تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     12-11-2021

ویسے اتنا رولا کیوں ڈالا ہوا ہے؟

تاریخ کا جائزہ لیں تو چوتھا وزیراعظم سپریم کورٹ پیش ہوا ہے۔ پہلے بھٹو صاحب پیش ہوئے تھے‘ انہیں لاہور ہائیکورٹ سے موت کی سزا سنائی جا چکی تھی۔ سپریم کورٹ سے انہیں ریلیف نہ ملا اور انہیں پھانسی لگا دیا گیا۔
ان کے بعد وزیراعظم نواز شریف سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے جب چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ان پر توہین عدالت لگا کر نوٹس بھیج دیا تھا۔ یہ اور بات کہ اگلے روز اسی چیف جسٹس اور سپریم کورٹ پر حملہ ہوگیا تھا اور ایک سال بعد خود نواز شریف گرفتار کرکے لانڈھی جیل کراچی پہنچائے جا چکے تھے۔ تیسرے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تھے جنہیں توہین عدالت کے جرم میں سزا دی گئی اور برطرف کر دیا گیا۔ اس وقت مسئلہ سوئس عدالتوں کو خط لکھنے کا تھا کہ وہ زرداری اور بینظیر بھٹو کے خلاف این آر آو کے تحت بند ہونے والے مقدمات کو دوبارہ کھول دیں۔ گیلانی نہ مانے اور نتیجہ برطرفی کی شکل میں نکلا۔
اب چوتھے وزیراعظم عمران خان بھی عدالت کے بلانے پر پیش ہوگئے ہیں۔ اس بار معاملہ پچھلی تینوں وجوہات سے مختلف ہے۔ بھٹو صاحب‘ نواز شریف اور گیلانی پر مختلف الزامات تھے‘ لیکن خان صاحب پر کچھ اور الزام لگ رہا ہے۔ ایک تو کوئی توقع نہیں کررہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کو بھی اچانک سپریم کورٹ بلایا جا سکتا ہے اور معاملہ بھی ذرا سنگین نوعیت کا ہے جسے حل کرنا بظاہر خان صاحب کیلئے مشکل لگ رہا ہے۔ عدالت نے پچھلی پیشی پر اٹارنی جنرل کو کہا تھا کہ وہ وزیراعظم کو بتائیں کہ ان کے پاس پشاور سکول میں شہید ہونے والے بچوں کی مائیں اپنی درخواستیں اور مقدمہ لے کر آئی ہیں اور انہوں نے آٹھ نام بتائے ہیں جو ان کے خیال میں اپنی نالائقی یا نااہلی سے اس حادثے کے بالواسطہ ذمہ دار ہیں۔ ان اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے لوگوں سے غفلت ہوئی‘ جس کی وجہ سے ان کے بچے مارے گئے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے سول ملٹری حکام نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں جس وجہ سے سکیورٹی میں دراڑ پڑی اور اتنا بڑا واقعہ ہوگیا۔ وہ اب چاہتے ہیں کہ ان آٹھ لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔ ان آٹھ افراد میں (اس وقت کے) آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی، کور کمانڈر پشاور، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا، وزیرداخلہ ، سیکرٹری داخلہ اور دیگر لوگ شامل ہیں‘ لیکن ان کا کہنا تھاکہ ان کی ایف آئی آر درج نہیں کی جارہی۔اس پر جب عدالت نے اٹارنی جنرل سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ان کی وزیراعظم سے بات نہیں ہوسکی۔ اس پر عدالت نے فوراً وزیراعظم کو پیش ہونے کا حکم دیاکہ اگر اٹارنی جنرل انہیں ایک ماہ گزرنے کے باوجود انفارم نہیں کرسکے تھے تو اب وہ خود عدالت بلاکر ان سے پوچھ لیتے ہیں۔ یوں وزیراعظم کو فوراً طلب کرلیا۔
عدالت میں جو کچھ ہوا وہ آپ جانتے ہیں لیکن میری نظر میں دو تین چیزیں اہم ہیں جو عدالت میں ہوئیں۔ ایک تو تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ حکومت پاکستان کے مذاکرات پر بھی عدالت نے سنگین سوالات اٹھا دیے‘ بلکہ یہاں تک کمنٹ کیا گیاکہ ایک اور سرنڈر ڈاکومنٹ سائن کرنے جارہے ہیں۔ لیکن اہم بات خان صاحب نے کی کہ اگر عدالت حکم دے تو وہ ان آٹھ افراد کے خلاف کارروائی کیلئے تیار ہیں۔ مطلب عدالت کہے گی تو وہ اس پر عمل کریں گے۔ پاکستانی حکمرانوں کو ہمیشہ بہت سارے کاموں‘ جو انہیں خود کرنے چاہئیں تھے‘ کیلئے بھی عدالتی حکم کا انتظار رہتا ہے۔ مجھے یاد ہے‘ دو دفعہ دو وزرائے اعظم سے بات ہورہی تھی تو انہیں یہی کہا تھا کہ آپ لوگ عدالت کے حکم پر تو فوراً لوگوں کے مسائل حل کر دیتے ہیں لیکن وہی کام آپ خود سے کیوں نہیں کرتے؟ پولیس اور ڈی ایم جی سب کچھ آپ کے ماتحت ہے۔ عدالت کے پاس عدالتی پاورز ہیں لیکن ساری ایگزیکٹو پاورز تو آپ کے پاس ہیں۔
اب عدالت نے خان صاحب کو کہا ہے کہ وہ ان مائوں کو مطمئن کریں اور ان سے ملاقات کریں۔ سوال یہ ہے کہ خان صاحب انہیں کیسے مطمئن کریں گے کیونکہ ان کے بقول وہ ان والدین کو صوبائی حکومت سے پہلے ہی پیسے دلوا چکے ہیں۔ مطلب تھا کہ پیسے دے دیے ہیں تو یہ ایشو ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ ایک ماں نے روتے ہوئے سپریم کورٹ کے باہر کہا: انہیں ایک اعلیٰ افسر نے کہا تھا: آپ مزید بچے پیدا کر لیں۔
ممکن ہے آپ کو یاد ہو کہ وزیر اعظم نے ساہیوال واقعہ میں مارے گئے پورے خاندان کو انصاف دلوانے کا دعویٰ کیا تھا۔ بعد میں سب ملزم چھوٹ گئے۔ انہیں بھی ایک کروڑ روپے دے کر چپ کرا دیا گیا تھا۔ انصاف آج تک نہیں ملا لیکن پیسے مل گئے۔ وہ ایک غریب خاندان تھا لہٰذا اس کی آواز دب گئی یا دبا دی گئی‘ لیکن پشاور کی مائوں کی بہت زیادہ تعداد ہے اور ٹریجڈی بہت بڑی تھی لہٰذا وہ ابھی تک لڑ رہی ہیں۔ اپنے پیارے اور معصوم بچوں کے قاتلوں کے خلاف انصاف چاہتی ہیں۔ اب جب وہ یہ سنتی ہیں کہ انہی قاتلوں کے ساتھ حکومت صلح کررہی ہے یا کوئی ڈیل کررہی ہیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے بچوں کا لہو رائیگاں گیا۔ ویسے ان مائوں کو بھی داد دینی چاہئے کہ وہ پچھلے سات سالوں سے اپنے بچوں کے قاتلوں کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ وہ کام جو ریاست اور ریاستی اداروں کو کرنا چاہئے تھا وہ یہ مائیں کررہی ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کو اس دکھ کا اندازہ نہیں جو اس ملک کی مائوں نے سہے ہیں۔ ایک دفعہ ایک غیرملکی ٹی وی پر ایک ریٹائرڈ جنرل کو سن رہا تھا۔ جب میزبان نے کہا کہ آپ کی پالیسی نے ملک کو برباد کر دیا ہے‘ پاکستان اجڑ گیا ہے‘ اور تو اور آپ کے ایک سو چالیس بچے اتنے بڑے حادثے میں طالبان کے ہاتھوں مارے گئے لیکن پھر بھی آپ لوگ طالبان طالبان کھیلنے سے باز نہیں آئے۔ اس پر مہمان نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ وہ بچے اس جنگ کا collateral damage تھے۔ مطلب یہ تھا کہ ایسی قربانیان دینا پڑتی ہیں کیونکہ طالبان ہمارااثاثہ اور ہماری جنگی حکمت عملی کا حصہ تھے۔ کیا دنیا میں ایسی ریاستیں اور حکمران بھی ہو سکتے ہیں جو اپنے ہی ستر اسی ہزار شہری مروانے اور ایک سو چالیس بچوں کو بے رحمی سے قتل کرانے کے بعد بڑے حوصلے سے کہہ سکیں کہ کوئی نہیں‘ بڑے مفادات کیلئے ایسی جانوں کی قربانی دینا پڑتی ہے؟ سوال یہ ہے کہ یہ سب قربانیاں عام پاکستانیوں کے بچوں سے ہی کیوں لی گئی ہیں۔ ان مفادات کا فائدہ تو پاکستان کی سول ملٹری حکمرانوں کو ہوا ان عام غریبوں کو عمر بھر کا رونا ملا‘ جنہیں یہ بھی پتا نہیں تھا کہ طالبان کی حمایت کرنے کا انہیں کیا فائدہ تھا جس کے لیے ان کے معصوم بچوں کا مرنا ضروری تھا۔ ویسے آپ نے کبھی سنا کہ ان ستر‘ اسی ہزار مارے گئے پاکستانیوں میں حکمرانوں یا بیوروکریٹس کے بچے بھی شامل تھے؟ ویسے وہ سب جو پاکستانی بچوں کو ملکی مفاد میں مروا رہے تھے آج ان سب کے اپنے بچے باہر پڑھتے ہیں۔ وہ سب باہر سیٹل ہوتے ہیں۔ عام انسانوں کے بچے collateral damage کیلئے پیدا ہوتے ہیں۔
مائوں کے جگر گوشے اور پشاور میں مارے گئے بچے تو ہماری ایک بڑی گیم میں کولیٹرل ڈیمیج تھے اور بقول ایک سابق آفیسر ماں باپ رولا ڈالنے کے بجائے مزید بچے پیدا کر لیں‘ مسئلہ کیا ہے۔ ان مائوں نے اتنا رولا کیوں ڈالا ہوا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved