تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     12-11-2021

مصنوعی بارش اور جگنو

''یہ اندھوں میں کانا راجہ والی صورتِ حال نہیں بلکہ اندھیروں اور آندھیوں میں کانا راجہ والی بات ہے‘‘۔ یہ بات پنجاب یونیورسٹی کے مصنوعی بارش کی تجرباتی کوشش کے حوالے سے بریفنگ کے موقع پر کہی گئی۔ ان الفاظ کے پس منظر میں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ باغوں کا شہر کہلوانے والا لاہور اس وقت دنیا کا سب سے آلودہ شہر ہے۔ اسی طرح کراچی کا شمار دنیا کے پانچ آلودہ ترین شہروں میں ہو رہا ہے۔ 1983ء میں مصنوعی بارش کا تجربہ کرنے والے بھارت کے بڑے شہر بھی دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں آرہے ہیں۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس خطے میں مصنوعی بارش کے اتنے تجربات ہوتے کہ ان کا چرچا کرکٹ کے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ سے زیادہ ہوتا لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ دوسری بڑی وجہ شاید اس بارش کا پہلا تجربہ 1946ء میں ہونا ہے‘ مطلب یہ ٹیکنالوجی کئی دہائیاں پرانی ہے؛ البتہ اس ٹیکنالوجی میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی اور بہتری آتی گئی۔
لوگ مصنوعی بارش کے حوالے سے اکثر وضاحت کے طالب ہوتے ہیں، سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ آپ نے یقینا گرمیوں کے موسم میں ایک یخ ٹھنڈے پانی کے گلاس کے گرد پانی کے ذرات بنتے دیکھے ہوں گے۔ یہ نہایت محدود پیمانے پر بارش ہی کی ایک قسم ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ ہوا میں ہر وقت پانی کے بخارات موجود ہوتے ہیں‘جن کو عام الفاظ میں نمی کہا جاتا ہے۔ اس نمی کا تناسب جگہ اور موسم کے اعتبار سے تبدیل ہوتا رہتا ہے، مثال کے طور پر جولائی اور اگست کے مہینوں میں ہم اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ حبس بہت زیادہ ہے۔ یہ حبس اصل میں نمی کے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بارش کیلئے یہ نمی ایک بنیادی جزو ہوتی ہے۔ہوا جیسے ہی اوپر اٹھتی ہے‘ درجہ حرارت کم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ہوا جیسے جیسے ٹھنڈی ہوتی ہے‘ اس کے اندر اِن بخارات کو اٹھائے رکھنے کی صلاحیت کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس عمل کو آپ گلاس والی مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ گلاس کے اردگرد کی ہوا ٹھنڈی ہو جاتی ہے، اس میں موجود بخارات پانی بن جاتے ہیں۔ مصنوعی بارش کیلئے اوپر فضا میں موجود بادلوں اور ہوا کے درجہ حرارت کو نمک کا چھڑکائو کر کے کم کیا جاتا ہے‘ جیسے ہی یہ درجہ حرارت کم ہوتا ہے تو بادل گھنے ہونا شروع ہو جاتے ہیں ، مطلب بخارات آپس میں مل کر بڑے ہوتے جاتے ہیں اور پھر پانی کے قطرے بن کر بارش کی شکل میں برسنا شروع ہو جاتے ہیں۔ مصنوعی بارش برسانے کیلئے ہوا میں نمی کا تناسب ستر فیصد ہونا چاہیے۔ یہاں اس بات کی وضاحت کر دوں کہ یہ نمی دن کے بجائے رات کے وقت زیادہ ہوتی ہے اور صبح سورج نکلنے سے پہلے ہوا میں نمی کا تناسب سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اسی لئے پاکستان میں اس تجربے کے لئے صبح سویرے کے وقت کا انتخاب کیا جائے گا۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ نمک کو کس طرح بادلوں کی بلندی تک لے کر جایا جائے۔ اس کے لیے یا تو چھوٹے جہازوں کی مدد سے بادلوں پر سپرے کیا جاتا ہے یا بڑے غباروں سے مدد لی جاتی ہے۔ چین میں تو نمک کے چھوٹے راکٹ بنا کر فضا میں چھوڑ کر بھی بارش برسانے کا تجربہ کیا جا چکا ہے۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پہاڑی علاقوں میں ایک آگ کی بھٹی نما مشین بنا کر فضا میں مسلسل نمک چھوڑتے ہیں جس کو ہوا قریبی علاقوں میں بکھیر اور پھیلادیتی ہے۔ اس عمل کے ذریعے بھی بادل گہرے ہوجاتے ہیں اور ہوا ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور ہوا میں موجود بخارات بارش بن کر برسنا شروع ہو جاتے ہیں۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پہاڑی علاقوں میں اس بارش کو برسانے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔
متحدہ عرب امارات‘ جو ایک صحرائی ملک ہے‘ اسی بارش کی مدد سے اپنی پانی کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ اس کے لئے وہاں ایک پہاڑی علاقے میں ایک ڈیم بھی بنا ہوا ہے جو مصنوعی طریقے سے پیدا کردہ بارش کو اس ڈیم کے اوپر برسنے پر مجبور کرتا ہے۔ یو اے ای نے اس حوالے سے ایک جدید طریقہ بھی اختیار کیا ہوا ہے اور وہ ہے فضا میں ڈرونز کے ذریعے بجلی کے چارج دے کر بادلوں کو برسنے پر مجبورکرنا۔ اس طرح زمین پر بھی ہائی وولٹیج بجلی کے کھمبے نما ڈھانچے کھڑے کر کے بادلوں کو چارج (Negative Ion) کیا جاسکتا ہے۔ اس عمل کو اختیار کرنے سے سو فیصد آلودگی سے پاک اور کم اخراجات والی بارش برسانے کا ایک مسلسل ذریعہ بنایا جا سکتاہے۔
پاکستان میں مصنوعی بارش کی ناگزیریت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ بارش سموگ کو کم بلکہ ختم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ سموگ اس وقت ایک انتہائی بھیانک اور زہریلی دھند کی شکل میں ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ موسم کی صورت حال بتانے والی عالمی ادارے اس وقت لاہور کی ہوا کو Dangerous یعنی خطرناک اور انسانی صحت کے لیے مضر بتا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ سال کے دیگر مہینوں میں لاہور کی ہوا کی صورتحال کو ''very poor‘‘ بتایا جاتا ہے۔ نومبر اوسطاً سب سے کم بارش والے مہینوں میں شمار ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ اگر اکتوبر میں بارش ہو جائے تو نومبر میں بارش کا امکان مزید کم ہو جاتا ہے‘ جیسا کہ اس سال ہو چکا ہے۔ اس سال بھی نومبر میں لاہور شہر میں بارش کا امکان پچیس فیصد سے زیادہ نہیں۔ اس صورتِ حال میں لاہور کو دسمبر کی مہینے میں ہونے والی بارش کا انتظار کرنا پڑے گا اور اتنا لمبا انتظار یقینا خطرناک بات ہے۔ سموگ اور فضائی آلودگی کی وجہ سے بچے اور بوڑھے خطرناک حد تک متاثر ہو رہے ہیں۔ سانس لینے میں دقت‘ گلے اور سانس کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ سب سے اہم بات لوگوں کا ذہنی ہیجان کا شکار ہونا ہے۔ اسی طرح ڈینگی کا موسم بھی مشکلات بڑھا رہا اور ہلاکتوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ یہاں اس بات کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ اگر بارش ہو جائے تو اس سے سردی بڑھے گی اور سردی بڑھنے سے ڈینگی مچھر ختم ہونا شروع ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں پنجاب یونیورسٹی اگر چھوٹے پیمانے پر کامیاب ہو بھی جائے تو پورے لاہور شہر پر تو بارش نہیں ہو گی، البتہ یونیورسٹی اس بارش کو برسانے کیلئے متعلقہ قومی اداروں کے دروازے پر دستک دے رہی ہے، جو بہ آسانی اور چند کروڑ روپوں کے ساتھ یہ کام آسان بنا سکتے ہیں۔ اس بارش کی ضرورت لاہور اور کراچی کو سب سے زیادہ ہے لیکن ان کے قریبی شہروں میں بھی اس کی ضرورت ہے تاکہ زہریلی دھند سے مکمل نجات مل سکے۔ صرف ایک شہر میں بارش برسانے سے ہوا کے چلتے رہنے کی وجہ سے زہریلی دھند قریبی شہروں سے دوبارہ ان شہروں کا رخ کر سکتی ہے۔
تصویر کا ایک اور تلخ رخ دھواں پید کرنے والے کارخانوں کا ابھی تک چلتے رہنا، گاڑیوں، ٹرکوں اور رکشوں کا اس طرح دھواں فضا میں مسلسل پھینکنا ہے۔ اسی طرح‘ ابھی تک پنجاب کے تمام اینٹیں بنانے والے بھٹے ، فضا کم آلودہ کرنے والی زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل نہیں کئے جا سکے، بلکہ اس سال تو یہ اینٹیں بنانے والے بھٹے بند بھی نہیں کئے گئے۔ اس موقع پر جو چھوٹا سا پروجیکٹ پنجاب یونیورسٹی شروع کرنے جا رہی ہے اس کا نام جگنو رکھا گیا ہے‘ وجہ اس نثری شعر میں بیاں ہوجائے گی:
اندھیروں کی مخالفت ضرور کریں
چاہے جگنو سے روشنی ادھار لینا پڑے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved