کسی بھی ملک کی معیشت پالیسی سازی میں مرکزی اہمیت رکھتی ہے‘ اسی کو دیکھ کر عمومی طور پر پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔ کووڈ 19 کے بعد سے دنیا کافی تبدیل ہو گئی ہے۔ مہنگائی‘ بیروزگاری اور معاشی تنگ دستی نے معیارِ زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق کورونا کے باعث 2022ء تک بیس کروڑ سے زیادہ لوگ بیروزگار ہو سکتے ہیں۔ یہ مسائل صرف ترقی پذیر ممالک کو ہی درپیش نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق‘ امریکا میں کورونا کے باعث تقریباً نوے لاکھ سے زیادہ لوگ بیروزگار ہوئے ہیں۔ برطانیہ میں 26 لاکھ سے زیادہ لوگ بیروزگار ہوئے ہیں جبکہ باقی یورپ میں تقریباً تیس لاکھ لوگوں کے بیروزگار ہونے کی رپورٹ جاری کی گئی ہے، دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی کورونا کے اثرات سے محفوظ نہیں۔ کاروبار بند ہونے، آمدن کے ذرائع محدود ہونے اور مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کے باعث بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ گو کہ کورونا کے حوالے سے بہتر پالیسی کے باعث پاکستان میں صورتحال امریکا، یورپ اور برطانیہ جیسی بری نہیں رہی لیکن تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اس سے کچھ نہ کچھ متاثر ضرور ہوئے ہیں۔ خصوصی طور پر ملازمت کرنے والے طبقے کے مسائل زیادہ بڑھے ہیں۔ کاروبار کی رفتار سست ہونے سے کافی ملازمتیں ختم ہوئی ہیں اور شاید اسی وجہ سے بیروزگار نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ان حالات میں سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے لیے ایسے مثبت اقدامات کرے جو ان کے مسائل کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔ اس حوالے سے حکومت پنجاب کے اقدامات کچھ بہتر دکھائی دے رہے ہیں۔
پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور کے مطابق‘ وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے پنجاب میں ایک لاکھ نئی نوکریاں دینے کا اعلان کیا ہے‘ سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں 33 ہزار خالی اسامیاں پُر کی جائیں گی۔ 16 ہزار پہلے مرحلے میں مکمل ہوں گی‘ جن میں نمایاں طور پر 2600 اسامیاں ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، 1200 پرائمری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ اور 3500 اسامیاں کالجز میں پُر کی جائیں گی، ان کے علاوہ 12 ہزار پولیس کانسٹیبلز، 4 ہزار پٹواری اور 3500 سی ٹی آئی بھرتی کیے جائیں گے۔سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ میں 6 ہزار، قیدیوں کے ڈیپارٹمنٹ میں 4 ہزار اور سول ڈیفنس میں 12 ہزار سے زائد نوکریاں دی جائیں گی۔ ان کے علاوہ ڈاکٹروں کی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنانے سے متعلق اقدامات کیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے حال ہی میں سرکاری ہسپتالوں میں ایک ہزار نرسیں بھرتی کرنے کا اعلان کیا ہے‘ اس کے علاوہ ہائوسنگ، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، لوکل گورنمنٹ اور دوسرے ڈیپارٹمنٹس میں بھی نوکریاں دینے کے منصوبے پیش کیے گئے ہیں۔ پنجاب حکومت کے اقدمات قابلِ ستائش معلوم ہوتے ہیں‘ امید کی جارہی ہے کہ اس طرح کے فیصلے ایک طرف نوجوانوں کے لیے امید کی کرن ثابت ہو سکتے ہیں تو دوسری طرف حکومتی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہو ں گے۔
بیروزگاری کے علاوہ دوسرا بڑا عالمی مسئلہ مہنگائی ہے۔ کورونا کے بعد کاروبار کھلنے اور حکومتوں کی جانب سے کم شرحِ سود پر عوام کو قرض ملنے کے باعث پٹرولیم مصنوعات کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ رسد اور طلب میں فرق کے باعث تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جس کا بوجھ تقریباً تمام ممالک کی معیشتوں پر پڑا ہے۔ امریکا، برطانیہ، یورپ، چین، روس سمیت دنیا کی تمام بڑی معیشتیں اس بوجھ سے پریشان دکھائی دیتی ہیں۔ جب ترقی یافتہ ممالک بری طرح متاثر ہو رہے ہوں تو ترقی پذیر ممالک کا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات سے بچنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں پٹرول کی قیمت 146روپے فی لیٹر تک پہنچنے کے بعد مہنگائی میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ عام آدمی کی قوتِ خرید میں کمی واقع ہوئی ہے‘ خصوصاً آٹا،گھی اور دالیں عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں۔ ان حالات سے باہر نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ یا تو عام آدمی کی آمدن کے ذرائع بڑھائے جائیں یا انہیں سبسڈی دے کر اشیائے خور ونوش کی قیمتیں کم کی جائیں۔ آمدن بڑھانے کیلئے پنجاب حکومت کی ایک لاکھ نوکریاں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن فوری ریلیف دینے کیلئے سبسڈی بہتر آپشن دکھائی دیتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں (سندھ کے علاوہ) کے تعاون سے 120 ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے‘ جسے پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا ریلیف پیکیج کہاجا رہا ہے۔ اس کے تحت تقریباً 13 کروڑ پاکستانیوں کو آٹا، گھی اور دالیں 30 فیصد کم قیمت پر مل سکیں گی۔ اس سے عام آدمی کی زندگی پر کیا فرق پڑے گا‘ اس کا ذکر بعد میں‘ فی الحال میں اس نظام کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس کے تحت یہ سبسڈی عام آدمی تک پہنچے گی۔ ثانیہ نشتر صاحبہ کے مطابق‘ حکومت نے احساس پروگرام کے تحت ڈیٹا اکٹھا کیا ہے۔ سروے کے نتائج کے مطابق عام آدمی آمدن کا تقریباً 40سے 45 فیصد آٹا، گھی اور دالوں کی خریداری پر خرچ کرتا ہے‘ اس لیے عام آدمی کا مطالبہ ہے کہ ان چیزوں کی قیمتیں کم کی جائیں۔ حکومت نے خود کار ڈیجیٹل نظام کے تحت سبسڈی عام آدمی تک پہنچانے کے فیصلہ کیا ہے۔ یہ رقم محلے، علاقے، گائوں یا شہر کے رجسٹرڈ دکانداروں کے ذریعے ادا کی جائے گی۔ دکاندار کا اس نظام میں رجسٹرڈ ہونے کے لیے بینک اکائونٹ ہونا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ایک اینڈرائڈ فون بھی رکھتا ہو۔ اینڈرائد فون پر ایک ایپلی کیشن انسٹال کی جائے گی‘ جس میں راشن لینے کے امیدوارں کے ڈیٹا کا اندراج کیا جائے گا اور خود کار آن لائن نظام کے تحت حکومت بآسانی سبسڈی مہیا کر سکے گی۔
اس نظام میں دکاندار کا بینک اکائونٹ کے ذریعے سرکار کے ساتھ جڑ جانا ایک بڑی کامیابی ہو سکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کوئی بھی دکان کھولنے سے پہلے دکاندار کا بینک اکائونٹ کھلوانا لازم ہے۔ حکومت اس بینک اکائونٹ کو ٹیکس نظام، دیگر بینکوں اور موبائل اپلیکیشنز کے ساتھ منسلک کرتی ہے۔ جو شخص بھی خریداری کے لیے آتا ہے‘ وہ اپنے موبائل کے ذریعے سامان پر لگا کیو آر کوڈ سکین کرتا ہے اور دکاندار کی رقم اور سرکار کے ٹیکس کی رقم علیحدہ علیحدہ ظاہر ہو جاتے ہیں۔ خریدار اسی وقت اپنے موبائل سے ادائیگی کرتا ہے اور دکاندار کی رقم اس کے اکائونٹ جبکہ ٹیکس کی رقم براہِ راست حکومت کے اکائونٹ میں منتقل ہو جاتی ہے۔ اس سے ٹیکس چوری کے راستے بھی بند ہو جاتے ہیں۔ میں نے 2019ء میں اپنے ایک کالم میں یہ تجویز دی تھی جس پر پی آئی ٹی بی کے چیئرمین اور حکومت کے دیگر ذمہ داران نے کام کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ حکومت کے موجودہ اقدامات دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دکانداروں کو ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نظام کے ساتھ جوڑنا معیشت کو ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ کھڑا کرنے کی اچھی کاوش ہے۔اس معاملے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے یہ حکم بھی جاری کیا ہے کہ جن دکانداروں کے بینک اکائونٹس نہیں ہیں اور وہ نیشنل بینک کی کسی بھی برانچ میں جا کر اکائونٹ کھلوا سکتے ہیں۔ اس معاملے پر ایک بڑا مسئلہ دکانداروں کی تربیت کا بھی ہے‘ کیونکہ ان کی اکثریت کم تعلیم یافتہ ہے۔ اینڈرائد فون استعمال کرنا اور ایپلی کیشن کے ذریعے ادئیگی و وصولی کرنا ان کے لیے مشکل ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے ثانیہ نشتر صاحبہ نے تربیتی کورس کروانے کے منصوبے کے حوالے سے آگاہ کیا۔ سبسڈی نظام کا حصہ بننے والے دکانداروں کو ایک ٹرانزیکشن کے اوپر طے شدہ ریٹ پر کمیشن بھی ادا کیا جائے گا۔ آن لائن ہونے کی وجہ سے چیک اینڈ بیلنس بھی آسان ہو سکے گا۔ اس نظام کی کامیابی کے بعد اسے مزید پھیلایا جا سکے گا۔اسے ایف بی آر کے ساتھ جوڑ کر معاشی انقلاب کی راہ ہموار ہو سکے گی‘ ملکی معاشی پالیسیا ں مضبوط ہو ں گی اور معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔