آپ نے پطرس بخاری کی کتاب 'پطرس کے مضامین‘ تو پڑھی ہوگی۔ یہ کتاب 1930 یعنی آج سے بانوے سال پہلے شائع ہوئی تھی۔ اگر کسی کو ادب سے کوئی شغف نہ ہو اور وہ محض ہنسنے کے لیے کچھ پڑھنا چاہتا ہو، تو بھی اسے یہ کتاب پڑھ لینی چاہیے۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں پطرس بخاری نے اپنے زمانے کی مسلم مڈل کلاس کا نقشہ کھینچا ہے جس میں وہ خود پیدا ہوئے تھے اور جس کا آپ اور میں تاریخی تسلسل میں حصہ ہیں۔ ان چند مضامین پر مشتمل کتاب میں انہوں نے بتایا ہے کہ برصغیرکے اس حصے کی مسلم مڈل کلاس‘ جسے آج ہم پاکستان کہتے ہیں، کس طرح سوچتی تھی، اس کی خواہشات اور اس عادات کیا تھیں۔ انہوں نے اپنے مضمون 'ہاسٹل میں پڑھنا‘ مسلم نوجوانوں کے بارے میں بتایاکہ عام طور پر نالائق ہیں اور پڑھنے لکھنے سے انہیں کوئی علاقہ نہیں۔ درمیانی عمر کے لوگوں کے بارے میں 'مرحوم کی یاد میں‘ دکھایا کہ ان کی خواہشات اپنی بساط سے بڑھ کر رہتی ہیں‘ جنہیں حاصل نہیں کر پاتے تو زمانے کو گالیاں دینے لگتے ہیں۔ اسی مضمون میں بتا دیا کہ اگر یہ کوئی سودا کریں تو جھوٹ بولتے ہیں اور ہنرمند ہونے کو گالی سمجھتے ہیں۔ 'مریدپور کا پیر‘ میں بتا دیاکہ عام طور پر مسلم مڈل کلاس میں نہ کوئی صلاحیت ہے، نہ زمانے کا فہم ہے اور نہ ہی حالات کا ادراک‘ بس سیاست چمکانے کے لیے چل پڑتے ہیں۔ اس چھوٹی سی کتاب میں انہوں نے اپنے زمانے کے نوجوانوں سے لے کر دانشوروں تک سب کو ان کی اوقات دکھلا دی اور یہ کام پڑھنے والے کی مرضی پر چھوڑ دیا کہ وہ ہنس کر گزر جائے، قوم کا ماتم کرلے یا خود کو ٹھیک کرلے‘ لیکن ہم نے اس کتاب سے ہنسنے کا کام لیا اور آج تک اسے پڑھ کر ہنستے چلے جا رہے ہیں۔
اسی مڈل کلاس‘ جس کا تذکرہ ادبی انداز میں پطرس نے کیا، نے 1947 میں پاکستان بنا لیا۔ نئے ملک میں پیدا ہونے والے چیلنجز سے جذباتی انداز میں نمٹ لیا تو ملک بنانے والوں کو 1949 میں ایک معاشی فیصلہ کرنا تھا۔ ہوا یہ کہ اسی سال برطانیہ نے اپنی کرنسی کی قیمت تیس فیصد تک گرا دی جس کے ساتھ ہمارا روپیہ منسلک تھا۔ اس کے نتیجے میں سادہ ترین فیصلہ یہ تھا کہ ہم بھی اپنی کرنسی کی قدر کم کردیتے مگر ہمارے اکابرین سر جوڑ کر بیٹھے اور آخری فیصلہ یہ کیا کہ ہم اپنے روپے کی قیمت کم نہیں کریں گے۔ یہ فیصلہ کرنے میں جس چیز نے اہم کردار ادا کیا وہ یہ تھی کہ اس سے پاکستان کی عزت میں اضافہ ہوگا۔ انداز فکر ملاحظہ فرمائیے کہ فیصلہ معاشی ہے اور بنیاد جذباتیت۔ یہ حقیقت پاکستان کے ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر پرویز حسن نے اپنی خودنوشت میں لکھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس فیصلے کے اثرات یہ ہوئے کہ پاکستان میں درآمدات سستی ہو گئیں گویا اپنی صنعت جو ابھی سانس لینے لگی تھی اس فیصلے کے ساتھ خود ہی تباہ کردی۔ وہ لکھتے ہیں:
'میں دسمبر 1951 میں کراچی میں منعقدہ ایک انڈسٹریل نمائش پر گیا جہاں جنرل موٹرز کی بنائی جانے والی کیڈلگ سے لے کر شیورلیٹ ماڈل تک کی کاریں نمائش پر رکھی اور فروخت کی جارہی تھی۔ اگرچہ میں ایک طالبعلم تھا‘ پھر بھی ان کاروں کی قیمت مجھے کم لگ رہی تھی۔ کیڈلاک کی قیمت پچیس ہزار کے آس پاس اور شیورلیٹ کی قیمت سولہ ہزار روپے تک تھی۔ ان کے خریدار اکثر سیکرٹریز بشمول ایئرفورس کے جواں سال سربراہ ائیرمارشل اصغر خان تھے ‘‘۔
آگے چل کر لکھتے ہیں:
''اپنے وسائل سے بڑھ کر زندگی گزارنا اور طویل مدتی سرمایہ کاری کے بجائے قلیل مدتی فائدہ پہنچانے والی مصنوعات پر خرچ کرنے کو ترجیح دینا ایک ایسی پلیگ ہے جس نے پاکستان کو اس کی ساری معاشی تاریخ میں جکڑے رکھا ہے‘‘۔
میں نے پطرس بخاری اور ڈاکٹر پرویز حسن کی صرف دو مثالیں دی ہیں جن سے آپ کو اندازہ لگانے میں آسانی ہوگی کہ نالائقی پاکستانیوں کا وتیرہ آج سے نہیں بلکہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ ہم جن بیوروکریٹس کی آج تعریف کرتے نہیں تھکتے وہ انگریز کی ماتحتی میں بہت عمدہ طریقے سے چھوٹے موٹے کام کرتے رہے ہوں گے لیکن آزادانہ طور پر ملک کیسے چلانا ہے انہیں اس کا کوئی علم نہیں تھا۔ جہاں تک معاشیات اور امور خارجہ کا تعلق ہے تو یہ کبھی انڈین سول سروس کے موضوعات ہی نہیں رہے کیونکہ تاج برطانیہ کے ماتحت یہ دونوں امور لندن سے طے پاتے تھے۔ آخر میں کچھ معاشی فیصلے یہاں ہونے لگے مگر ان کی حیثیت کھاتوں کی کتابیں ترتیب دینے سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ ہمارے پاس انگریز کا دیا جو کچھ بچ گیا ہے وہ بھی صرف اس لیے موجود ہے کہ پاکستان بننے کے بعد کئی انگریز افسروں نے ادھر آکر کام کرنا منظور کرلیا تھا، ورنہ معاملہ اپنے ہاتھ میں ہوتا تو نجانے ہم اپنے ساتھ کیا کر بیٹھتے۔
اور ہاں ہم نے اپنے جو ماہرین معاشیات پیدا کیے ان میں ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم کا بڑا نام ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے ان کی ناتجربہ کاری باقاعدہ طور پر بھگتی ہے، وہ اس طرح کہ انہی صاحب نے فرمایا تھا، 'پاکستان کی دولت بائیس خاندانوں میں مرتکز ہوگئی ہے‘۔ ان کا یہ فقرہ ذوالفقار علی بھٹو لے اڑے اور پورے پاکستان کی صنعت کو نیشنلائز کرکے تباہ کردیا۔ یہ ہمارے ‘لائق فائق‘ اکابرین کا مبلغ معاشی کارنامہ ہے کہ آج اس تباہی کے پچاس برس بعد بھی پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی بات کرے تو سننے والے ہنستے ہیں۔ ہماری تباہی کے بعد میں انہوں نے باہر جاکر کام سیکھ لیا تو بڑے آدمی گردانے گئے ۔
اپنے سیاستدانوں کی کارگزاری ملاحظہ فرمالیں کہ دستور بنانے سے پہلے قوم کو مذہبیت کے گھوڑے پر سوار کردیا جو بغیر کسی نشان منزل کے دوڑتا ہی چلا جارہا ہے۔ اس کے بعد نیچے سے اوپر تک جو سیاسی ڈھانچہ قوم کو متحدکرنے کیلئے دینا تھا وہ آج تک نہیں دے پائے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے پاس 1973 کا متفقہ دستور ہے۔ درست، مگر خود دستور کے اندر زبان اور بلدیاتی نظام کے بارے میں ایسی شقیں ہیں جس پر آج تک عمل نہیں کیا گیا۔ برطانوی پارلیمانی نظام کے تابع تشکیل پانے والے اس دستور کا مبلغ نتیجہ یہ ہے کہ ملک کے اندر طاقت چند خاندانوں میں مرکوز ہوچکی ہے۔ دستور بنانے والوں اور پھر اس کی دہائی دینے والوں کی خوش نیتی میں کلام نہیں مگر یہی لوگ تو ہیں جن کی اجتماعی لیاقت بھی اپنی ذات، اپنے گھر اور بچوں سے آگے آج تک سوچ ہی نہیں سکی۔
بات صرف انتظامی اور سیاسی بحران تک ہی محدود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے ایک سو برسوں میں بالعموم اور پاکستان بننے کے بعد بالخصوص ہمارا معاشرہ آج تک اس قابل بھی نہیں ہوا کہ معیشت کو ملک کی رگ جان ہونا ہی سمجھ سکے۔ ہم آج بھی فلاں کے سفیر کو نکال دو کے مضحکہ خیز نعرے سنتے اور ان پر تجزے تبصرے کرتے ہیں۔ دنیا کے دوسرے ملکوں کی تو خیر مثال بھی کیا دینی، ہمارے توام بھائی یعنی بھارت اور بنگلہ دیش بھی ہرحوالے سے ہمیں پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ بھارتی ترقی تو چلو کسی درجے میں مستحکم جمہوری نظام کی وجہ سے ہوگئی، کوئی یہ تو بتائے کہ بنگلہ دیش جو آج بھی آمریت کی زد میں ہے کیوں ہم سے آگے نکل گیا؟ آخر ان کے پاس ایسا کیا ہے جو ہمارے پاس نہیں؟ جواب یہ ہے کہ فرق صرف لوگوں کا ہے، تعلیمی نظام اور تربیت کا ہے۔ ہمارے بڑوں نے ان چیزوں پر غور کیا نہ ہمیں انکی فکر ہے۔
پطرس بخاری ایک لائق آدمی تھے۔ اپنی قوم کی نالائقی پر کم ازکم ہنسا تو سکتے تھے۔ اب تو ہم یہ بھی نہیں کرسکتے۔