تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     26-07-2013

ملتان کا حال اور دوستوں کا معاملہ

وزیراعظم پیکج کے نام سے ملتان میں سالوں پہلے شروع ہونے والے ترقیاتی کاموں میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ہونے والی کھینچا تانی نے ملتان کے عوام کو گزشتہ اڑھائی تین برسوں سے باقاعدہ ذلیل وخوار کررکھا تھا۔ صوبائی حکومت نے اس پیکج میں نصف حصہ دینے کا وعدہ کیا تھا مگر مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت بوجوہ اپنے وعدوں اور معاہدوں پر قائم نہ رہ سکی۔ مرکزی حکومت جو پیپلزپارٹی کی تھی وہ بھی اپنے منظور شدہ فنڈز بروقت دینے سے قاصر رہی۔ بقیہ رہی سہی کسر اس ترقیاتی پیکج میں سے لوٹ مار کرنے والوں نے نکال دی‘ نتیجہ یہ نکلا کہ نو دس ماہ میں تکمیل پانے والے منصوبے، فلائی اوورز اور سڑکیں اڑھائی تین سال میں مکمل نہ ہوسکیں۔ کمیشن لینے والے البتہ بروقت اپنا حصہ وصول کرکے ’’پتلی گلی‘‘ سے نکل گئے۔ اس ترقیاتی پیکج میں تکنیکی اور تعمیراتی نقائص اتنے ہیں کہ اس پر ایک علیحدہ تفصیلی رپورٹ لکھی جاسکتی ہے۔ منصوبے میں سیاسی، ذاتی، عزیزوں کی اور کمیشن کی چمک نے اتنی تبدیلیاں کروائیں کہ سارا منصوبہ جو عوام کی سہولت کے لیے بنایا گیا تھا نہ صرف یہ کہ اپنے مقاصد پورے کرنے میں ناکام رہا بلکہ کئی جگہوں پر باقاعدہ زحمت کا باعث بن گیا ہے اور جتنی رقم خرابیوں سے بھرپور اس منصوبے پر صرف ہوئی ہے اگر ایمانداری سے خرچ ہوتی تو ملتان واقعتاً پیرس بن جاتا مگر ملتان تو پیرس نہ بن سکا البتہ اس منصوبے سے ’’کھیسی‘‘ کی گئی رقم سے کئی لوگ پیرس میں ذاتی جائیدادیں خریدنے کے قابل ضرور ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی فراغت کے بعد آنے والے راجہ پرویز اشرف نے فنڈز کی نہروں کا رخ گجرخان اور اپنے عزیزوں کی طرف موڑا تو ملتان ترقیاتی پیکج جو پہلے ہی ایشیا کا سب سے سست رفتار ترقیاتی منصوبہ تھا دنیا کا سب سے سست رفتار منصوبہ بن گیا۔ تاہم درمیان میں چند ماہ کے لیے آنے والے ڈی سی او نسیم صادق نے کام کو کافی حدتک کھینچنے کی کوشش کی اور عرصہ قدیم سے زیرتعمیر رشید آباد فلائی اوور کو مکمل کروایا تاہم ان کی ٹرانسفر کے بعد معاملات پھر دگرگوں ہوگئے۔ صورتحال یہ ہے رشید آباد فلائی اوور تو مکمل ہوگیا ہے مگر اس کے دونوں طرف والی وہ سڑکیں جو نیچے سے گزرتی ہیں ابھی تک دھول مٹی کے علاوہ کچھ نہیں۔ چوک کمہاراں والا میں تکمیل پانے والا فلائی اووراس حوالے سے نامکمل ہے کہ اس کے نیچے ابھی تک سب کچھ الٹ پلٹ پڑا ہوا ہے۔ نیچے سے گزرنے والی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی اور نامکمل ہیں۔ فلائی اوور کے نیچے والا حصہ ابھی تک پتھروں اور مٹی سے اٹاپڑا ہے۔ ملتان میں سب سے طویل فلائی اوور کا حال سب سے خراب ہے۔ ملتان کینٹ سے شروع ہوکر پرانے شجاع آباد روڈ تک جانے والا ایک کلومیٹر سے زیادہ طویل فلائی اوور جہاں ختم ہوتا ہے وہاں سے آگے سڑک نامی کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔ کبھی وہاں کوئی سڑک ہوتی تھی مگر اب اس کے صرف آثار باقی ہیں۔ دھول ، مٹی، گڑھوں اور پتھروں سے اٹی ہوئی سڑک کی باقیات اس قابل نہیں کہ وہاں کوئی گاڑی چلائی جاسکے لہٰذا عملی طورپر یہ فلائی اوور استعمال ہی نہیں ہورہا۔ سب سے خستہ وخراب حال بوسن روڈ کا ہے۔ عرصہ تین سال سے زیرتعمیر یہ سڑک ملتان کی مصروف ترین سڑکوں میں سے ایک ہے اور ملتان کے تقریباً نصف سے زائد تعلیمی ادارے اسی ایک سڑک پر واقع ہیں۔ تین سال سے یہ سڑک نہ صرف یہ کہ نامکمل ہے بلکہ اس سات آٹھ کلومیٹر طویل روڈ کا ابھی پہلا حصہ جو تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر پر مشتمل ہے نامکمل پڑا ہوا ہے ۔ جہاں جہاں سروس روڈ کے نشانات ہیں وہاں پر دکانداروں نے اپنا فالتو سامان سجارکھا ہے۔ کھوکھے والوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں اور ہوٹلوں نے اپنی کرسیاں سجالی ہیں۔ پہلے ذلیل وخوار کرنے میں مرکزی حکومت نے اپنا حصہ ڈالا تھا‘ اب صوبائی حکومت کے محکموں نے اپنی آنکھیں بند کرکے شہروالوں کی مشکلات دوگنی کردی ہیں۔ جس کا جہاں دل چاہتا ہے دکان کھول رہا ہے اور جس کے جی میں آتا ہے چارپیسے دے کر اپنی جگہ کمرشل کرواتا ہے اور پلازہ کھڑا کردیتا ہے۔ نہ کوئی منصوبہ بندی ہے اور نہ ہی کوئی قاعدہ ضابطہ ہے جس پر کوئی عمل کروائے۔ ٹائون پلاننگ والے اپنی جیب گرم کررہے ہیں اور عوام کی مشکلات میں اضافوں کا باعث بن رہے ہیں۔ تین سال سے یہ فیصلہ نہیں ہورہا کہ اس سڑک پر دوفلائی اوور بنیں گے یا تین ۔ لہٰذا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک بھی فلائی شروع نہیں ہوا۔ اگر یہ کام اب نہ ہوا تو سڑک کی تکمیل کے بعد فلائی اوور کی تعمیر کا آغاز نہ صرف نئے سرے سے مشکلات کا باعث بنے گا بلکہ تعمیراتی اخراجات میں بھی اضافہ ہوگا۔ بدقسمتی سے میں دنیا کے کچھ دیگر ممالک بھی دیکھ چکا ہوں اور وہاں کی ٹائون پلاننگ بھی ملاحظہ کرچکا ہوں۔ امریکہ اور برطانیہ وغیرہ میں کمرشل علاقے مخصوص ہیں۔ رہائشی علاقوں میں دکانوں کا کوئی تصور نہیں، رہائشی علاقے صرف رہائشی علاقے ہیں‘ لوگوں کے سکون کی خاطر دکانوں کو رہائشی علاقوں میں کھولنے کی ممانعت ہے۔ رہائشی علاقوں میں بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے والا کوئی ایک آدھ ’’گروسری سٹور‘‘ ہوتا ہے اور اس کے لیے بھی رہائشیوں کی اجازت لازمی ہوتی ہے۔ اگر رہائشی لوگ اعتراض کریں تو وہاں کوئی سٹور یا دکان نہیں کھل سکتی۔ سٹی سنٹرز یا ٹائون کا دفتر صبح نو بجے کھلتے ہیں اور پانچ بجے بند ہوجاتے ہیں۔ ضروریات زندگی کے منظور شدہ سٹور ہی رات گئے دیر تک کھل سکتے ہیں۔ کسی دکاندار کی مرضی نہیں کہ وہ جب چاہے دکان کھول لے اور جب چاہے بند کردے۔ برطانیہ میں ہمارے ایک دوست کی دکان صبح والے ملازم نے دودن تاخیر سے کھولی۔ تیسرے دن ٹائون کونسل سے نوٹس آگیا کہ آپ کو وارننگ دی جاتی ہے کہ آپ دکان وقت مقررہ پر کھولیں۔ ٹائون کونسل کی الاٹ کردہ دکان کو تاخیر سے کھولنے کے باعث گاہک کو واپس لوٹنا پڑتا ہے اور یہ اس کے بنیادی حقوق کو مجروح کرنے کے مترادف ہے‘ لہٰذا آپ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ آپ اوقات کار کی پابندی کریں‘ بصورت دیگر ٹائون کونسل آپ کی دکان کی الاٹمنٹ منسوخ کردے گی۔ یہاں عالم یہ ہے کہ بارہ بارہ بجے دن تک دوکانیں کھولنے کا رواج ہوگیا ہے اور کسی دکان کے لیے نہ کوئی ضابطہ اخلاق ہے اور نہ اوقات کار۔ 1968ء میں گلگشت کالونی کبھی ایک خوبصورت رہائشی کالونی ہوتی تھی اور اس کے اے، بی اور سی تین بلاک تھے۔ اے بلاک میں بڑی بڑی کوٹھیاں تھیں۔ بی بلاک نسبتاً چھوٹے مکان تھے اور سی سب سے چھوٹے گھروں پر مشتمل بلاک تھا۔ ارشاد بی بلاک میں رہتا تھا۔ انور ککی مرحوم سی بلاک میں رہتا تھا۔ اس کے گھر کے باہر شہتوت کا درخت تھا جسے ان تمام بھائیوں نے مل کر محنت کرکے چھتری کی شکل کا بنایا ہوا تھا۔ صرف ایک گردیزی مارکیٹ آباد تھی۔ گول باغ میں چند دکانیں آباد تھیں اور مبین مارکیٹ بیس پچیس فیصد آباد ہوتی تھی۔ جب میرا 1968ء میں گلگشت ہائی سکول میں داخلہ ہوا تب گرائونڈ میں پہاڑی کوے جنہیں ہم پنجابی میں ’’ڈھوڈرکاں‘‘ کہتے تھے سینکڑوں کی تعداد میں نظر آتے تھے۔ گلگشت کالونی ایک آئیڈیل رہائشی کالونی تھی۔ چونگی نمبر 6پر اللہ دتہ ٹی سٹال ہوتا تھا اور بس۔ آج گلگشت کالونی میں رہائشی گھر اقلیت میں ہیں۔ ساٹھ فیصد کالونی دکانوں اور پلازوں میں تبدیل ہوگئی ہے۔ کچھ لوگ اپنا پانچ پانچ مرلے کا گھر ڈیڑھ دوکروڑ روپے کے عوض بیچ گئے ہیں اور باقی لوگ تنگ آکر وہاں سے کوچ کرگئے ہیں۔ تقریباً ہرسڑک مارکیٹ بن گئی ہے۔ جس کا دل چاہتا ہے مکان کے سامنے شٹرلگاتا ہے اور اپنے ایک کمرے کو دکان میں تبدیل کردیتا ہے۔ کوئی جگہ شریف لوگوں کے رہنے کے قابل نہیں رہ گئی۔ گلگشت کالونی کی سڑکوں سے گزرنا اب امرمحال بن گیا ہے جہاں دکان بن سکتی تھی دکان بن گئی ہے اور جہاں پلازہ بن سکتا تھا وہاں پلازہ بن گیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے ایک رہنما نے (جواب بھی مسلم لیگ ن میں ہے) کمیونٹی سنٹر کی جگہ الاٹ کروائی‘ دکانیں بنائیں‘ بیچیں، نوٹ کھرے کیے اور اللہ اللہ خیر صلا۔ بوسن روڈ کے کنارے پلازے دھڑادھڑ بن رہے ہیں۔ سروس روڈ تنگ ہیں۔ پارکنگ کی جگہ میسر نہیں مگر سب کچھ دھڑلے سے ہورہا ہے۔ ایک عذاب ناک زندگی کی شروعات ہیں مگر ٹائون پلاننگ والے جیبیں گرم کررہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے لیے غالباً لاہور ہی سب کچھ ہے۔ کالم ختم کرنے کے قریب تھا کہ ایک دوست کافون آیا کہ غضنفر ہاشمی نے گزشتہ کالم میں آپ کے بارے میں کیا لکھا ہے؟ حقیقت کیا ہے؟ میں نے کہا‘ اس نے جوکچھ لکھا ہے کالم کا پیٹ بھرنے کے لیے لکھا ہے۔ میری اس سے فون پر کوئی بات نہیں ہوئی اور اس موضوع پر تو کبھی بھی کوئی بات نہیں ہوئی۔ دوست کہنے لگا آپ جوابی کالم لکھیں۔ میں نے کہا دوستوں کو جھوٹ بولتے شرم آنی چاہیے۔ اگر انہیں نہیں آتی تو دوسرے کو ان کی شرم رکھنی چاہیے۔ میں دوسرا کام کررہا ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved