تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     11-11-2021

قصہ ایک شہرِ قدیم کا… (6)

قصہ لمبا ہو گیا مگر کیا کریں؟ شہر قدیم کا قصہ طویل تو ہوگا۔ چھ دروازے، شہر پناہ کی فصیل، قدیمی دمدمہ، پرانا قلعہ اور اس کی ناپید ہو جانے والی فصیل، کبھی یہ فصیل موجود تھی۔ جیسا کہ میں نے گزشتہ سے پیوستہ کالم میں لکھا تھا کہ 1818ء میں سکھ فوج نے ملتان کا محاصرہ طویل ہونے پر لاہور سے مشہور زمزمہ توپ منگوائی اور اس سے قلعے کی دیوار میں شگاف ڈالا۔ اس شگاف میں سے سکھ فوج قلعے میں داخل ہوئی۔ شہر فتح ہوا اور کھڑک سنگھ، دیوان چند، سادھو سنگھ اور ہری سنگھ نلوا کی قیادت میں فاتح فوج نے ظلم و ستم کا ایسا بازار گرم کیا جس کی مثال ملنا ممکن نہیں۔ دولت دروازے سے لے کر لوہاری دروازے تک کا شہر قلعے سے متصل تھا۔ جب قلعہ فتح ہوا تو شہر میں داخلے کا دروازہ خود بخود کھل گیا۔ دوسری بار شہر کا محاصرہ انیس اپریل 1848ء کو شروع ہوا جو تقریباً نو ماہ تک جاری رہنے کے بعد بائیس جنوری 1949ء کو انگریزوں کی فتح پر منتج ہوا۔ سکھوں کو شکست ہوئی۔ دیوان مولراج گرفتار ہوا۔ اس پر انگریزوں کے قتل کا مقدمہ چلا۔ پہلے پہل اسے سزائے موت سنائی گئی؛ تاہم بعد ازاں یہ سزا جلاوطنی دوام میں تبدیل کرکے اسے کلکتہ بھجوا دیا گیا۔ اس محاصرے کے دوران تیس دسمبر 1948ء کو گولہ باری کے دوران انگریزوں کا ایک گولہ قلعے میں موجود بارود خانے پر گرا اور سولہ ہزار پاؤنڈ بارود ایک خوفناک دھماکے سے پھٹ گیا۔ آٹھ سو لوگ تو فی الفور مارے گئے جبکہ بے شمار زخمی ہوئے۔ شہر کے سینکڑوں مکان تباہ ہو گئے۔ پرہلاد مندر کی چھت گر گئی۔ بہاء الدین زکریا اور رکن الدین عالم کے مزارات کو شدید نقصان پہنچا۔ ان مزارات کے گدی نشین مخدوم شاہ محمود نے حکومت ہند کی جانب سے مرمت کی رقم نامنظور کرنے کے بعد اپنے مریدوں سے پیسے اکٹھے کرکے ان کی مرمت کروائی۔ انگریز ان کی ہوشیاری سے بہت خوش ہوئے۔ اس محاصرے میں مخدوم شاہ محمود کے انگریزوں سے تعاون اور وفاداری کو مدنظر رکھتے ہوئے حسنِ خدمات کے صلہ میں مبلغ سات سو روپے کی معافی دوام اور تیرہ سو روپے سالانہ بطور وظیفہ منظور کیا گیا۔ 1848ء کے محاصرے تک قلعے کی فصیل موجود تھی اور سلامت بھی۔ ایک سال بعد دریائے چناب اور سندھ میں شدید سیلاب آیا۔ پانی ملتان میں داخل ہو گیا۔ قلعے کی فصیل گر گئی اور تاریخ کا حصہ بن گئی۔ انگریزوں نے شہر پر قبضے کے بعد کسی ممکنہ بغاوت یا مزاحمت کے خوف سے قلعے کی فصیل کی دوبارہ تعمیر مناسب نہ سمجھی۔ تب سے قدیمی قلعہ فصیل کے بغیر ہے۔
میں جس سیمینار میں بیٹھا ہوا تھا اس میں ملٹی میڈیا کے ذریعے مختلف سلائیڈز دکھائی جا رہی تھیں۔ قلعے کا Rehabilitation پلان بیان کیا جا رہا تھا۔ یہ عجب ری ہیبلی ٹیشن تھی جس میں کسی قلعے کی سب سے بنیادی چیز فصیل ہی ندارد تھی۔ بھلا قلعہ فصیل کے بغیر کیا ہے؟ دنیا کا گیا گزرا ترین قلعہ بھی فصیل کے بغیر قلعہ نہیں کہلا سکتا۔ میں نے اپنے بچپن میں قلعے کی شمال مغربی سمت اس ناپید ہو جانے والی فصیل کا چھوٹا سا حصہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ چھوٹی اینٹ سے تعمیر کردہ پرانی فصیل کی یہ شاید آخری باقیات تھیں۔
قارئین! معاف کیجئے میں پھر کہیں سے کہیں نکل جاتا ہوں مگر کیا کروں‘ اپنی بچپن کی یادوں کو کہاں پھینکوں؟ اب اس شہر میں کتنے لوگ باقی بچے ہیں جو اس شہر کے مٹتے ہوئے آثار کے گواہ ہوں۔ ان چیزوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے ختم ہوتا دیکھا ہو اور اس کا نوحہ لکھیں؟ کل کلاں کسے یاد ہوگا کہ مخدوم شاہ محمود کے گھر کے سامنے ایک کھلا میدان تھا اور شہر کی فصیل اور ان کے گھر کے درمیان چھوٹے بڑے مخدوموں کی رہائش گاہیں، لنگر خانے اور مہمان خانے وغیرہ کا وجود نہیں تھا۔ آنے والی نسل تو یہی سمجھے گی کہ یہ ساری تعمیرات صدیوں پرانی ہیں حالانکہ یہ محض عشروں پرانی کہانی ہے اور اس کہانی کو لکھنے والی یہ آخری نسل ہے۔
ملتان میں قدیم شہر بلکہ زیادہ حقیقی الفاظ میں قلعے کی بحالی کے نئے پروجیکٹ پر دی جانے والی بریفنگ میں جو سلائیڈز دکھائی جا رہی تھیں اس میں قلعے کی فصیل کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ قلعے کی شمالی سمت جو واٹر ورکس روڈ کہلاتی ہے واحد ایسی سمت ہے جہاں سڑک اور قلعے کے درمیان تجاوزات یا تعمیرات نہیں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ قلعے کی اکلوتی سائیڈ ہے جو پوری طرح نظروں کے سامنے ہے اور اس جانب سے قلعے کو اس کی حقیقی اور قدیمی شکل و صورت دی جا سکتی ہے۔ اس سمت میں ایک قدیم اوورہیڈ واٹر ٹینک ہے۔ 1932ء میں تعمیر کردہ اس واٹر ٹینک کی نسبت سے یہ سڑک واٹر ورکس روڈ کہلاتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ملتان کے ایک بہت بڑے انتظامی افسر نے مجھ سے کہا کہ وہ اس واٹر ٹینک کو مسمار کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے ہنس کر کہا کہ یہ بے چارہ‘ بے زبان اور بے ضرر ٹینک آپ کا کیا لے رہا ہے؟ یہ ہمارے شہر کی تاریخ کا حصہ اور ایک یادگار ہے۔ یہ یادگار اپنے پائوں پر کھڑی ہے اور قلعے کے عقب میں اس منظرنامے کا ایک ایسا حصہ ہے جس کے بغیر یہ سب نامکمل دکھائی دیتا ہے۔ آپ لوگ زیادہ سے زیادہ اسے کباڑ کے بھائو بیچ دیں گے۔ بالکل ویسے ہی جیسے 1884ء میں بننے والے ''نارتھ بروک ٹاور‘‘ عرف گھنٹہ گھر ملتان کا ڈیڑھ سو سالہ قدیم کلاک چوری ہوا اور کباڑ میں بک گیا۔ یہ سو سالہ قدیم واٹر ٹینک ایک عجوبہ ہے اور یادگار کے طور پر سلامت رہنا چاہیے۔ بھلے آپ اسے دوبارہ سبز رنگ نہ کروائیں مگر کم از کم اسے رہنے تو دیں۔ اللہ جانے وہ کون سا سعد وقت تھاکہ میری بات اس افسر کے دل کو لگی اور یہ ٹینک کباڑ میں فروخت ہونے سے بچ گیا۔
قلعے کی ساری شمالی سمت ایسی ہے کہ اس طرف سے قلعہ بہ آسانی اپنی اصلی حالت میں لایا جا سکتا ہے‘ لیکن مجھے بڑی حیرانی ہوئی جب میں نے قلعے کی بحالی کا نیا منصوبہ دیکھا۔ اس روز ملٹی میڈیا پر جو سلائیڈز دکھائی جا رہی تھیں ان کے مطابق اس سمت باغ باغیچے بنانے پر زور دیا جا رہا تھا۔ بندہ پوچھے‘ یہ کسی قلعے کی بحالی ہو رہی ہے یا کوئی پارک بنایا جا رہا ہے؟ دوچار سیڑھیوں کی طرز پر تہہ دار تختوں کی صورت میں پھول پودے لگانے اور گھاس اُگانے کا نام قلعہ کی بحالی رکھا گیا تھا۔ بھلا دنیا میں کوئی ایسا قلعہ ہے جس کی فصیل نہ ہو؟ اور اگر یہ فصیل امتداد زمانہ کی نذر ہوگئی ہو تو اسے بحال کیا جانا چاہیے نہ کہ وہاں پھول پودے لگا کر ڈنگ ٹپائو کام کیا جائے اور ورلڈ بینک کا قرضہ ہضم کرلیا جائے۔ قلعہ پر پہلے ہی ایک عدد پارک اور ایک عدد کرکٹ سٹیڈیم موجود ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ یہ تاریخی اور قدیمی مقام شہر بھر کا سب سے لاوارث مقام ہے۔ ہر طرف سرکاری سرپرستی میں تجاوزات کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے۔ پولیس کا 15 مرکز وہاں ہے، حاجی کیمپ قلعہ پر ہے، مزارات تو تھے ہی وہاں ایک عدد مدرسہ بھی قائم ہو چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قلعہ پر موجود نئی تجاوزات ختم کی جائیں۔ مزید مزارات کی تعمیر پر پابندی عائد کی جائے اور مزید کسی تدفین کی اجازت بھی نہ دی جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دو اطراف میں موجود ناجائز تجاوزات کو ختم کرکے قلعہ کی فصیل بحال کی جائے۔ غضب خدا کا‘ قلعہ کی بحالی کے منصوبے میں ان میں سے کوئی چیز بھی شامل نہیں ہے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved