پران صاحب نے پرویز مہدی کی ’’لاہوری جگت‘‘ کا جواب پکے لاہوری انداز میں دیاتومیں نے کھلکھلاکر قہقہہ لگایا۔ میرا قہقہہ سنا تو پرویز مہدی سے مخاطب ہوتے ہوئے پران صاحب نے کہاکہ’’ مہدی خاں ! میں پکا لاہوریا ہوں ،مجھے مہاراشٹر یہ کا نہ سمجھ لینا، ممبئی میں بھی لاہور والی زندہ دلی سنبھال رکھی ہے‘‘۔پرویز مہدی مرحوم بڑے ملنسار اور شگفتہ طبع انسان تھے کہنے لگے: ’’بھلے جی بھلے بھاجی ،نئیںریساں شہر لاہور دیاں‘‘۔ پرویز مہدی نے کہاتھاکہ میرزا غالب کے دادا قوقان بیگ خاں، اداکار پریم چوپڑہ اورپران صاحب کیا لاہور کی گوالمنڈی میں رہتے رہے ہیں۔ اس کے جواب میں پران صاحب نے کہاتھاکہ ’’وہ قو قان خاں تھا،اگر مہدی خاں ہوتاتو اسے چونامنڈی اورگوالمنڈی کا فرق معلوم ہوتا‘‘۔ پران صاحب اورپرویز مہدی کے مابین اس ’’لاہور گیری‘‘ سے فائدہ اٹھاتے ہو ئے میںگجرانوالیہ بھی تھوڑی دیر کے لئے لاہوریہ بن گیا۔میں نے بے تکلفی سے کہا: پران صاحب ! لاہور میں گوالمنڈی اورچونا منڈی کے قریب ایک ’’تیسری منڈی‘‘ بھی ہے۔وہاں بھی آنا جاناہوتاتھا؟ پران صاحب پورے موڈ میں تھے، اپنی نوکیلی ناک پر عینک جھکا تے ہوئے بولے: ہونہہ!آتے ہیںغیب سے یہ مضامیں خیال میں… سولہ سترہ سال کی عمر میں دلی بلی ماراں سے نکلے پھر شہزادوں اوراپسرائوں کے دیس لاہور میں جابسے۔مجھے تو لاہور کوہ قاف اورپریوں کے دیس جیسا لگتا تھا۔ گوالمنڈی، لکشمی چوک، رائل پارک، ہیرا منڈی، چونا منڈی، موہنی روڈ، شوری سٹوڈیو، پنچولی آرٹ سٹوڈیو ، حضوری باغ، حضرت داتا گنج بخشؒکا مزار اورلارنس گارڈن یہ ہمارالاہور تھا۔ہم سب جگہ اپنے تانگے پر جایا کرتے تھے۔ میرا تانگہ بان تاج دین اورگھوڑا شیروتھا۔ تاج دین اور شیرو کا ذکر کرتے ہوئے پران صاحب کی آنکھوں میں آنسوئوں کے موتی چمکنے لگے تھے۔پران صاحب نے آنسو پونچھتے ہوئے کہاکہ: صاحب! زندگی میں اگر بہت کچھ پایا ہے تو بہت کچھ کھویابھی ہے۔ممبئی نے ہمیں پران کرشن سکند سے سپرسٹار پران بنایا، اپنے آپ کو میں تو کچھ بھی نہیںسمجھتا‘ یہ تو آپ لوگوں کاپیارہے، لیکن اس کے لئے بھی ہمیں لاہور قربان کرناپڑا۔ پران صاحب ہم دونوں سے مخاطب ہوئے: آپ خوش نصیب ہیں جو لاہور آباد ہیں… نصف صدی تک بالی وڈ پر راج کرنے والے سپرسٹار اورکریکٹر ایکٹر کے منہ سے لاہور کے متعلق ایسے ’’یوٹوپین ڈائیلاگ‘‘ سن کرتھوڑی دیر کے لئے تو میں بھی اپنے آپ کو کوئی توپ خان اینکر پرسن سمجھنے لگا تھا ۔ یقینا پرویز مہدی نے بھی اپنے پورٹ فولیو میں مغل اعظمِ کے درباری گائیک میاں تان سین سے نسبت پیدا کرلی ہو گی۔ پران صاحب سے ہماری ملاقات جولائی 2001ء میں ہوئی تھی۔یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کا طوطی بول رہا تھا ۔ مجھے یاد ہے پران صاحب نے ہم سے کہاتھا: آپ کے وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کو عوام اپنے ووٹوں سے لے آئے تھے پھر یہ کیسے ہوگیاکہ ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا؟ پران صاحب نے کہاکہ بھائی صاحب یوسف خان (دلیپ کمار) نوازشریف صاحب کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔ ہم سب لاہوریے اپنے پشاوری بھائی یوسف خان (دلیپ کمار ) کی طر ف اکٹھے ہوتے ہیں۔بی آر چوپڑہ اور یش چوپڑہ بھی تو لاہوریے ہیں،ہم سب اکٹھے ہوتے ہیںتو پھر پاکستان کویاد کرتے ہیں۔ پران صاحب بڑے ذہین شخص تھے۔انہوں نے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کسی قسم کاسیاسی تبصرہ کرنے سے پہلے کہا ’’دیکھئے صاحب!ذاتی طور پر میں برصغیر کی تقسیم کو بٹوارہ کہنے والا ہندوستانی نہیںہوں۔ پاکستان کی ایک الگ حیثیت ہے جسے بھارت سرکار سمیت اس میں بسنے والوں نے دل سے تسلیم کرلیا ہے لیکن پاکستان نے شاید ابھی دل صاف نہیںکیا۔ آج سے بارہ برس قبل کارگل کا ’’زخم‘‘ تازہ تھا۔پران جیسے لوگ جو بھارتی ہوتے ہوئے پاکستان سے دوستی چاہتے تھے انہیںواجپائی کے لاہور جانے سے بہت سی امیدیں پیدا ہوگئیں تھیں مگرجنرل پرویز کے کارگل ایڈونچر نے دونوں ملکوں کو وہیںلاکھڑا کیاجہاںوہ نصف صدی سے کھڑے تھے۔ پٹیالہ گھرانے کے استاد حامد علی خاں اورشبنم مجید،جنرل پرویز مشرف کے پسندیدہ سنگرز رہے ہیں۔دونوں بتاتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف جب ہمیں محفل موسیقی سجانے کے لئے بلاتے تھے تو اکثر ایسا ہوتارہاکہ محفل ختم ہو نے سے پہلے جب اپنے عروج کو پہنچتی تووہاں ’’جگل بندی‘‘(موسیقی میں مقابلہ) شروع ہوجاتی۔ یعنی جنرل صاحب بھی استاد حامد خاں اورشبنم مجید سے مقابلہ پر اتر آتے اورمائیک تھام کر الاپ، تانیں اور زمزمے ادا کرنے لگتے۔ جنرل صاحب اور استاد حامد کے مابین ہونے والے ایک ’’یاد گارمقابلہ‘‘ کا وڈیو کلپ یوٹیوب پر محفوط ہے۔ موسیقی کا یہ مقابلہ بھی کارگل جیسا بے سُر اور بے تالہ تھا۔کارگل سے ہمیں کسی قسم کی کوئی برتری حاصل نہیںہوئی تھی، الٹا ہمارے ناقابل تسخیر امیج کے رنگ میںبھنگ پڑ گیاتھا ۔یہ بھی ویسی ہی ایک ’’جگل بندی‘‘ تھی، جیسی ہمارے استاد کمانڈو خاں ایک دن استاد حامد خاںسے کربیٹھے تھے۔ پران صاحب نے اس ملاقات میںمیاں نواز شریف کے بارے میں پسندیدگی کا اظہار کیاتھا۔پران صاحب کے دل میں میاں نوازشریف کے لئے احترام اورمحبت کی وجہ دلیپ کمار صاحب تھے۔ بالی وڈ میں میاں نوازشریف کی ’’باکس آفس‘‘ پوزیشن کودیکھ کر مجھے اندازہ ہواکہ نوازشریف حکومت نے برصغیر کے لیجنڈ دلیپ کمار کو پاکستان کاسب سے بڑا سول ایوارڈ دینے کا فیصلہ اگرچہ میرٹ پر ہی کیاتھا لیکن اس سے میاں صاحب کی بالی وڈ میں اچھی خاصی ’’مارکیٹنگ‘‘ ہوگئی۔ پر ان صاحب نے کہاکہ پاکستان نے بھائی صاحب (دلیپ کمار) کو ایوارڈ دے کربڑا اچھا کیاہے‘ انہیںتو دنیا کا ہربڑا ایوارڈ ملنا چاہیے۔ یہ کہتے ہوئے پران صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے: صاحب! میری طرف سے پاکستانی میڈیا میں یہ پیغام دیجئے گاکہ پاکستان نے دلیپ کمار کو جو ایوارڈدیادراصل وہ بھارت اور پاکستان کو دیا گیا ایوارڈ ہے۔یہ ایوارڈ برصغیر کا ہے، برصغیر جہاں بھارت اورپاکستان دونوں آباد ہیں۔اوپر والے سے پراتھنا کرتا ہوں یہ پھر سے بھائی بھائی بن جائیں۔یہ بھائی بھائی بن کر رہیںگے تو ڈیڑھ ارب سے زیادہ انسان اپنی زندگیوں میں سکھ چین اورخوشحالی کا منہ دیکھ سکیں گے ۔پران صاحب کی گولڈن فریم والی عینک کے پیچھے ان کی بڑی بڑی اورروشن آنکھو ں میں ایک امید تھی۔ انہوں نے کہا: میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ میاں نوازشریف ایک عظیم لاہوریے (پران ) کا پیغام وصول کریں اوربھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا سفر جاری رکھیں۔ و طن عزیز اور قوم کا دیگر احوال یہ ہے سپریم کورٹ نے حکم جاری فرمایاہے کہ صدارتی الیکشن 30جولائی کو کرائے جائیں ۔ یہ حکم نون لیگ کے سربراہ راجہ ظفر الحق کی درخواست پر صادر کیاگیاہے۔ صدارتی الیکشن کے سلسلہ میں الیکشن کمیشن نے 6اگست کے لیے انتظامات مکمل کررکھے لیکن نون لیگ کا موقف یہ ہے کہ رمضان المبارک کے سلسلہ میں ہمارے نیک اورصالح ممبران اسمبلی اعتکاف میں بیٹھنے کے ساتھ ساتھ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے سعودی عرب روانہ ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا صدارتی الیکشن 30 جولائی کو کرا لیے جائیں۔ اپوزیشن کی بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے اعلان کیاہے کہ وہ اتحادیوں کی مشاورت سے صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ کرے گی۔پیپلز پارٹی کے لیڈروں جن میں سید خورشید شاہ، چوہدری اعتزاز احسن اور رضا ربانی اور دیگر نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہاکہ انہیں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے حوالے سے تحفظات ہیں۔عدالت نے فریق دوم کا موقف سنے بغیر یک طرفہ فیصلہ جاری کردیاجس سے اپوزیشن انتخابی مہم کے حق سے محروم ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر 27رمضان کو صدارتی الیکشن نہیں ہوسکتاتھاتوپھر بتایاجائے کہ پاکستان 27رمضان کو جو بنا تھا تو کیا قائد اعظم ؒ نے اسے بننے سے روک دیاتھاکہ نفلی عبادت کرلیں پاکستان پھر بنالیں گے۔علاوہ ازیں نون لیگ کے صدارتی امیدوار ممنون حسین نے فرمایاہے: ’’وہ غیر جانبدار صدر ہوں گے تاہم زرداری اوراسحاق خان جیسے صدر نہیںہوں گے‘‘۔وہ کیسے صدر ہوں گے ؟انہوں نے اپنے پہلے بیان میں وضاحت فرمادی ہے۔قوم ’’غیر جانبداری‘‘ جھیلنے کے لئے تیار ہوجائے۔ (ختم)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved