وقت کسان کش قوانین کے خلاف سراپا احتجاج سکھ کسانوں نے تمام تر حکومتی جبر کے باوجودفاشسٹ مودی کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اس کے ظلم کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ یہ نوشتۂ دیوار ہے کہ اگر کسان ناکام ہو گئے تو وہ مسلح تحریک کی طرف مائل ہوں گے اور پھر مودی کے ''شائننگ انڈیا‘‘ کو ٹکڑوں میں تقسیم ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ اکھنڈ بھارت کا نظریہ بھی اپنی موت آپ مر جائے گا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسان تحریک زراعت کش قوانین کے خلاف اٹھنے والی آواز نے برہمن کے پنجۂ استبداد سے نجات کے خلاف برپا خالصتان تحریک میں نئی روح پھونک دی ہے۔ اب نہ صرف بھارت کے سینے میں خالصتان ریاست بنتی نظر آ رہی ہے بلکہ کشمیر کی آزادی کی امیدیں بھی روشن ہوتی جا رہی ہیں۔چونکہ بھارتی کاشتکاروں میں اکثریت ہریانہ و پنجاب سے تعلق رکھنے والے سکھوں پر مشتمل ہے‘ اسی لیے سکھ قوم کو علیحدگی و خودمختاری کا مطالبہ کرنے کی سزا دینے کے لیے ظالمانہ زرعی قوانین کے ذریعے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔بھارتی حکومت و متعصب میڈیا سکھ کسانوں کے احتجاج کو علیحدگی پسندی کا رنگ دے کر خود ہی خالصتان تحریک کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ کسانوں کی تحریک سے خوفزدہ بھارت کو ہر احتجاج میں ''خالصتان‘‘ ہی دکھائی دیتا ہے۔ اس وقت بھارت میںداخلی خلفشار عروج پر ہے، روس سے دوری اور امریکا سے بڑھتی قربتوں کی وجہ سے اسے اندورنی طورپر متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ افغانستان میں امریکی شکست وہزیمت اور اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے ڈوبنے سے اس کے خطے کا تھانیدار بننے کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے جبکہ دوسری جانب خطے میں امریکا اپنی موجودگی برقرار رکھنے کیلئے سی آئی اے‘ را گٹھ جوڑ افغانستان میں داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوںکا سہارا لے رہے ہیں۔ آر ایس ایس کے پرچارکوں کو فرانس اور روس کا انقلاب یاد رکھنا چاہیے جس نے وہاں کے حکمرانوں کا تکبر چور چور کر دیا تھا۔ روس میں زارحکومت تھی‘ شاہی محل کے سامنے پُرامن مظاہرے کا اہتمام ہوا تو مظاہرین پر پولیس نے فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں تحریک بھڑک اٹھی اور ہڑتالیں شروع ہو گئیں، آہستہ آہستہ تمام عوامی طبقات اس جدوجہد میں شامل ہوگئے اور بالآخر زار کا سورج غروب ہوکر رہا۔ یہی صورتحال فرانس کی تھی، جب پانی سرسے اونچا ہو گیا تو وہاں وہ انقلاب آیا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا اور عوامی غصے کا سیلاب سب کچھ بہا لے گیا۔ بھارت میں کسانوں کا پُرامن احتجاج کہیں انقلاب کے دروازے پر تو نہیں کھڑا؟