اے محسن پاکستان! تیرے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کا غم تجھی کو نہیں‘ لاتعداد لوگوں کو ہے۔ عظیم انسانوں کو زندگی میں ان کی قوموں نے شاذ و نادر ہی ان کا حق ادا کیا ہے۔ جب وہ دنیا سے چلے جائیں تو لوگ روتے اور نوحہ کرتے ہیں۔ ان میں کئی تو واقعی رو رہے ہوتے ہیںاور کئی بہروپیے مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں۔ یہ سب پہچانے جا سکتے ہیں اور تاریخ ان کو ان کی اصلی تصویر میں محفوظ بھی کر لیتی ہے۔
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
آج محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کے بارے میں کچھ واقعات لکھنے بیٹھا ہوں تو سوچ رہا ہوں کیا لکھوں اور کیسے لکھوں؟ بھوپال کی سرزمین پر جنم لینے والی اس عظیم شخصیت سے زندگی میں صرف تین مرتبہ ملاقات ہوئی۔ ایک بار گجرات میں اور دو بار منصورہ لاہور میں۔ ان ملاقاتوں میں باہمی تبادلۂ خیال کے دوران جو چند باتیں ہوئیں ان کی ایک دھیمی سی تصویر اب تک ذہن میں موجود ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد بار بار وہ منظر یاد آتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھوپال میں یکم اپریل 1936ء کو ایک پختون نسل سے تعلق رکھنے والے معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بھوپال میں آپ کا خاندان کئی صدیوں سے مقیم تھا جو بہت عزت و قدر کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ آپ کے والد عبدالغفور خان سرکاری سکول میں معلم تھے جنہوں نے تدریس کے علاوہ وزارتِ تعلیم کے دیگر شعبوں میں بھی بطورِ افسر خدمات سرانجام دیں۔ڈاکٹر صاحب کی والدہ بھی پشتون نسل سے تعلق رکھتی تھیں اور بہت دینی سوچ رکھنے والی گھریلو خاتون تھیں۔ عبدالقدیر خان صاحب نے زندگی بھر مذہب سے جس طرح اپنا تعلق قائم رکھا‘ اس میں ان کے والدین بالخصوص ان کی والدہ مرحومہ کا بہت بڑا کردار ہے۔ آپ نے بھوپال میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1952ء میں بھوپال سے ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ آپ کا خاندان بہت سارے رشتہ داروں کے ساتھ کراچی میں آباد ہوا۔
ڈاکٹر صاحب اسلام آباد میں مقیم رہے، مگر صوبہ سندھ اور کراچی سے اپنا تعلق آخری دم تک خوب نبھایا۔ اپنی بیماری کے دوران انہوں نے نہایت آزردگی کے ساتھ کہا کہ ملک کے حکمرانوں اور سیاست دانوں میں سے کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ میری مزاج پرسی ہی کر لیں سوائے میرے صوبے کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے۔ واضح رہے کہ مراد علی شاہ نے مرحوم کے جنازے میں بھی شرکت کی جبکہ اصحابِ اقتدار میں سے کوئی بھی قابلِ ذکر شخصیت ان کے جنازے میں شامل نہ ہوئی۔ وزیرداخلہ شیخ رشید کی ذمہ داری لگا دی گئی کہ وہ آخری رسوم کا اہتمام کریں مگر شاہ فیصل مسجد میں جنازے کے دوران سائونڈ سسٹم ایسا ناقص و ناکارہ تھا کہ ہزاروں نمازیوں تک آواز ہی نہ پہنچ سکی۔
اس سال ستمبر‘ اکتوبر میں ڈاکٹر صاحب کورونا کے مرض میں مبتلا ہوئے تو انہیں ہسپتال میںداخل کرایا گیا۔ اس دوران سوشل میڈیا پر بعض شرپسندوں نے اپنی پوسٹوں میں یہ بات مشہور کر دی کہ ڈاکٹر صاحب وفات پا گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کے جواب میں فوری طور پر ہسپتال سے بیان جاری کیا کہ وہ اللہ کے فضل سے روبصحت ہیں۔ پھر وہ ہسپتال سے گھر آ گئے۔ ان کا آخری کالم بھی اخبار میں چھپا لیکن اللہ کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مداح خوش تھے کہ ڈاکٹر صاحب کو اللہ نے صحت دے دی ہے مگر ڈاکٹر صاحب کو 10اکتوبر 2021ء کی صبح اپنے گھر میں خون کی الٹی ہوئی اور انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے وہ ماہ و سال جو ابتلا میں گزرے‘ انتہائی دلدوز تھے۔ وفات کی خبر پر جو لوگ ڈاکٹر صاحب کی تعریف و توصیف میں بیان بازیاں کر رہے تھے ان بہروپیوں کا حال چکبست نارائن نے اپنے شعر میں کیا خوب بیان کر دیا ہے ؎
اس کو ناقدریٔ عالم کا صلہ کہتے ہیں
مر چکے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
پاکستان آنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ڈی جے سائنس کالج سے سائنس میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا اور پھر کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ 1956ء میں بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کا پسندیدہ مضمون فزکس تھا۔ کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران آپ اسلامی جمعیت طلبہ سے متعارف ہوئے۔ آپ کی رہائش اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے عبدالمالک شہید روڈ پر واقع مرکزی دفتر کے قریب تھی اور کالج بھی وہاں سے دور نہ تھا۔ اس روڈ کا پرانا نام ایک انگریز گورنر کے نام پر استعماری حکومت نے سٹریچن روڈ رکھا تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے مایہ ناز رہنما اور ڈھاکہ جمعیت کے ناظم عبدالمالک کو عوامی لیگ کے غنڈوں نے 1969ء میں بربریت کے ساتھ شہید کر دیا تو جمعیت نے اس روڈ کا نام تبدیل کر کے شہید عبدالمالک روڈ رکھا۔ اب یہی نام اس کی شناخت ہے۔
ڈاکٹر خان کے دورِ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کی قیادت پروفیسر خورشید احمد ، خرم مراد مرحوم اور ان جیسے عالی مرتبت قائدین کے ہاتھ میں تھی۔ عبدالقدیر خان اسی دور میں ان شخصیات سے متعارف ہوئے اور پھر زندگی بھر ان سے تعلق قائم رہا۔ خرم مراد مرحوم کی اہلیہ کا تعلق بھی بھوپال سے تھا۔ یوں ڈاکٹر صاحب ان سے مزید مانوس ہو گئے۔ پروفیسر خورشید احمد صاحب سے ڈاکٹر صاحب کا آخری دم تک انتہائی قریبی دوستانہ تعلق رہا۔ جن ملاقاتوں کا میں نے تذکرہ کیا ہے ان میں سے دو میں قاضی صاحب بھی موجود تھے جبکہ سید منور حسن تینوں ملاقاتوں میں شریک تھے۔ ان ملاقاتوں کے دوران مجھے علم ہوا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ان سب شخصیات کا بہت عزت سے نام لیتے تھے اور مولانا سید مودودیؒ کے ساتھ تو بے حد عقیدت رکھتے تھے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے تقسیمِ ہند کے دوران اور اس کے بعد غیر مسلم آبادی کی طرف سے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ انہیں پاکستان سے عشق کی حد تک محبت تھی۔ یہ عشق زندگی بھر ان کے رگ و ریشے میں موجزن رہا اور انہوں نے ثابت کر دیا کہ سچے عاشق اپنے معشوق کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں۔ دورانِ تعلیم اپنے گھریلو حالات اور معاشی مشکلات کی وجہ سے بی ایس سی کرنے کے بعد ڈاکٹر عبدالقدرخان نے تین سال میٹروپولیٹن کارپوریشن کراچی میں ملازمت کی۔ اس دوران انہوں نے سکالرشپ کے لیے کوشش کی تو انہیں جرمنی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکالرشپ مل گئی۔ آپ نے 1961ء میں برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں میٹریل سائنسز میں داخلہ لیا۔ یہاں ان کا ریکارڈ بہت شاندار تھا۔ ان کا خاص موضوع‘ جس میں انہیں امتیازی حیثیت حاصل ہوئی‘ میٹرلرجی تھا۔ یہاں سے انہوں نے ہالینڈ‘ جسے نیدر لینڈ بھی کہا جاتا ہے‘ جانے کا فیصلہ کیا۔
بھوپال سے تعلق رکھنے والی ادبی شخصیات اپنے نام کے ساتھ بھوپالی لکھا کرتی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کی جنم بھومی بھوپال ہے۔ آپ بے مثال سائنس دان ہونے کے ساتھ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ اس حوالے سے ایک قابل ذکر بات البتہ یہ ہے کہ جب آپ پر غداری کا الزام لگا اور آپ سے جبراً مشرف دورِ حکومت میں اعترافِ جرم پر دستخط کرانے کی سازش ہوئی تو آپ نے آغاز میں کھل کر کہا ''میری جنم بھومی بھوپال ہے، تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کبھی کوئی غدار پیدا ہوا ہے نہ ہی قادیانی‘‘۔ ان چند الفاظ میں مرحوم نے اپنے محب وطن اور غیور مسلمان ہونے کے ساتھ نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے اپنی محبت و عقیدت اور ختمِ نبوت کا دفاع کرنے کا دوٹوک اعلان کیا۔
ڈاکٹر خان مرحوم کو بجا طور پر محسنِ پاکستان کہا جاتا ہے۔ ان کی خدمات کے عوض انہیں بہت سے حکومتی اعزازات سے نوازا گیا، مگر افسوس کہ ان کے ساتھ زندگی کے آخری حصے میں جو سلوک کیا گیا وہ انتہائی شرمناک ہے۔ حکمرانوں نے بیرونی قوتوں کے سامنے بھیگی بلی بن کر محسنِ پاکستان کو محرم سے مجرم بنا دیا۔ ڈاکٹر صاحب اس جبری اعتراف پر مجبور کر دیے گئے۔ یہ ساری واردات کیسے ہوئی؟ ڈاکٹر صاحب نے خود اس کو بیان کر دیا تھا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر مرحوم تصوف کی طرف خاصے مائل تھے جس کا اظہار تحریر و تقریر میں اکثر کرتے تھے۔ وہ اس تصوف کے ہرگز قائل نہ تھے جو عمل کی جگہ بے عملی کو رواج دے۔ ان کے نزدیک تصوف اسی صورت میں قابلِ قبول ہو سکتا ہے جب وہ بندے کے باطن کو پاک صاف کرے اور اس کے ظاہر کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام پر یکسوئی کے ساتھ، ہرحال میں کاربند رہنے کے قابل بنائے۔ اس کا اظہار انہوں نے اپنی ایک ملاقات میں تبادلۂ خیالات کے دوران بھی فرمایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب یورپ میں بھی نماز روزے کی پابندی کا ہمیشہ اہتمام کیا۔ اس کے ساتھ اسلام کے انقلابی پیغام کو بھی انہوںنے سید ابوالاعلیٰ مودودی کے لٹریچر سے اخذ کیا۔ جب آپ صحافت کے شعبے میں بطور کالم نویس داخل ہوئے، تو ان کے کالموں میں اسلام کی تاریخ، نظریات، اخلاقیات اور نظام کے بارے میں بہت معتبر دلائل پڑھنے کو ملتے۔ قرآنِ مجید کی آیات کا حوالہ کم و بیش ہر کالم میں نظر آتا۔ (جاری)