تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     12-11-2021

ذرا نم

یہ شہر اقتدار کی ایک سرد صبح تھی۔ میں پہلے لاء آفس پہنچا، جہاں جلدی جلدی کچھ کام نمٹائے اور پھر شاہراہِ دستور کی طرف جانے کے لیے جناح ایونیو کا رُخ کرلیا۔ صبح صبح شاہراہِ دستور پر دن کی نسبت زیادہ رش ہوتا ہے۔ پاک سیکرٹریٹ، قصرِ صدارت، پی ایم ہائوس، سپریم کورٹ، ریڈیو پاکستان، نیشنل اکائونٹیبلٹی آفس، پارلیمنٹ کے ملازمین کی ٹریفک اس رش کا باعث ہوتے ہیں۔ اسلام آباد کی جناح ایونیو، جس پر پوش ترین بلیو ایریا واقع ہے، فیڈرل کیپٹل کی واحد سگنل فری روڈ ہے۔ پارک چوک سے ڈی چوک تک۔ اس سے آگے ریڈ زون کی لائن آ جاتی ہے۔
Covid-19 کے نتیجے میں جو احتیاطیں شروع ہوئی تھیں، ان کی وجہ سے سپریم کورٹ بلڈنگ کے اندر اب پبلک کا ہجوم نظر نہیں آتا۔ جن سائلوںکے مقدمات فکس ہوتے ہیں، یا پھر اُن سے متعلقہ وکیل ہی عدالت آتے ہیں۔ یہاں پہ رَش کم ہونے کی دوسری وجہ کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں بیٹھ کر سپریم کورٹ رجسٹریوں سے وڈیو لنک کے ذریعے وکلاء کو عدالتی کارروائی میں شرکت کی اجازت بھی ہے۔ اسلام آباد کی دو عمارتیں ایسی ہیں جن کے اندر لابیوں ، گزرگاہوں اور پیچ در پیچ رومز کو ذہن میں رکھ کر چلنا پڑتا ہے۔ ان میں سے پہلی عمارت پارلیمنٹ کی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر سپریم کورٹ بلڈنگ۔ چیف جسٹس آف پاکستان خود کورٹ روم نمبر1 میں بیٹھتے ہیں‘ جو بلڈنگ کے لیول 2 پر آتا ہے۔ لیول 1 پر کورٹ نمبر1 پر گرائونڈ سے اوپر آنے والی برقی لفٹ اور دو متوازی سیڑھیاں ہیں‘ جہاں بڑا سا اوپن سپیس ہے، جسے وُکلاء بریک ٹائم یا کلائنٹ سے مشاورت یا آپس میں گپ شپ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
میں سٹاف اور ساتھی وکیلوں کے ہمراہ موجود تھا۔ اسی اِثنا میں سٹاف کے پانچ چھ لوگوں کے ساتھ ناردرن زینے سے اوپر آتا ہوا ایک مانوس روشن چہرہ دکھائی دیا۔ نہ ہٹو بچو کا شور تھا، نہ عمارت خالی کروائی گئی، نہ ہی کوئی دھکے مار بریگیڈ۔ گول دائرہ بنا کر سکیورٹی دینے والے سٹافر بھی کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ آسمانی رنگ کے عام سے شلوار قمیص والے قومی لباس میں یہ تھے ہمارے آپ کے وزیر اعظم عمران خان‘ جنہیں گزرے بدھ کے دن سپریم کورٹ آف پاکستان نے عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔
پوٹھوہاری زبان کے ایک مقولے کا مطلب یوں ہے: جنہوں نے اپنے پلّے سچ باندھ رکھا ہو، اُن کی چال میں رقصِ درویش پایا جاتا ہے۔
یہ اے پی ایس پشاور کے شہید بچوں سے متعلق ایسا اَز خود نوٹس تھا، جو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سال 2016 میں لیا تھا۔ اس دل خراش اور انسانیت سوز واقعے کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ یہ 16 دسمبر کے روز سال 2014 میں پیش آیا۔ اُس وقت عمران خان اقتدار میں نہیں تھے، بلکہ شہر اقتدار کے ڈی چوک میں 126 روزہ دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے تھے۔ عمران خان کی ڈیمانڈ یہ تھی کہ حکومتِ وقت صرف چار عدد انتخابی حلقوں کا الیکٹورل آڈٹ کرائے تاکہ ان چار حلقوں میں برپا ہونے والی انتخابی دھاندلی کے ڈھول کا پول کھولا جا سکے۔
تب پاکستان میں شریف راج کی تیسری حکومت اور پنجاب میں ہائوس آف شریف کی پانچویں سرکار کا ڈنکا بج رہا تھا۔ اسی راج دربار کے بھرتی کئے ہوئے کارِندوں کے خلاف ووٹ پر ڈاکہ ڈالنے کا الزام لگا۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ پشاور کے بچوں کے ساتھ‘ وحشت گری کے خلاف اظہارِ یکجہتی کے لیے عمران خان نے دھرنا چھوڑا، پی ٹی آئی کی سینٹرل ایگزیکٹیو بلائی اور درد و الم میں ڈوبے ہوئے خاندانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے پشاور جا پہنچے۔ اس واقعے نے پاکستان کی قوم کو ایک بار پھر نئے عزم کے ساتھ اپنے بچوں کے تحفظ کے لیے مادرِ وطن کے پرچم تلے اکٹھا کر دیا تھا۔
پاکستان میں سیاست کرنے والے فنکاروں اور قومی خزانے سے فنکاری کرنے والے سیاست کاروں کی عدالتوں میں حاضری کے مناظر قوم ٹی وی کیمروں کے ذریعے اکثر دیکھتی رہتی ہے۔ اس کارِ فن کی چند جھلکیاں بڑی کامن ہیں۔ آئیے ذرا اس رائیونڈ سٹائل کو ری وائنڈ کر کے دیکھ لیں۔
پہلی جھلکی: پیشی کی تاریخ پر، پَری پیشی ماحول بنانے کے لیے چند مخصوص فرینڈلی کیمرے، 8، 10 جذباتی مناظر تخلیق کرنے کے ماہر خواتین و حضرات کے ساتھ کورٹ کچہری کے باہر پہنچ جاتے ہیں، جسے دکھانے والے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوتے ہیںکہ عدالت کے باہر جان نثاروں کی بڑی تعداد پہنچ چکی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میڈیا کے کیمرا مین اور رپورٹررز کی تعداد، جذباتی مناظر کے ان کرداروں کو آئوٹ نمبر کردیتی ہے۔
دوسری جھلکی: انٹری گیٹ کا نشانہ لے کر دو تین لوگ ہاتھوں میں پلاسٹک کی تھیلیاں پکڑ کر ہاتھ پیچھے باندھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان جان نثاروں کی ہیئر کٹنگ اور وردی ڈریسنگ سے صاف پتہ چل رہا ہوتا ہے کہ یہ پیشی پر آنے والے کے گھریلو ملازم ہیں۔ ان کے حصے کا ایکشن تب شروع ہوتا ہے جب ملزم یا ملزمہ کی گاڑی گیٹ کے سامنے آتی ہے۔ یہ گاڑی کے بونٹ کی جانب سے وِنڈ سکرین پر چار پانچ کلو پھول پتی بے رحمی سے پھینکنے کی ڈیوٹی ادا کرتے ہیں۔
تیسری جھلکی: اس جھلکی میں ایک ہی آدمی حمیدہ بوری والا اور راجہ نٹور لال جیسے بنارسی ٹھگوں کے کرداروں کو پھر سے زندہ کرنے کے لیے پارٹ ادا کرتا ہے۔ پیشی اسلام آباد میں ہو تو یہ ملزم کی گاڑی کے بونٹ پر رکوع کی حالت میں جا کر مختلف برانڈ کی سواریوں کو چومنے کا حمیدہ بوری والا کا رول ادا کرتا نظر آتا ہے؛ اور اگر تاریخ پیشی لاہور میں ہو جائے، تو وہاں دورِ جدید کا یہ راجہ نٹور لال ملزم کے غم میں بے ہوش ہو کر عین کیمروں کے سامنے گرنے کی پرفارمنس والی ڈیوٹی دیتا رہتا ہے۔ پھر بغیر کسی دوائی کے، بغیر کسی علاج کے کیمرہ سپاٹ ہٹتے ہی یہ ہٹّاکٹا اُٹھ کر کھڑا ہوجاتا ہے۔
چوتھی جھلکی: اس جھلکی کے ہمیشہ دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک ملزم کا سلوموشن میں اُنگلیوں سے وکٹری کا نشان بنا کر واک کرنا اور پھر اُس کے اردگرد ہندی فلم دبنگ اور سنگھم جیسی وردیوں میں ملبوس ملزم کے چاروں طرف گول دائرہ بنا کر چلنے والی پرفارمنس ڈِسپلے کرنے والا بینڈ آتا ہے۔ آپ آسانی کے لیے اسے پرسنل برینڈ بھی کہہ سکتے ہیں۔
عدالت کی حدود (Precincts) کی تقدیس کا تقاضا ہے کہ یہاں پروٹوکول کلچر پر فوری پابندی لگائی جائے، گل پاشی اور نعرے بازی سمیت۔ اگر ملک کے وزیر اعظم کو عدل گاہ میں آنے جانے کے لیے وی آئی پی حفاظتی حصار کی ضرورت نہیں تو پھر باقیوں کو کس سے خطرہ ہے؟
عمران خان نے ثابت کیا:
نہیں ہے ناامید اقبال ؔ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved