تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     09-11-2021

مہنگی چینی کا اصل سبب

ہمارا فلسفۂ حیات یاس یا ناامیدی نہیں‘ آس اور امید ہے۔ تاہم بعض اوقات بقول اسداللہ غالبؔ
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
جب جھٹکے پہ جھٹکے اور زخم پر زخم لگ رہے ہوں اور کوئی مرہم اور مداوا دور دور تک نظر نہ آتا ہو تو پھر رشتۂ اُمید ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے۔ حکومت کے گزشتہ دو برس سے تمام وعدے وعدئہ فردا ثابت ہو رہے ہیں۔ اس وقت مہنگائی 14 فیصد کی بلندوبالا سطح پر پہنچ چکی ہے۔ ان قیمتوں تک غریب اور نیم متوسط کلاس کی بالکل رسائی نہیں۔ کوئی ایک چیز مہنگی نہیں زندگی کی ہر بنیادی ضرورت عام بندے کی پہنچ سے باہر ہے۔
آمدنی اور اخراجات میں زمین و آسمان کا تفاوت ہے۔ آٹا مہنگا‘ چینی مہنگی‘ خوردنی تیل مہنگا‘ دالیں مہنگی‘ سبزیاں مہنگی۔ آدمی کھائے تو کیا کھائے‘ کرے تو کیا کرے۔ آگے چلیں‘ بجلی مہنگی‘ گیس مہنگی‘ پٹرول اور ڈیزل مہنگا۔ گویا کسی طرف سے کوئی ریلیف نہیں؛ تاہم چینی کی قیمت میں یکدم پانچ دس روپے نہیں‘ پچاس ساٹھ روپے کا اضافہ نہ صرف حیران کن ہے بلکہ بے حد پریشان کن ہے۔ چینی کی اس تشویشناک مہنگائی کا اصل سبب یا تو جناب وزیراعظم کو بھی معلوم نہیں یا اس معاملے میں بھی جناب عمران خان اپنی غلطیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈال دینے کی دیرینہ پالیسی پر گامزن دکھائی دیتے ہیں۔ چند روز پہلے جناب وزیراعظم نے اپنے خطاب میں چینی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی ذمہ داری سندھ میں بند ہونے والی تین شوگر ملوں پر عائد کر دی تھی۔ غالباً خان صاحب نے یہ بات کہنے سے پہلے کوئی تحقیق نہیں کی تھی۔
سندھ شوگر مل کے افسر ملوک چنا نے واضح کیا ہے کہ جناب وزیراعظم نے جن تین شوگر ملوں کی بندش کا حوالہ دیا ہے وہ گزشتہ دس بارہ سالوں سے بند پڑی ہیں لہٰذا ان کا حالیہ قیمتوں کے اتار چڑھائو سے کوئی تعلق نہیں۔ چینی کے بحران کا اصل سبب یہ ہے کہ ہر سال اوائل نومبر میں کرشنگ سیزن کے آغاز سے پہلے تین چار ہفتوں کے دوران چینی سٹاک میں کمی واقع ہو جاتی ہے کیونکہ ابھی نئی چینی بننا شروع نہیں ہوتی؛ تاہم حکومتیں طلب و رسد میں پیدا ہونے والے اس بحران کی پیش بندی کر لیتی ہیں تاکہ اکتوبر نومبر میں چینی کا کوئی بحران سر نہ اٹھا سکے۔
ہمیں شوگر سے متعلقہ بعض انتہائی باخبر ذرائع نے بتایا ہے پاکستان میں چینی کی کھپت تقریباً 65 لاکھ ٹن سالانہ ہے جبکہ پاکستان کی شوگر ملوں کی کل پیداوار 57 لاکھ ٹن ہے۔ ان باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ شوگر ملز مالکان نے وسط مارچ 2021ء میں حکومتی اداروں کے ساتھ اپنی میٹنگز میں انہیں اس متوقع کمی کے بارے میں باخبر کر دیا تھا اور کہا تھا کہ آپ ابھی سے ٹینڈر کر کے بیرون ملک سے چینی درآمد کرنے کا آرڈر دے دیں تاکہ بیرونی چینی بروقت مارکیٹ میں پہنچ جائے اور ڈیمانڈ اور سپلائی کے درمیان کوئی بڑا فرق پیدا نہ ہو سکے۔ مگر حکومت نے حسب ِروایت چینی کی درآمد میں انتہائی تاخیر کر دی۔
چینی کی درآمد کے لیے ٹینڈر وسط مارچ تک ہو جانا چاہئے تھا تاکہ کسی قسم کا بحران پیدا نہ ہوتا۔ اگر شارٹ فال کے حساب سے ہر ماہ پچاس ساٹھ ہزار ٹن چینی پاکستان پہنچتی رہتی تو حکومت اس صورتحال سے دوچار نہ ہوتی۔ جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ مارچ کے بجائے 27 اگست کو درآمدی چینی کا ٹینڈر منظور کیا گیا۔ وزارتِ خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے ایک بیان میں ادھورا سچ بولا ہے۔ اُن کی یہ بات تو سچ ہے کہ درآمدی چینی پاکستان پہنچ چکی ہے مگر یہ درست نہیں کہ اس کی درآمد کے لیے بروقت مناسب منصوبہ بندی کر لی گئی تھی۔ نیز چینی مطلوبہ مقدار میں نہیں منگوائی گئی۔
اب حکومت نے اپنے سر آئی بلا کو دکانداروں اور ڈیلروں پر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ پنجاب میں جگہ جگہ ڈیلروں اور پرچون فروشوں کی دھڑا دھڑ گرفتاریاں عمل میں آرہی ہیں۔ وفاقی حکومت نے سندھ حکومت پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہاں ابھی تک کرشنگ سیزن شروع نہیں کیا گیا ہے۔ حکومت کے بعض ترجمانوں کا کہنا ہے کہ سیاسی مقاصد کی خاطر یہ تاخیر کی جا رہی ہے۔ سندھ حکومت کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ یہاں اواخر اکتوبر اور اوائل نومبر میں کرشنگ سیزن شروع ہو جاتا ہے مگر اس سال سندھ میں بارشیں تاخیر سے ہوئیں اس لیے وہاں گنے کی فصل ابھی پوری طرح پک کر تیار نہیں ہوئی۔ سندھ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے اُن کے پاس اگلے ایک ڈیڑھ ماہ کی کھپت کے لیے کافی مقدار میں چینی کا سٹاک موجود ہے۔
سارے ملز مالکان کا کہنا یہ ہے کہ چینی کی قیمتوں میں مصنوعی اضافے سے اب گنے کی خریداری میں دشواری پیش آئے گی کیونکہ زمیندار اب حکومت کی مقرر کردہ دو سو روپے فی من قیمت سے اوپر مطالبہ کریں گے اور یہ قیمت بڑھ کر 250 روپے فی من سے 350 روپے فی من تک جا سکتی ہے جس کی بنا پر چینی کی پیداواری لاگت میں بہت اضافہ ہو جائے گا۔ حکومتی مشینری کی ایک تاخیری غلطی سے اس کے منفی اثرات کا سلسلہ دراز تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ حکومتی مشینری کی بے تدبیری چینی کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی کارفرما ہے۔
جناب عمران خان بنفس نفیس اور اُن کے وزیر‘ مشیر اپنی حکومت کی ہر غلطی اور کوتاہی کی ذمہ داری بین الاقوامی حالات‘ عالمی مارکیٹ اور سابقہ حکومتوں پر ڈال دیتے ہیں۔ جناب وزیراعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ خطے کے دیگر ممالک انڈیا اور بنگلہ دیش وغیرہ کے مقابلے میں ہماری قیمتیں کم ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ اگر اس بات کا اقتصادی پیمانوں کے مطابق جائزہ لیا جائے تو یہ ثابت ہوگا کہ ہماری قیمتیں سب سے زیادہ ہیں جیسا کہ ممتاز برطانوی جریدے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان چوتھا مہنگا ترین ملک ہے۔
حکومت جب تک خود احتسابی سے کام نہیں لے گی‘ اپنے گریبان میں نہیں جھانکے گی‘ قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے اصل اسباب ناقص حکومتی پالیسیوں اور بیڈ گورننس میں تلاش نہیں کرے گی‘ اور محض دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرائے گی تو پھر اصلاحِ احوال نہیں ہو سکتی۔ حکومت اگر اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنے کی پالیسی اپنا لے گی تو بہت سے معاملات میں بہتری آ جائے گی۔ خوداحتسابی ایک میجک ورڈ ہے۔ اسلام احتسابِ ذات پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے۔ اگر ہر انسان کے اندر ایک محتسب موجود ہو تو پھر احتسابی ادارے بنانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ محتسب ہر لمحے آدمی کا احتساب کرتا رہتا ہے۔ اُسے دوسروں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے‘ بغیر ثبوت کے کسی پر الزام تراشی کرنے اور کسی کے مال کو ناجائز خوردبرد کرنے سے روکتا ہے۔
آج کے دور میں اگر خوداحتسابی کا کرشمہ دیکھنا ہو تو جاپان کو دیکھیں جہاں ہر شخص سو فیصد دیانت داری سے کام کرتا ہے اور کسی دوسرے کی عیب جوئی میں ایک لمحہ ضائع نہیں کرتا۔ جاپان کے اندر ریاستی ذمہ داری کے کسی ادنیٰ و اعلیٰ کام میں رتی بھر خیانت دنیا کی سب سے بڑی بددیانتی تصور کی جاتی ہے۔ یہ سب کمال و اعجاز خود احتسابی کا ثمر ہے۔ جناب عمران خان اس میجک کو ضرور ٹرائی کریں اور ملک میں خود احتسابی کا کلچر رائج کریں۔ یہ کلچر رائج ہونے سے چینی ہی نہیں ہر چیز کی قیمتوں میں بڑی نمایاں کمی واقع ہو جائے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved