تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     09-11-2021

بغاوت

آواز زندگی کی علامت ہے۔ اس حقیقت سے جسے انکار ہو اُس انسان کو نارمل نہ سمجھا جائے۔ بولنا انسان کی فطرت ہے۔ قدرت نے ہمیں اصلاً جن چند خصوصیات کے اظہار کے لیے خلق کیا‘ اُن میں بولنا ہر اعتبار سے بنیادی اور نمایاں وصف ہے۔ جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے اُسے (جائزے اور تجزیے) کی بنیاد پر ڈھنگ سے بیان کرنے کی صلاحیت ہی تو انسان کا سب سے بنیادی وصف ہے۔ اِسی وصف کی بنیاد پر وہ دیگر مخلوقات سے الگ دکھائی دیتا ہے اور یہی وصف اُسے پیش رفت اور ترقی کے قابل بناتا ہے۔ دیگر مخلوقات بھی رابطے کے لیے کچھ نہ کچھ تو بولتی یا کہتی ہوگی مگر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بولنے اور گفتگو کرنے کے معاملے میں وہ سب سے نچلے پائیدان پر ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اُن کے لیے ڈھنگ سے اور بھرپور طور پر پنپنا کبھی ممکن نہیں ہوسکا۔ انسان سے ہٹ کر جتنے بھی جاندار ہیں‘ جس سطح پر خلق کیے گئے‘ اُسی سطح پر رہتے ہوئے جیتے ہیں اور پھر مر جاتے ہیں۔ یہی اُن کا مقسوم و مقدور ہے۔ البتہ انسان کے لیے بولنا لازم ٹھہرا ہے کیونکہ اُس کے لیے معاشرے میں ڈھنگ سے زندہ رہنے کا یہی معقول ترین طریقہ ہے مگر صاحب، بولنے اور ڈھنگ سے بولنے میں اور چیخنے چلانے میں تو بہت فرق ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ عمومی سطح پر یہ فرق یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ لوگ محض بولنے کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔ ایسا نہیں ہے! ہر معاملے کی طرح بولنے کے معاملے میں بھی مقدار اور معیار کا فرق ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے۔ کم مگر اچھا بولا جائے۔ بولنے کے معاملے میں بھی وقت کی موزونیت بھی کم اہم نہیں یعنی جو کچھ بولنا ہے وہ بروقت یعنی ضرورت اور وقت کے مطابق بولنا چاہیے۔ بہت زیادہ بولنا اچھا بولنا نہیں مگر ہمارے معاشرے کا عجیب چلن ہے۔ اب ہر معاملے میں اور ہر وقت بولنے کو ناگزیر سمجھ لیا گیا ہے۔ بلا ضرورت اور حد سے زیادہ بولنا عام ہو چلا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ خاموش رہنے میں اپنی توہین محسوس کرنے لگتے ہیں۔ بہت سوں کو تحت الشعور کی سطح پر یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ اگر وہ بولیں گے نہیں تو دوسروں سے بہت پیچھے رہ جائیں گے یا پھر یہ کہ لوگ انہیں ابنارمل سمجھنے لگیں گے۔
جب سے سوشل میڈیا کی وبا آئی ہے تب سے صرف بولنے کو زندگی کی توانا ترین علامت تصور کرلیا گیا ہے۔ دوسرے بہت سے اوصاف یا تو طاقِ نسیاں پر دھر دیے گئے ہیں یا پھر اُن کی اہمیت محسوس ہی نہیں کی جاتی۔ کیا کوئی بھی معاشرہ محض بولنے کی بنیاد پر ترقی کر پاتا ہے؟ کیا کسی بھی معاشرے کو ہم محض اس بنیاد پر ترقی یافتہ قرار دے سکتے ہیں کہ وہاں لوگ زیادہ بولنے کے عادی ہیں؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ ہر کامیاب معاشرے میں آپ کو لوگ بولنے سے زیادہ کام کرنے میں مصروف دکھائی دیں گے۔ ناصرؔ کاظمی مرحوم نے خوب کہا ؎
شور برپا ہے خانۂ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
یہاں معاملہ یہ ہے کہ خانۂ دل میں خاموشی چھائی ہوئی ہے اور دیواریں باہر گر رہی ہیں! موسم ہی کچھ ایسا چل رہا ہے کہ لوگ کچھ دیر خاموش بیٹھ رہنے کو اپنی توہین سمجھنے لگے ہیں۔ یہ سب کچھ بہت سے عوامل کے تفاعل کا نتیجہ ہے۔ ذمہ داری قبول کرنے کے معاملے میں ابتدا اپنی ذات سے ہونی چاہیے۔ سوشل میڈیا کے ہاتھوں ہم اپنے وقت سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ اِدھر اُدھر سے جو کچھ آئے وہ سب دیکھنا اور اُس پر تبصرہ کرنا لازم سمجھ لیا گیا ہے۔ یہ بھی صریحاً صَوتی آلودگی ہے جس کے تدارک کی فکر لازم ہے۔ اکیسویں صدی اپنے ساتھ بہت سی قباحتیں لائی ہے۔ ان قباحتوں کا ہماری زندگی میں آنا فطری امر ہے مگر اُن سے بچنے کی کوشش ہم پر فرض ہے کیونکہ قباحتوں سے بچنے کے لیے خاصی تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔ یہ سب کچھ از خود نہیں ہوتا۔ ریت پر سیمنٹ، بجری اور دیگر لوازم پھینک دینے سے چبوترا نہیں بن جاتا۔ یہ تو کاریگری کا معاملہ ہے۔ زندگی کو توازن سے ہمکنار رکھنا بھی کاریگری ہے۔ یہ کام خود بخود نہیں ہو جاتا‘ کرنا پڑتا ہے البتہ یہ سب کچھ بہت مشکل دکھائی دیتا ہے؛ تاہم ہر وہ معاملہ مشکل دکھائی دیتا ہے جسے آسان بنانے کی کوشش شروع نہ کی گئی ہو۔ کہیں جانے کے لیے قدم بڑھائیے تو چاہے منزل کتنی ہی دور ہوں، فاصلہ ایک قدم تو کم ہو ہی گیا! آج ہم اپنے معاشرے میں ہر طرف صرف شور کا راج پاتے ہیں۔ لوگ بلا ضرورت بولنے ہی کی منزل میں نہیں رُکے بلکہ اضافی شور کی پیدائش پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ بعض مقامات پر اچھا خاصا شور و غل برپا ہوتا ہے مگر لوگ پھر بھی بلند آواز سے یعنی سپیکرز پر گانے سن رہے ہوتے ہیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ بول نہ رہے ہوں تو شور مچانے کی کوئی اور سبیل نکال لیتے ہیں۔
صوتی آلودگی کا معاملہ اِس حد تک ٹیڑھا ہوچکا ہے کہ بیشتر دفاتر میں بلا ضرورت بولنے یا کسی اور طریقے سے شور برپا رکھنے کی قبیح عادت نے کارکردگی کا گراف گرادیا ہے۔ یہ آلودگی ہمارے حواس اور اعصاب دونوں پر بُری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے‘ خاصی تلخ حقیقت یہ ہے کہ جہاں زیادہ بولا جائے وہاں زیادہ کام نہیں ہو پاتا۔ اب ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ غیر ضروری طور پر یا بہت زیادہ بولنے، سپیکرز پر کچھ سننے کی شکل میں جو صوتی آلودگی پیدا ہوتی ہے اُس کا تدارک کیسے کیا جائے۔ ماہرین بہت کچھ تجویز کرتے ہیں۔ اِس معاملے میں ہمیں ترقی یافتہ معاشروں سے اکتسابِ علم و فن کرنا چاہیے۔ انٹرنیٹ کی مدد سے ہم بخوبی جائزہ لے سکتے ہیں کہ منظم اور ترقی یافتہ معاشرے کس طور جیتے ہیں، وہاں عمومی سطح پر لوگ کس طرزِ فکر و عمل کے حامل ہیں۔ کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے میں ایک وصف خاصا نمایاں معلوم ہوتا ہے‘ یہ کہ لوگ بلا ضرورت نہیں بولتے جبکہ زیادہ تو بالکل نہیں بولتے۔ یہ سب کچھ عشروں کی تربیت اور محنت کا نتیجہ ہے۔ اس حقیقت سے انکار حماقت ہی کہلائے گا کہ کسی بھی معاشرے کو بہتر بنانے میں بلا ضرورت اور بلا تکان گفتگو یا دیگر ذرائع سے پیدا ہونے والے شور و غل کی راہ مسدود کرنے کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ اس حوالے سے امکانات پیدا کرنے کے لیے غیر معمولی تربیت درکار ہے۔ لوگوں کو بہتر اور پُرسکون زندگی کی طرف آنے کی تحریک دینا لازم ہے تاکہ اُن کا وقت ضائع نہ ہو اور صلاحیت و سکت کے مطابق کام کرنے کی گنجائش پیدا ہو۔ اِس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ غیر ضروری طور پر بولنے سے گریز کیا جائے اور تخلیقی نوعیت کی خاموشی کو مزاج کا حصہ بنایا جائے۔
کسی بھی قباحت سے بچنا اُسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب شعوری سطح پر کوشش کی جائے۔ محض تماشا دیکھتے رہنے سے کوئی بہتری رونما نہیں ہوتی۔ پہلے مرحلے میں لوگوں کو یہ بتانے یا سمجھانے کی ضرورت ہے کہ نمایاں تخلیقی کام وہی لوگ کر پاتے ہیں جو ملنا جلنا کم رکھتے ہیں اور بولنے کے معاملے میں انتہائی خسیس ہوتے ہیں! دوسرے مرحلے میں یہ بھی سمجھایا جانا چاہیے کہ بھرپور کامیابی کے لیے پورے شعور کے ساتھ اپنی ذات میں گم رہنا بھی ناگزیر ہے۔ باہر کی دنیا سے مکمل قطعِ تعلق کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا مگر ہاں! غیر ضروری معاملات کی راہ مسدود رکھنی چاہیے تاکہ وقت کا ضیاع روکا جاسکے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان سلجھے ہوئے انداز سے بامقصد گفتگو کی عادت اپنائے کیونکہ ماہرین تحقیق کے ذریعے تصدیق کرچکے ہیں کہ بولنے کا عمل توانائی کا طالب ہے۔ بامقصد اور تخلیقی نوعیت کی خاموشی ماحول سے بغاوت ہے اور یہ بغاوت آپ کو کرنا ہی پڑے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved