طالبان کے انتہائی اہم کمانڈر حمد اللہ مخلص کو اُس وقت شہید کر دیا گیا جب ان کے سکواڈ نے سردار داؤد ملٹری ہسپتال پر داعش خراسان کے حملے کو روکنے کی کوشش کی۔ اس حملے میں 19 شہری بھی جان کی بازی ہار بیٹھے۔ طالبان نے اگست میں کابل فتح کرنے سے قبل‘ بیس سال تک غیر ملکی فورسز کے خلاف گوریلا انداز کی مزاحمت کی لیکن اب انہیں افغانستان میں سیاسی استحکام اور امن قائم کرنے جیسے سنجیدہ چیلنجز کا سامنا ہے، جسے حالیہ ہفتوں میں داعش خراسان کی طرف سے پے درپے حملوں نے زیادہ گمبھیر بنا دیا ہے۔ طالبان سرکار افغانستان میں داعش جیسی کسی باقاعدہ تنظیم کی موجودگی سے انکاری ہے۔ دوسری جانب وائس آف امریکا کے مطابق امریکی حکام نے تصدیق کی ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکمرانی کے خلاف مزاحمت کرنے والے نئے تشکیل شدہ مسلح گروپ نے امریکا میں سیاسی لابنگ کیلئے محکمہ انصاف کے پاس رجسٹریشن کرائی ہے۔ یہ تصدیق طالبان مخالف نیشنل ریزسٹینس فرنٹ (NRF) کے ان دعووں کے جواب میں سامنے آئی، جس میں کہا گیا کہ انہیں امریکا میں دفاترکھولنے کی اجازت مل گئی ہے۔ یہ دعویٰ این آر ایف کے خارجہ امور کے سربراہ علی میثم نظیری نے اپنے ایک ٹویٹ میں کیا تھا، جس میں اس عزم کا اعادہ بھی کیا گیا تھا کہ این آر ایف جلد اپنی سرگرمیوں کا دائرہ پوری دنیا تک پھیلا دے گا۔ داعش خراسان نے 15 اگست کو طالبان کے قبضے کے بعد سے افغانستان میں چار ہلاکت خیز حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، جن میں مخصوص مسلک کی مساجد کو نشانہ بنانے کے علاوہ کابل ایئرپورٹ پہ امریکی فورسز پر حملہ بھی شامل ہے۔ اس سے قبل 2017ء میں بھی داعش نے سردار داؤد ملٹری ہسپتال کو ہدف بنایا تھا۔ طبی عملہ کے بھیس میں کئی مسلح افراد نے گھنٹے بھر تک جاری رہنے والے محاصرے میں کم از کم 30 افراد ہلاک کر دیے تھے۔ ذرائع کے مطابق کابل کی تسخیر کے بعد طالبان نے داعش کے سربراہ ابو عمر خراسانی کو ساتھیوں سمیت جیل میں قتل کر دیا تھا۔ بے رحم افغان جنگ کے دوران بھی طالبان داعش کو مستقبل میں اپنے لیے خطرہ سمجھتے رہے؛ چنانچہ جب روس، چین، ایران اور پاکستان طالبان کو اپنے قومی مفادات اور جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کی خاطر اُن غیر ملکی جنگجوؤں کو لگام ڈالنے کا کہتے‘ جو اُن سے طویل وابستگی رکھتے تھے‘ تو طالبان کی قیادت اِسی خدشے کے پیش نظر غیر ملکی جنگجوؤں سے سختی برتنے سے اجتناب کرتی رہی کہ کہیں وہ داعش کی طرف رخ نہ کر لیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق خفیہ اداروں کو افغانستان میں داعش کی موجودگی کے ایسے شواہد ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ داعش کا کمانڈر ذاکر کچھ عرصہ موصل میں بطور ''قاضی‘‘ خدمات انجام دینے کے بعد دوبارہ افغانستان لوٹ آیا ہے۔ داعش والے کہتے ہیں کہ ہم طالبان کیلئے ویسے ہی ہیں، جیسے وہ امریکیوں کیلئے پوشیدہ تھے، ہم انہیں دیکھ سکتے ہیں اور وہ ہمارے نشانے پر ہیں۔
یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا کہ مغربی تجزیہ کاروں کو امریکی انخلا کے بعد طالبان کی طرف سے کابل کا اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی دونوں گروپوں کے درمیان طویل جنگ کے آثار دکھائی دینے لگے تھے بلکہ اس مہیب پراکسی کے پیچھے امریکی مقتدرہ کی مربوط منصوبہ بندی کار فرما ہو سکتی ہے۔ ان کے خیال میں داعش کے خلاف طالبان کی لڑائی سیدھی نہیں بلکہ پیچیدہ، مہیب اور طویل ہو گی۔ امریکی سمجھتے ہیں کہ مستقبل کے حالات طالبان کی بقا کیلئے زیادہ مشکل ہوں گے کیونکہ اس امر کا امکان موجود ہے کہ داعش طالبان کے خلاف لڑنے کیلئے زیادہ مضبوط ہو جائے؛ تاہم ابھی بہت کچھ داعش کے اپنے جنگجوئوںکو دوبارہ متحرک کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔ داعش کے پاس لڑائی روکنے اور دوبارہ شروع کرنے کا آپشن تو موجود ہے لیکن انہیں اپنے جنگجوؤںکو متحرک رکھنے اور طالبان کے خلاف لڑنے کیلئے کافی وسائل اور وقت درکار ہوں گے۔
داعش کے نئے رہنما ڈاکٹر شہاب المہاجر نے طالبان سرکارکے خلاف نئی شہری دہشت گردی مہم کا اعلان کر دیا ہے۔ دوسری جانب طالبان کی حکمرانی کے مسائل اور داعش کے خلاف اُن کی جنگی مہمات کے پہلو بہ پہلو سنگین مسئلہ باہمی گروہ بندی بھی ہو گی۔ طالبان کے بڑے اتحادیوں میں حقانی نیٹ ورک ہے‘ جو بظاہر طالبان کا حصہ نظر آتا ہے لیکن پنٹاگون کا کہنا ہے ''طالبان اور حقانی نیٹ ورک دو الگ تنظیمیں ہیں‘‘۔ ایک مغربی تجزیہ کار کے مطابق‘ اگرچہ پیش گوئی کرنا آسان نہیں لیکن اتنا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ داخلی دھڑے بندیوں کی وجہ سے طالبان کیلئے داعش سے نمٹنا مشکل ہو گا۔ بہرحال داعش نے اگست میں کابل کے ہوائی اڈے پہ حملہ کرکے جس مبارزت کی ابتدا کی تھی‘ وہ بتدریج بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ بظاہر یہی لگتا تھا کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان زیادہ پُرامن ہو جائے گا لیکن جلال آباد میں اب بھی طالبان فورسز کو تقریباً روزانہ ٹارگٹڈ حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ داعش وہی''ہٹ اینڈ رن‘‘ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے جو طالبان نے امریکی جارحیت کے خلاف کامیابی کے ساتھ استعمال کیے۔ صوبہ ننگرہار میں طالبان کی انٹیلی جنس سروسز کے سربراہ ڈاکٹر بشیر نے پہلے داعش کو صوبہ کنڑ میں قائم کئے گئے چھوٹے سے گڑھ سے نکالنے میں کامیابی حاصل کی تھی اور وہ فخر سے کہتے ہیں کہ ان کے آدمیوں نے داعش کے درجنوں ارکان کو گرفتار کیا۔ عوامی سطح پر طالبان قیادت داعش کے خطرے کو اہمیت نہیں دیتی‘ وہ کہتے ہیں کہ جنگ کو ختم کرکے بالآخر وہ امن لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
ڈاکٹر بشیر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ داعش کا افغانستان میں باقاعدہ کوئی وجود نہیں؛ البتہ وہ غداروں کے ایسے گروہ کا حوالہ ضرور دیتے ہیں جو ان کی حکومت کے خلاف بغاوت پہ کمربستہ ہے۔ اس کے برعکس مغربی ذرائع ابلاغ اصرار کرتے ہیں کہ داعش نہ صرف افغانستان میں موجود ہے بلکہ اس کی ایسی مخصوص شاخ قائم ہے جس سے مملکت کا تصور ابھرتا ہے، یعنی داعش خراسان‘ جو وسط ایشیائی خطے کا قدیم نام تھا۔ داعش نے پہلی بار 2015ء میں افغانستان میں اپنی موجودگی ظاہر کی تھی اور طالبان کی فتح کے بعد اس نے ان علاقوں میں کارروائیاں شروع کیں جن میں عسکریت پسند پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے تھے۔ اس ماہ کے آغاز میں داعش نے افغانستان کے شمالی شہر قندوز اور طالبان کے گڑھ قندھار میں مساجد پر خودکش حملے کئے؛ تاہم طالبان داعش کو زیادہ اہمیت نہ دینے پر مُصر ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے مغربی ممالک کے اتحاد کو جنگ میں شکست کا مزا چکھایا تھا‘ داعش کو بھی مٹا دیں گے؛ تاہم امریکی حکام نے خبردار کیا ہے کہ داعش چھ ماہ سے ایک سال کے اندر افغانستان سے دیگر ممالک پر حملے کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکتی ہے۔ داعش کے خدشات افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں‘ اس لیے طالبان تنہا نہیں بلکہ داعش کے مصنوعی خطرے سے نمٹنے کیلئے انہیں چین، روس، پاکستان اور ایران کی مدد بھی میسر ہو گی۔
اس وقت داعش کا عملاً افغانستان کے کسی علاقے پر کنٹرول نہیں ہے۔ امریکی انخلا سے قبل یہ گروہ ننگرہار اور کنڑ‘ دونوں صوبوں میں مستقل اڈے بنا چکا تھا لیکن طالبان نے آتے ہی ان کا صفایا کر دیا تھا۔ اگرچہ اس گروپ کے پاس 70 ہزار طالبان فوجیوںکے مقابلے میں صرف چند ہزار جنگجو ہیں لیکن یہ خدشہ موجود ہے کہ یہ دھڑا کچھ دوسرے وسطی ایشیائی گروپوں اور ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو بھرتی کر سکتا ہے ۔طالبان کے برعکس‘ جنہوں نے بار بار اس بات کی وضاحت کی کہ ان کا واحد مقصد افغانستان میں اسلامی امارت کا قیام ہے‘ داعش غیرمحدود عالمی عزائم رکھتی ہے۔ پوری دنیا پہ حکمرانی قائم کرنے کے خواب دیکھنے والی داعش قول و فعل کے تضادات کا شکار ہے۔ اگرچہ وہ اتنی طاقتور نہیں کہ افغانستان کا کنٹرول سنبھال سکے؛ تاہم بہت سے افغان تھکے ہوئے انداز میں اس کے حملوں میں اضافے کو ملک میں ''نئے کھیل‘‘ کا آغاز تصور کرتے ہیں۔ کیونکہ داعش کی طرف سے صرف طالبان ہی کو نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ سول سوسائٹی بھی ان کے حملوں کی زد میں ہے۔ ایسے میں افغان عوام کہتے ہیں جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تو ہم پُر امید تھے کہ بدعنوانی، قتل اور دھماکوں کا سلسلہ خاتمہ ہو جائے گا، لیکن اب ہم محسوس کر رہے ہیں کہ داعش کے نام سے ایک نیا رجحان ہم پر مسلط کیا جا رہا ہے۔