تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     11-11-2021

کمپنی کیسے چلے گی ؟

قومی اسمبلی میں حکومت کے پیش کیے گئے دو بل کثرتِ رائے سے مسترد کر دیے گئے، گو کہ یہ کوئی انہونی یا ملکی تاریخ میں حکومتی شکست کا کوئی منفرد واقعہ نہیں لیکن پھر بھی یہ اشارے بتا رہے ہیں کہ اگر اپوزیشن نے عدم اعتماد کا فیصلہ کر لیا تو پی ٹی آئی حکومت کیلئے بہت سی مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔ حکومت کو ایک بڑا امتحان پنجاب میں درپیش ہے جہاں بزدار حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی یقینی کامیابی کے بعد پیپلز پارٹی اپنے ''ممکنہ اتحادیوں‘‘ کے سر پر وزارتِ اعلیٰ کا تاج دیکھنا چاہتی ہے جبکہ لندن اور جاتی امرا کویہ منظور نہیں۔ ذرائع کے مطابق‘ میاں شہباز شریف کے اس حوالے سے کچھ تحفظات ہیں۔ مسلم لیگ نواز کی خواہش ہے کہ اگر پنجاب میں بزدار حکومت رخصت ہوتی ہے تو وہ پنجاب کی زمامِ کار خود تھامے۔ البتہ ایک بات نوشتۂ دیوار ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز اگر چاہیں تو حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی یقینی کامیابی ان کے قدموں میں پڑی ہے، اس کیلئے انہیں جس قدر اور جہاں سے بھی مدد کی ضرورت ہو گی‘ وہ بے دریغ انہیں مہیا کی جا سکتی ہے۔ صورتِ حال یہ ہو چکی ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کی ایک بڑی تعداد نواز لیگ کے سینئر اراکین اسمبلی اور لیڈران سے رابطے کر رہی ہے، ان سب کی ایک ہی شرط ہے کہ اگلے انتخابات میں نون لیگ کا ٹکٹ انہیں دیا جائے‘ اس یقین دہانی پر وہ پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک بنانے کیلئے بھی تیار ہیں۔ یہ سمجھ لیجئے کہ جیسے ہی طبلِ جنگ بجا‘ وہ بھاگم دوڑدیکھنے میں آئے گی کہ لگے گا کہ کوئی منڈی لگی ہوئی ہے۔
اس وقت پٹرول، بجلی، چینی سمیت اشیائے صرف کی قیمتوں میں ناقابل یقین اضافے کی وجہ سے پی ٹی آئی بالخصوص وزیراعظم عمران خان کے ساتھ نہ تو عوامی قوت ہے اور نہ ہی پنجاب کی انتظامیہ، کیونکہ اپنے پائوں پر خود کلہاڑی مار کر پنجاب کا مورچہ خالی چھوڑ دیا گیا تھا اور اس ضد کی وجہ سے اب عوام سمیت پنجاب سے پی ٹی آئی کو کارکنوں، ہمدردوں اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی دلی ہمدر دیاں بھی میسر نہیں ہیں۔ تاریخ کا سفر کریں تو علم ہوتا ہے کہ جنرل ایوب خان کے زمانے میں چینی‘ جو ایک روپیہ فی کلو تھی‘ چار آنے مہنگی ہوئی تو حکومت کے خلاف ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ آج چینی 140 سے160 روپے فی کلو تک بک رہی ہے‘ حکومت تو رہی ایک طرف‘ اپوزیشن بھی اس صورتحال میں صرف ڈرامے کرکے دکھا رہی ہے۔ یہ کیسی حکومت ہے کہ جسے شوگر ملوں کے کرشنگ سیزن پر بھی کنٹرول نہیں، جس کے ادارے اسے یہ ہی نہیں بتا سکتے کہ ان کے خلاف چینی سمیت اشیائے ضروریہ کی قلت کے حوالے سے صف بندی کی جا رہی ہے اور اس میں فلاں فلاں لوگ ملوث ہیں۔پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے‘ جب بھی کسی حکومت کو رخصت کرنا ہوتا ہے تو عوام کو اکسانے کیلئے اشیائے ضروریہ مثلاً چینی، آٹا، گھی کی قلت یا بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سہارا لیا جاتا ہے۔کارٹلز کو ملنے والے ریلیف کو دیکھ کر سیاسی تاریخ کے ماہرین متنبہ کر رہے ہیں کہ کھیل کے آغاز کی گھنٹی بج چکی ہے۔ دوسری جانب حکومت کی طرف سے اپنے پائوں پر خود کلہاڑی مارنے کا سلسلہ بھی تھما نہیں۔ فیاض الحسن چوہان جیسے مردِقلندر کے ساتھ ٹام اینڈ جیری والا کھیل رچا یا جا رہا ہے۔ ہر وہ آواز نجانے کس نے دبا دی گئی جس سے حکومت اور وزیراعظم کا دفاع کیا جاتا تھا۔ ایسے میں شہباز گل کا وجود غنیمت ہے جو کشتیاں جلا کر کام کی بات کر جاتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کو جب عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کا یقین ہے تو پھر یہ پیش کیوں نہیںکی جا رہی؟ اس حوالے سے بھی راز کی سن لیں کہ کوئی بھی ان حالات میں کانٹوں کی یہ مالا اپنے گلے میں ڈالنے کو تیار نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ابھی مہنگائی بڑھے گی‘ پٹرول کسی بھی طور سستا نہیں ہو گا، بلکہ مسلم لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی تو کئی بار اس بات پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کیوں نہیں لگا رہی۔اپوزیشن کو معلوم ہے کہ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جب یہ حکومت سنبھالیں گے تو ان سے مہنگائی کم نہیں ہو گی بلکہ الٹا ان کی ساکھ خراب ہو گی، ممکن ہے کہ انہیں پٹرول سمیت مختلف اشیا پر ٹیکس بڑھانے پڑیں‘ اس سے عمران خان پھر سے عوامی ہمدردیاںسمیٹ سکتے ہیں‘ اسی لئے‘ ذرائع کے مطابق‘ شہباز شریف سے آصف علی زرداری تک‘ سب نے حکومت میں آنے کی خواہش کے سامنے اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں بلکہ لندن سے میاں نواز شریف نے بھی عدم اعتماد کی صورت میں نئی حکومت بنانے کیلئے اپنے منظور کردہ چہرے کی قربانی دینے سے معذرت کر لی ہے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پربیٹھنا آگ کے دریا میں کودنے کے برا بر ہے۔ اس لئے لگتا ہے کہ بد ترین مہنگائی اور ڈالر کی بے قابو قیمت کے باوجود مجبوراً یہی کمپنی چلے گی کیونکہ جلتے تنور میں کوئی بھی ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں ہو رہا۔
بعض ذرائع کے مطابق اس وقت قومی حکومت بنانے کی تجویز بھی زیر غور ہے، اس کیلئے تحریک انصاف کے کے پی سے ایک دھڑے اور کچھ اپوزیشن اراکین پر مبنی گروپ کو کاروبارِ حکومت چلا نے کے چند ماہ دیے جائیں گے‘ جس کے بعد عام انتخابات کرا دیے جائیں گے، لیکن اس کی راہ میں بھی کچھ مشکل مراحل ہیں۔ اس وقت امریکا اور چین کی سرد جنگ کا میدان تیار ہے اور سب سمجھتے ہیں کہ پاکستان ایک بار پھر اس سرد جنگ میں‘ ماضی کی افغان جنگ کی طرح‘ انتہائی اہم ہے۔ امریکا نے اس وقت بھارت پراپنی عنایات کی بارش کر رکھی ہے مگر جب اس نے بھارت کو سائوتھ چائناسمندر میں آگے بڑھنے کا کہا تو بھارت نے یہ دہائی دینا شروع کر دی کہ ایسی صورت میں پاکستان کشمیر‘ سیا چن‘ سر کریک اور خالصتان کیلئے یلغار کر دے گا۔ اب تک اسی خوف کو وہ اپنے دفاع میں استعمال کرتے ہوئے چین کے خلاف عملی قدم نہ اٹھانے کی پالیسی اپنا کر امریکی ناراضی اور غصے کوکم کئے ہوئے ہے۔ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی تعلقات کے زاویے اس قدر گنجلک ہوتے جا رہے ہیں کہ کچھ سمجھ نہیں آ رہی، اس وقت ہمالہ سے بلند دوستی دائو پر لگی ہوئی ہے جس میں دراڑ کا خمیازہ آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔ آئی ایم ایف اگر پاکستان کو''مکمل بیل آئوٹ‘‘ پیکیج دیتا ہے تو اس کی کتنی اور کیا قیمت ہو گی‘ یہ وہ سوال ہے جو ہر ذی شعور کو سوچنا پڑے گا۔ مرکزی بینک میں عالمی اداروں کے نمائندوں پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا ، دیکھنے والی ہر آنکھ اور سوچنے والے ہر ذہن کو ادھر کیے جانے والے ہر چھوٹے بڑے فیصلے پر چیک اینڈبیلنس رکھنا پڑے گا، اتنی بھی خود مختاری نہ دی جائے کہ اپنے اختیار میں ہی کچھ نہ رہے۔
اس وقت ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ کیا سی پیک کو مؤخر کر دیا جائے گا؟ اگر پاکستان کو واقعی اس مالی سال میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے ممالک سے قرض لی گئی رقوم اور اس پر واجب الادا سود کی ادائیگیوں کیلئے دس ارب ڈالر چاہئیں تو یہ رقم کہاں سے آئے گی؟ کیا ہم سب اتنے ہی بھولے بادشاہ ہیں کہ سمجھ ہی نہ سکیں کہ یک لخت ایک ملک نے تین ارب ڈالر اور ڈیڑھ برس کیلئے ڈیڑھ ارب ڈالر کا ادھار تیل کسی کے کہے بغیر ہی دے دیا ہو گا؟ ہمارے سامنے اب وہ سٹیج ہے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی اور تعلقات کو ایک نئے نہج کی جانب بلا رہی ہے۔ کیا یہ یو ٹرن یا نئی سمت پاکستان کیلئے مفید ہو گی؟ جب پٹرول کی قیمتیں آسمان کی جانب بڑھنا شروع ہوئیںتو وزیراعظم کومشورہ دیا گیا '' فوری طور پر پٹرول کی راشن بندی شروع کر دیں جس کیلئے سرکاری دفاتر میں سب سے پہلے عمل کیا جائے‘‘ لیکن شاید اس تجویز پر اس لئے عمل نہیں کیا گیا کہ ایسا ملک جہاں وفاقی دارالحکومت کی سب سے بڑی مسجد کا ٹھیکہ پانچ روپے فی جوتا ہو اور ٹھیکیداردھڑلے سے پچاس روپے فی جوتا وصول کر رہا ہو‘ اور کوئی اسے پوچھنے والا نہ ہو وہاں چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے سے یہ راشن بندی بھی عذاب بن جائے گی۔ کیاچین آئی ایم ایف کی ادائیگیوں کیلئے بھاری قرضہ فراہم کرے گا؟ کیا آئی ایم ایف رعایات دیتے ہوئے واجب الاداقرضوں اور سود کی مدت میں اضافہ کرے گا؟ نہیں! یہ عالمی ادارے سب کچھ امریکا کے حکم پر کرتے ہیں اور امریکا کی مدد کی قیمت دوسری سرد جنگ میں اس کا اتحادی بننا ہے وگرنہ ہمیں سخت ترین معاشی حالات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved