تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     11-11-2021

طفیل محمد کا دُکھ

میں طفیل کے پاس گرمیوں کے کچھ کپڑے لینے آیا تھا۔ طفیل کی ساری عمر کپڑے کے تھان کھولتے اور لپیٹتے گزری تھی لیکن بیٹے اس کام کو پسند نہیں کرتے۔ شاید اس پیشے کی یہ آخری نسل تھی۔ اس دن تھان کھولنے کے ساتھ ساتھ اس نے اپنا دکھڑا بھی کھول دیا۔ دسمبر میں طفیل کی بڑی بیٹی کی شادی ہے۔ وہ فکر میں ہے کہ مقررہ تاریخوں پر کوئی اچھا شادی ہال یا مارکی مناسب علاقے میں مل جائے جہاں برات اور برادری کے ساڑھے چار سو افراد سما سکیں، کھانا اچھا بھی ہو اور کم بھی نہ پڑے۔ بچوں کی پسند ایک مارکی کی طرف ہے‘ لیکن وہ طفیل کے بس سے باہر ہے۔ ون ڈش مینو بھی اس کے استطاعت سے باہر ہے۔
میں نے کہا ''طفیل دو باتیں ایسی ہیں جن پر لاہور میں عمل ہونا ناممکنات میں سے تھا لیکن وہ ہوگئیں۔ صرف ہو نہیں گئیں۔ انہیں ہوئے کئی سال ہوگئے۔ ایک پتنگ بازی کا خاتمہ اور دوسرا شادی بیاہ کی تقریبات کا دس بجے رات اختتام اور سادہ کھانا۔ نمودونمائش سے ہٹ کر ون ڈش مینو‘‘۔ وہ تھان لپیٹتا اور خاموشی سے سنتا رہا۔ میری بات ختم ہوئی تو ایک ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا ''2000 روپے فی کس‘‘۔ میں نے کہا:2000 روپے فی کس؟ وہ دبی دبی آواز میں بولا ''جی، بکرے کے گوشت کے سالن کے ساتھ۔ مرغ قورمہ رکھوں تو 1550 روپے فی کس۔ بچے چاہتے ہیں کہ بارات اور برادری کا معاملہ ہے‘ بکرے کے گوشت کی ایک ڈش تو ہو‘‘۔
میں نے کہا ''تو تم کھانا الگ جگہ سے بنوا لو اور ہال کا خرچہ ہال والے کو دے دو۔ خرچ کم ہوجائے گا‘‘۔ کہنے لگا ''مارکی والا نہیں مانتا‘ وہ کہتا ہے کیٹرنگ بھی میں ہی کروں گا ورنہ کہیں اور بکنگ کروالو۔ ساڑھے چار سو افراد کیلئے نو لاکھ روپے چاہئیں۔ پھولوں کی سیج اور سٹیج کا خرچ نوے ہزار روپے علیحدہ ہے۔ میں نے اور میری بیوی نے بڑی مشکل سے عزت والا جہیز بنایا ہے اور مجھے چھوٹی بیٹی کی شادی بھی ابھی کرنی ہے۔ میں اتنے پیسے کہاں سے لاؤں‘‘۔ وہ حق پر تھا۔ حقدار کو اس کا حق دینا چاہیے اور کم ازکم حق یہ ہے کہ اس کی بات کی تائید کی جائے۔ میں نے اس کی تائید کی، خاموشی سے کپڑے اٹھائے اور گھر آگیا۔
میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ کیا کوئی دروازہ ہے؟ جناب وزیر اعلیٰ تک اگر یہ بات پہنچ سکتی ہے یا متعلقہ محکمے کے سربراہ اگر یہ لفظ پڑھ رہے ہیں تو ان محمد طفیلوں، ان اسلموں اور ان رفیقوں کی مدد کردیں۔ ان کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا اور خلق کی جو دعائیں وہ سمیٹیں گے وہ الگ۔ لاہور میں کبھی سوچا بھی نہیں جاسکتا تھاکہ پتنگ بازی کا مکمل خاتمہ ہوسکتا ہے‘ اور شادیاں نسبتاً سادہ طعام کے ساتھ رات دس بجے تک نمٹ سکتی ہیں۔ میاں شہباز شریف کو بہرحال اس کا اعزاز دیا جانا چاہیے کہ یہ دونوں ناممکن کام ان کے عزم سے ممکن ہوسکے۔ یہ کام بتاتے ہیں کہ اگر حکمران کوئی کام کرنا چاہیں تو مشکل ترین کام بھی کیے جا سکتے ہیں۔ یہی دلیل اس بات کے حق میں بھی جاتی ہے کہ جو کام نہیں ہوسکے وہ ارادہ نہ ہونے کے سبب نہیں ہوسکے ورنہ یہ کیسے ممکن تھاکہ یہ کام نہ ہوسکتے۔
جب یہ فیصلہ کیا گیا تھاکہ ون ڈش مینو پر عمل کروایا جائے گا‘ اور رات دس بجے تقریبات ختم ہوجایا کریں گی تواس کا بنیادی مقصد لوگوں کو سادگی کی طرف مائل کرنا اور شادی بیاہ کی تقریبات کم خرچ رکھنے والے شخص کیلئے آسان بنانا تھا۔ کوئی شک نہیں کہ بہت سی قباحتوں کے باوجود اور رشوت خوری کا ایک نیا راستہ نکل آنے کے باوجود امیر اور غریب سب کو کم و بیش ایک ہی سادہ طعام کی طرف آنا پڑا‘ جس میں گنجائشیں بہت زیادہ نہیں تھیں۔ اسی طرح رات دس بجے کی پابندی سے باراتیں اور مہمان وقت پر پہنچنے کے پابند ہوگئے اور تقریب کے جلد ختم ہوجانے سے وقت کا اسراف بھی کم ہوگیا۔
لیکن اس سادہ کھانے یا ون ڈش مینو کا اصل فائدہ عوام سے زیادہ مارکیز اور شادی ہالوں کا کاروبار کرنے والوں نے اٹھایا۔ اس قانون کے اطلاق کے بعد ان کے وقت اور ذمے داری کے دورانیے میں خاطر خواہ کمی ہوگئی اور دیگر اخراجات مثلاً بجلی اور ایئرکنڈیشنرز وغیرہ کے خرچ بھی کم ہو گئے۔ کھانے میں اپنا بھرپور بلکہ ناجائز منافع بدستور شامل کرنے کیلئے زیادہ تر بڑے شادی ہالوں نے یہ توڑ کیا کہ باہر سے کیٹرنگ ممنوع قرار دے دی اور یہ طے کردیا کہ کھانا اور ہال کا اکٹھا نرخ ہوگا، علیحدہ علیحدہ نہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ ون ڈش مینو کے نرخ اتنے ہوشربا رکھ دئیے گئے کہ زیادہ کھانوں والے مینو کے بھی اتنے نہیں ہوں گے۔
میں نے کئی بار سمجھنے کی کوشش کی کہ کراچی‘ جہاں ون ڈش کی پابندی نہیں ہے اور وقت کا دورانیہ بھی زیادہ ہے‘ شادی کے کھانوں اور شادی ہالوں کے خرچ لاہور سے بدرجہا کم کیوں ہیں؟ دونوں شہروں کے درمیان خوش خوراکی اور کھانے کے ضیاع کی گنجائشیں شامل کرکے بھی نرخ اور دیگر اخراجات میں نمایاں فرق تھا اور سچ یہ ہے کہ یہ فرق صرف ناجائز منافع کا ہے۔
ذرا آپ تصور کیجیے کہ کراچی اور لاہور کے نرخوں میں 700 روپے فی کس تک کا فرق ہے جبکہ کراچی کے نرخ میں منافع بھی شامل ہے۔ یہ 700 روپے کا فرق اس کے علاوہ ہے۔ یہ اضافی کمائی ہے۔ ساڑھے چار سو مہمانوں پر صرف یہ اضافی منافع تین لاکھ پندرہ ہزار روپے بنتا ہے۔ اگر مہینے میں اوسطاً بیس ایسی تقریبات بھی ہوں تو تریسٹھ لاکھ روپے اضافی منافع۔ تقریبات تقریباً ہر روز اور بعض اوقات دوپہر اور شام دونوں وقت ہوتی ہیں۔ بکنگ اتنی زیادہ ہے کہ ایک ایک سال پہلے تاریخ لینا پڑتی ہے اور بنیادی تقریب صرف تین سے چار گھنٹے۔ کیا یہ پیسے وصول کرتے وقت کبھی کسی کو یہ خیال آتا ہے کہ ان چند گھنٹوں کیلئے طفیل محمد نے ساری زندگی عمر بامشقت کاٹی تھی۔
ہمارے ہاں ہر شعبے میں دردِ دل رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ شادی ہالوں، مارکیز اور کیٹرنگ کے مالکان میں کچھ بااثر صاحبِ دل تو یقینا ایسے ہوں گے جو اِدھر توجہ کرکے اپنے ہم پیشہ ساتھیوں سے ایک اخلاقی ضابطہ منظور کروا سکتے ہوں گے۔ ایسا ضابطہ جس میں ان کا جائز منافع باقی رہے مگر عوام پر غیرضروری بوجھ نہ پڑے۔ متعلقہ حکومتی اداروں میں کچھ بااختیار لوگ تو یقینا ایسے ہوں گے جو اس بے مہار منافع کو کنٹرول کرنے کی تجاویز دے سکیں۔ میرے خیال میں تین تجاویز ایسی ہیں کہ ان پر عملدرآمد سے مسئلہ کافی کم ہو سکتا ہے۔ (1) ہال اور کیٹرنگ کے اخراجات الگ الگ ہوں اور ہر ہال یا مارکی والے کو پابند کیا جائے کہ وہ باہر سے کیٹرنگ کی اجازت دے۔ (2) شادی ہال اور مارکی کے معیار، علاقے اور آرائش کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت ان کے نرخ کی زیادہ سے زیادہ حدود مقرر کردے۔ (3) ون ڈش مینو کی مختلف اقسام کے زیادہ سے زیادہ کیٹرنگ نرخ مقرر کردیے جائیں۔ مسئلے کا حل نکالنا ہو توحل ضرور نکل آتا ہے۔ آخر ناممکن کو ممکن بھی تو آپ ہی نے کیا ہے۔
ہم وہ معاشرہ ہیں جو مل جل کر محلے کی شادیاں نمٹاتا اور بیٹیوں کو سانجھا خیال کرتا ہے۔ کیا ہم مل کر طفیل محمد کی بیٹیاں عزت سے نہیں بیاہ سکتے؟ ادھر دیکھئے طفیل محمد عمر بامشقت کاٹ کر آیا ہے‘ اور بیٹیوں کو عزت سے شادی ہال کے دروازے تک لانا چاہتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved