تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     11-11-2021

بند لفافے میں کیا ہے!

سیاسی اور عسکری قیادت پر مشتمل مقتدرہ کے اتفاقِ رائے سے تحریک لبیک اور حکومتِ پاکستان کے درمیان جو معاہدہ ہوا‘ اس پر پوری قوم نے سکھ کا سانس لیا۔ سب کی نبضیں رکی ہوئی تھیںکہ خدا نخواستہ کوئی انہونی نہ ہو جائے۔ اللہ نے کرم فرمایا اور کوئی انہونی اور ''ناشُدنی‘‘ نہیں ہوئی لیکن میڈیا پر لبرل عناصر نے شدّومدّ کے ساتھ اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ شاید ان کی خواہش یہ تھی کہ کارکنانِ تحریک لبیک پر گولی چلا دی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ہے کہ وہ اپنی ان خواہشات میں ناکام رہے اور معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو گیا۔ اب لے دے کے یہ سوال ان کو پریشان کیے جا رہا ہے: معاہدے کے ''بند لفافے میں کیا ہے‘‘، ان کی خدمت میں گزارش ہے: ''بند لفافے میں پاکستان کے لیے امن ہے، سلامتی ہے، خیر ہے، صلاح ہے اور فلاح ہے، اس میں جو کچھ بھی ہے وہ آئین و قانون کے دائرے میں ہے‘‘۔ ہم نے کہا تھا: ''جو طے پایا ہے، وہ آپ کو عملی شکل میں نظر آئے گا اور الحمدللہ! نظر آ رہا ہے‘‘، یہ اُن کے لیے مزید پریشانی کا باعث ہے، اس کے جتنے بھی پرت کھولیں گے، اس سے آپ کے مقاصد پورے نہیں ہوں گے۔
حیرت ہے کہ اس بات کو پاکستانی تاریخ کا عجوبہ قرار دیا جا رہا ہے کہ معاہدہ خفیہ کیوں رکھا گیا ہے۔ پس ہمارا سوال ہے: ''نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے ملک کی بَرّی و بحری حدود، فضائی اڈوں اور راہداری سمیت بہت کچھ امریکا کے حوالے کر دیا تھا، کیا کوئی تحریری دستاویز آج تک قوم کے سامنے پیش کی گئی ہے کہ اس کی شرائط کیا تھیں اور اس ڈیل میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اُس پر ہمارا میڈیا شور و غوغا کیوں نہیں کرتا؟ بلیک واٹر کے خونی درندوں کو مسلّمہ عالمی سفارتی روایات کے برعکس دبئی میں سینکڑوں ویزے جاری کیے گئے، اس کا معاہدہ یا اُن جاری کردہ ویزوں کی تعداد یا اُن ایجنٹوں کی واپسی کا ریکارڈ آج بھی کوئی ہمیں بتا دے، لیکن ''ہرچہ از امریکا آمد نکوست‘‘، یعنی امریکی غلامی کی ہر ادا اور ہر عمل ہمارے لبرلز کو محبوب ہے اور اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ اسی طرح نائن الیون کے بعد نادیدہ معاہدے کے تحت جن لوگوں کو بیچ کر ڈالر کمائے گئے، کوئی آج بھی ہمیں اُن کے نام،تعداد اور وصول کردہ رقم کا میزان اور مَصرف بتا دے، الغرض میڈیا پر لبرل عناصر کی ''اصول پسندی‘‘ کی حقیقت ہم پر خوب عیاں ہے۔ پاکستان کی پوری تاریخ ہمیں الحمدللہ! ازبر ہے، یہ تیر صرف دینی طبقات پر برسانے کے لیے ہیں۔ کسی نے کہا ہے:
آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
2014ء کے حکومت مخالف دھرنوں میں پولیس افسران وردی اتار کر یا تلاشی دے کر وہاں سے گزرتے تھے۔ معروف تجزیہ کار عارف حمید بھٹی ایک چینل پر بتا رہے تھے کہ اُن دھرنوں میں بھی چار پولیس والے مارے گئے تھے۔ ایس ایس پی کو پکڑ کر مارا تھا، اسی طرح ملتان میں پی ٹی آئی کے جلسے میں کئی افراد جان سے گئے تھے، انسانیت کا کوئی ''ہمدرد‘‘ اُن کا مرثیہ پڑھنے کے لیے آج بھی تیار نہیں ہے۔ اسی طرح ساہیوال میں برسرِ عام بچوں کے سامنے ان کے باپ کو مارا گیا، کیا آج تک اُن کو انصاف ملا، اب کوئی ان کے پسماندگان کو یاد کر رہا ہے۔
ایک غلط تعبیر یہ کی جا رہی ہے کہ کسی ملک کے سفیر کو واپس بھیجنا سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے مترادف ہے۔ یہ وزرا اور میڈیا والوں کا مغالطہ ہے۔ آج بھی صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان نے بھارت سے اور بھارت نے پاکستان سے اپنے سفیر کو واپس بلایا ہوا ہے، لیکن سفارتی تعلقات بدستور قائم ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں تین جنگیں ہوئیں، لیکن سفارتی تعلقات قائم رہے؛ الغرض دوسرے ملک کے سفیر کو واپس بھیجنا یا اپنے سفیر کو دوسرے ملک سے واپس بلانا یہ ناراضی کا علامتی اظہار ہوتا ہے۔ امریکا نے جب اوکس معاہدہ کیا تو فرانس نے نیٹو اتحادی ہونے کے باوجود امریکا سے اپنا سفیر وقتی طور پر واپس بلایا، یہ بھی امریکہ سے ناراضی کا علامتی اظہار تھا۔ الغرض کسی ملک کے سفیر کی ملک بدری کا مطالبہ ایسا ''سیاسی کفر‘‘ نہیں ہے جو پاکستان میں پہلی بار ہوا ہو‘ ماضی میں بھی ایسے مطالبات ہوتے رہے ہیں، بلکہ دیواروں پر بھی نقش ہوتے رہے ہیں، لیکن کسی نے اس کی ایسی تعبیر نہیں کی جو آج تحریک لبیک کے مطالبے کے حوالے سے کی جا رہی ہے۔ امریکا اور روس ایک دوسرے کے سفارت کاروں کو ناپسندیدہ قرار دے کر ملک بدر کرتے رہے ہیں، لیکن سفارتی تعلقات بدستور قائم رہے۔
بعض کرم فرما تحریکِ لبیک کے ساتھ حکومتی معاہدے کو ناکام بنانے کی ارادی کوشش کے لیے دودھاری خنجر استعمال کر رہے ہیں۔ ایک طرف یہ کہتے ہیں: ''حکومت کی رِٹ ختم ہو گئی،حکومت کو ہزیمت ہو گئی، حکومت نے کمزور پوزیشن کے ساتھ معاہدہ کیا، وغیرہ‘‘، یہ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ حکومت کوجذبات میں لاکر معاہدہ شکنی پر مجبور کیا جائے اور دوسری طرف جب میں نے یہ کہا: ''شیخ رشید فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے غلط بیانی کر رہے ہیں‘‘، تو اسے اس طرح تعبیر کیا گیا کہ گویا تحریک لبیک اپنے بنیادی مطالبے سے دستبردار ہو گئی ہے۔ یہ حربہ دراصل تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں کو مشتعل کرنے اورچڑانے کے لیے تھا تاکہ وہ اپنی قیادت سے بدگمان ہوں، الحمدللہ! یہ حربہ بھی ناکام ہوا۔
فارسی کا مقولہ ہے: (ترجمہ) ''یہ وہ گناہ ہے جو آپ کے ہاں بھی سرزد ہوتا رہتا ہے‘‘، خود حکومت تحریک لبیک سے ماضی میں یہ معاہدہ کر چکی ہے، تو سوال یہ ہے کہ اُس وقت اس سے حکومت کی مراد کیا تھی؟ اس نے جو معاہدہ کیا تھا، وہ ہوش کے عالَم میں تھا یاعالَمِ مدہوشی میں، پس ان کے درمیان جو آخری معاہدہ طے پایا تھا، اس میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے معاملے کو پارلیمنٹ میں پیش کرنا تھا، کیا یہ آئینی و قانونی طریقۂ کار نہیں ہے؟ پارلیمنٹ کا فیصلہ مثبت بھی آ سکتا تھا اور منفی بھی، لیکن طریقۂ کار کے مطابق اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
ہماری تمنا ہے کہ کسی بھی صورتِ حال میں ملک میں کسی کا ناحق خون نہ بہے، خواہ وہ سرکاری منصب دار ہو،کسی جماعت کا کارکن ہو یا غیر مسلم ہو، لیکن قوموں کی تاریخ میں ناخوشگوار واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ پولیس کے شہدا کے خاندانوں سے ہمیں بھی ہمدردی ہے، حکومت یقینا زرِ اعانت بھی دے گی اور ان کی کفالت بھی کرے گی۔ اب پولیس کے شہدا کے خاندانوں کے احوال تو بتائے جا رہے ہیں، لیکن تحریک کے درجنوں شہدا کا نام بھی نہیں لیا جا رہا۔ کسی ریلی یا جلوس کو روکنے کے لیے یا امن و امان قائم کرنے کے لیے سلامتی کے اداروں کو اگر ناگزیر طور پر بھی گولی چلانا پڑے، تو مسلّمہ روایت ہے کہ ہوائی فائر کیا جاتا ہے یا جسم کے نچلے حصے کو نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ لوگ رک جائیں اور ان کی جان بھی سلامت رہے، جسم کے بالائی حصے پرگولی نہیں داغی جاتی کہ جان چلی جائے، لیکن درجنوں شہدا کو سینے پر گولی مار کر شہید کیا گیا ہے۔ کیا کبھی یہ معاملہ قوم کے سامنے پیش کیا گیا ہے؟ پس رویہ منصفانہ ہونا چاہیے۔ احترام کے ساتھ عرض ہے: آپ لبرل جب ''سُرخے‘‘ ہوا کرتے تھے، تو آپ کا نعرہ یہ ہوتا تھا: ''لہو کا رنگ سرخ ہے، لہو کا رنگ ایک ہے‘‘، لیکن اب تحریک لبیک کے شہدا کے لہو کا رنگ شاید آپ کی نظر میں دوسروں سے مختلف ہے۔
ایک سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ پولیس کے مقتولین کے مجرموں کا حساب کون لے گا۔ اچھا ہے، سب کا حساب صاف شفاف طریقے سے ہو جائے۔ تحریک لبیک کے جن کارکنوں کے سینوں پر براہِ راست فائر کر کے شہید کیا گیا ہے، وہ گولیاں کہاں سے چلیں، کس نے چلائیں اور کس کے حکم سے چلیں؟ نیز احتجاجی مظاہرین پر یوں گولی داغنا‘ یہ آئین و قانون میں کہاں لکھا ہے، اس کا بھی فیصلہ ہو جائے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ پولیس کو قتل کرنے والے یا ظلم کرنے والے کون تھے، یہ منصوبہ بندی کے ساتھ ریلی میںشامل کیے گئے ''گھس بیٹھیے‘‘ تھے یا تحریک کے کارکن تھے، تاحال کوئی غیر جانبدارانہ تحقیق سامنے نہیں آئی۔
ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ قاتلوں کو معاف کیوں کر دیاگیا؟ اس سلسلے میں رحمۃ للعالمین سیدنا محمد رسول اللہﷺ کا اُسوہ و قُدوہ ہمارے سامنے ہے۔ غزوۂ اُحد میں آپﷺ کے محبوب چچا سید الشہدا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قاتل وحشی تو معلوم تھا، حضرت خالد بن ولید اُس دستے میں تھے، جس نے ''وادی عینین‘‘ پر فائز پچاس کے لگ بھگ حفاظتی دستے کو اچانک حملہ کر کے شہید کر دیا تھا، لیکن رسول اللہﷺ نے اسلام قبول کرنے پر سب کو معاف فرمایا اور انھیں صحابیت کے شرف سے مشرف ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہﷺ نے فتحِ مکہ کے موقع پر قصاص اور انتقام پر قدرت کے باوجود عام معافی کا اعلان فرمایا تھا۔ یہ انسانیت کی پوری تاریخ میں آپ کے امتیازات میں سے ہے۔ یہاں تو ''سقوطِ مشرقی پاکستان‘‘ کے ذمے داروں کا نہ احتساب ہوا، نہ اُن کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اور نہ ہمارے ان کرم فرمائوں کے پیٹ میں اس کے لیے مروڑ اٹھتے ہیں، یہ صرف اور صرف مذہبی سیاسی تنظیم کے کارکنوں کو نشانِ عبرت بنتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی غالب تقدیر سے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور ملک ایک تباہ کن صورتِ حال سے دوچار ہونے سے بچ گیااور اب ٹی ٹی پی کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی اور معاہدے کے بعد یہ تبصرے خود دم توڑ جائیں گے۔ (جاری )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved