تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     10-11-2021

ایک سے چالیس تک

''ملک میں کنسٹرکشن کی صنعت کیلئے تحریک انصاف کی حکومت اس قدر سہولتیں فراہم کرے گی جس سے ملک بھر میں نئی عمارتوں، پلازوں، گھروں اور کارخانوں کی بھر مار ہو جائے گی اور اس کیلئے پہلی دفعہ کنسٹرکشن سے متعلق ایسی مراعات اور سہولتیں مہیا کی جائیں گی جن کا اس سے پہلے کسی نے تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔ ملکی ترقی کا یہ پہیہ صرف کنسٹرکشن کی صنعت سے متعلقہ لوگوں تک ہی محدودنہیں رہے گا بلکہ اس سے وابستہ دیگر چالیس صنعتوں کو بھی اس طرح فروغ ملے گا کہ چوبیس گھنٹے ان کے یونٹ کام کریں گے لیکن پھر بھی کنسٹرکشن انڈسٹری سے متعلقہ مارکیٹ میں فراہم کی جانے والی اشیا پوری نہیں ہو سکیں گی۔ اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ ملک میں ہر قسم کی عمارت کیلئے دستیاب اشیا کی ڈیمانڈ پوری کرنے کیلئے نئے کارخانے لگیں گے جس سے اندازاً دس لاکھ سے زائد لوگوں کو روزگار میسر آئے گا‘‘۔ وزیر اعظم عمران خان اپنی تقریر میں یہ نوید سنارہے تھے کہ ایک کروڑ نوکریاں فراہم کر نے کا ان کا وعدہ پایہ تکمیل کی جانب بڑھنے لگا ہے کیونکہ اینٹ سے لے کر لکڑی، لوہا، سینیٹری، ٹائلوں سمیت کنسٹرکشن میں کام آنے والی کئی درجن اشیا کی ڈیمانڈ کا بڑھنا یقینی امر تھا لیکن وزیراعظم کے اعلانات کی باز گشت ابھی مدہم بھی نہ ہوئی تھی کہ سرکاری افسران اور اہلکار اس منصوبے کی راہ میں دیوار بن کر کھڑے ہو نا شروع ہوگئے۔ انہوں نے مل کرعوام کو تگنی کے وہ ناچ نچانا شروع کئے کہ کئی لوگ پاکستان آنے سے پہلے ہی یہ داستانیں سن کر اپنا حوصلہ ہار بیٹھے؛ البتہ وزیر اعظم کی بار بار کی تقرریروں اور سیمیناروں سے خطاب میں کنسٹرکشن مراعات پر یقین کرتے ہوئے کچھ لوگ میدا ن میں ڈٹے بھی رہے۔ کسی جانب سے کچھ دھیان دینے پر اس تعمیراتی صنعت کی بہتری کیلئے کچھ کام ہوا بھی لیکن وہی سرخ فیتہ، کرپشن زدہ سسٹم اور کھوکھلے نعرے اس ملک میں ترقی کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹنے لگے۔
کووِ ڈ کی وبا آئی تو پوری دنیا میں لاک ڈائون کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ باقی دنیا کی طرح خلیجی ممالک میں بھی ہر طرح کے تعمیراتی کاموں پر پابندیاں لگا دی گئیں، جس نے ان ممالک اور ریاستوں میں بننے والی عمارات، شاہراہوں، بڑے بڑے پلوں اور پلازوں کے کام ٹھپ ہو کر رہ گئے۔ کورونا کی بڑھتی لہروں سے چند ماہ بعد ہی لیبر کو فارغ کیا جانے لگا اور اس کیلئے درکار مشینری جام ہو کر رہ گئی جس سے متعلقہ شعبے کے لوگ شدید خسارے کا شکار ہو گئے اور انہوں نے یہ مشینری فروخت کرنا شروع کر دی کیونکہ انہیں لگ رہا تھا کہ یہ کام اب ایک‘ ڈیڑھ سال سے پہلے دوبارہ شروع کرنے کی اجازت ملنے کا امکان نہیں۔ پاکستان میں وزیر اعظم کی اپیل پر لبیک کہنے والے بہت سے پاکستانی انجینئرز کے اندر جذبۂ حب الوطنی بیدار ہوا اور وہ اس مشینری کو خریدنا شروع ہو گئے تاکہ اسے پاکستان میں کنسٹرکشن کے کام میں لایا جا سکے۔
وزیر اعظم عمران خان کی تحریک اور راوی اربن ڈویلپمنٹ جیسے میگا پروجیکٹس کے بار بار افتتاح اور اس سے متعلقہ اجلاس ہوتے دیکھ کر اوورسیز پاکستانیوں نے جب دیکھا کہ یورپ اور خلیجی ممالک میں کورونا کے سبب سارا کام ٹھپ ہونے کے باعث کنسٹرکشن سے متعلق جدید اور بڑی بڑی مشینری انتہائی کم قیمت پر بیچی جا رہی ہے تو امریکا اور یورپ سمیت خلیجی ممالک میں موجود افراد نے انہیں بڑھ چڑھ کر خریدنا شروع کر دیا۔ یہ وہی اوور سیز پاکستانی تھے جنہوں نے کئی برسوں سے عمران خان کو اس ملک کا نجات دہندہ سمجھ کر دن رات ا ن کی کامیابی کیلئے فنڈنگ کی اور پاکستان سمیت سوشل میڈیا پر تیز رفتار کمپین شروع کر رکھی تھی۔ خان صاحب کے وزیر اعظم بننے کے بعد وہ ایک جذبے کے ساتھ ملکی ترقی میں ان کا ہاتھ بٹانے اور بھر پور ساتھ دینے کیلئے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو گئے تھے۔ مشیرِ خزانہ شوکت ترین کا چند روز قبل کا بیان اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اگر اوور سیز پاکستانی کئی ارب ڈالر کا زرمبادلہ نہ بھیجتے تو خدشہ تھا کہ ملک دیوالیہ ہو جاتا کیونکہ ہمارے پاس ادائیگیوں کیلئے ڈالرز کی بے حد کمی ہو چکی تھی۔ صدرِ مملکت سے لے کر وزیر اعظم تک اور وزیروں سے لے کر مشیروں تک‘ ہر کوئی مانتا ہے کہ پاکستان اوور سیز پاکستانیوں کی قربانیوں کا مقروض ہے لیکن یہ کسی نے بھی نہیں سوچا کہ ان کا زیا دہ نہیں تو تھوڑاسا ہی قرض اتار دیا جائے۔ کاش کسی دن بیوروکریسی اور ایئر پورٹ سمیت ملک بھر کے سرکاری دفاتر میںبیٹھے ہوئے لوگ بھی اوور سیز پاکستانیوں کے کاموں میں یہ کہتے ہوئے آسانی کرنا شروع کر دیں کہ ہم ان کا احسان عمر بھر نہیں بھول سکتے۔
ہمارے ایک دوست نے‘ جو ایک یورپی ملک میں مقیم ہیں‘ اپنی بیگم کا شنا ختی بنوانا تھا۔ بار بار سر ٹکرانے کے با وجود کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی تو تنگ آ کر ا پنی بیگم کا شناختی کارڈ بنوانے کیلئے انہیں چار لاکھ رشوت دینا پڑی اور اپنی رہائش سے سینکڑوں میل دور پاکستانی سفارتخانے کے نصف درجن سے زائد چکر الگ سے لگانا پڑے۔ اوور سیز پاکستانی منتیں ترلے کر کر کے تھک گئے ہیں کہ پچیس‘ تیس برس کی ملازمت کرنے کے بعد ریٹائر ہوکر وطن واپس آنے والے پاکستانیوں کو ایک موبائل اور ایک گاڑی لانے کی اجازت دی جائے لیکن کوئی سنتا ہی نہیں۔ اگر اونٹ کے منہ میں زیرے والے محاورے کے مطا بق گاڑی کی اجازت دی بھی گئی تو اس پر اتنے ٹیکس لگائے گئے کہ سب بلبلا اٹھے۔ اس وقت اوورسیز پاکستانیوں کو اپنے ساتھ لائے گئے ذاتی موبائل پہ بھی ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے حالانکہ یہ انہوں نے یہاں بیچنا نہیں ہوتا بلکہ واپسی پر اپنے ساتھ لے جانا ہوتا ہے۔
بات ہو رہی تھی کنسٹرکشن مشینری کی ؛ جیسے ہی اوور سیز پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی یہ مشینری اور متعلقہ سامان پاکستان کی ڈرائی پورٹس پر پہنچنا شروع ہوا‘ متعلقہ محکمے کے تمام چھوٹے بڑے اہلکار اپنے پنجے تیز کرتے ہوئے ان کی کھالیں اتار نا شروع ہو گئے۔ ہزاروں‘ لاکھوں‘ کروڑوں کی دیہاڑیاں دیکھ کر سب کی رال ٹپکنا شروع ہو گئی مگر اوور سیز کے ساتھ اس سب میں جو کچھ ہوا‘ اس پر سب توبہ توبہ کر اٹھے۔ کچھ ڈھیٹ قسم کے لوگوں نے اس مشینری کوا ستعمال میں لاتے ہوئے کنسٹرکشن کا کام شروع کرنا چاہا تو سب سے پہلے ترقیاتی اداروں کے لوگوں نے ان کے گلے دبا لیے کہ نقشہ پاس کرانے کیلئے تین‘ چار ملین سے کم ایک پائی نہیں لیں گے بلکہ یہاں تک ہوا کہ کچھ محکموں نے عمارت کی تعمیر شروع کرنے سے پہلے فائر سیفٹی کے نام پر بھی جیبیں کاٹنا شروع کر دیں جس سے وہ مثال سچ ثابت ہو گئی کہ ایک کرپٹ افسر کو سزا دینے کیلئے سمند رکی لہریں گننے پر لگا یا تو لہریں گننے والا وہاں بھی کسی سے پیچھے نہ رہا۔ ایک طرف حکومت کنسٹرکشن انڈسٹری کے لیے مراعات کا اعلان کر رہی تھی اور کورونا وبا میں انہیں کام کرنے کی اجازت دے رہی تھی، دوسری جانب متعلقہ محکمے ہر نقشے، پلازے اور عمارت کی تعمیر کی منطوری دینے سے پہلے‘ دس سے بیس فیصد تک اپنا حصہ وصول کرنا اپنا حق سمجھے ہوئے تھے۔ اِس وقت ملک میں دوسری تمام ا شیا کی طرح کنسٹرکشن سے متعلق سامان بھی اس قدر مہنگا ہو چکا ہے کہ لگتا ہے کنسٹرکشن سے متعلق انڈسٹری کی پہلے سے جھکی ہوئی کمر مزید بوجھ اٹھانے کے قابل ہی نہیں رہے گی۔ سیمنٹ، اینٹ، بجری، ریت، المونیم، شیشہ، پلاسٹک، لوہے، سٹیل اور تانبے کے تمام چھوٹے بڑے پرزہ جات سمیت لکڑی، دروازے، کیبل وغیرہ‘ غرض ہر چیز اس قدر مہنگی ہو چکی ہے کہ ان کی قیمت عام صارف کی قوتِ خرید سے باہر ہو چکی ہے۔ کئی اوورسیز پر اب سوگ کی سی کیفیت طاری ہے اور وہ اس وقت کو کوس رہے ہیں جب انہوں نے یورپ اور خلیجی ممالک میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آنے کا فیصلہ کیا تھا اور اپنی ساری کمائی اس صنعت میں جھونک دی تھی۔ ایک تخمینے کے مطابق کنسٹرکشن سے متعلقہ اشیا کی قیمتوں میں ایک سال کے دوران 50 سے 100 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے اور یہ اضافہ ماہِ اکتوبر تک تھا، نومبر میں ڈالر اور پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے ان میں مزید اضافہ ہو چکا ہو گا۔
پی ٹی آئی حکومت اور وزیراعظم پاکستان سے دست بستہ عرض ہے کہ اگر آپ کنسٹرکشن اور اس سے وابستہ چالیس دیگر صنعتوں کو واقعی زندہ دیکھنا چاہتے ہیں تو براہ کرم پرویز مشرف حکومت کا گیارہ جون2004ء کو جاری کردہ ایس آر ا و نمبر 26/183/plan coord-11/pc/2004 ایک بار ضرور دیکھ لیجیے۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ ایک صنعت کو چلا کر چالیس تک جانا چاہتی ہے یا ایک سے واپس زیرو کی جانب؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved