بھارت کی یوں تو اور بھی بہت سے خواہشات ہیں مگر ایک خواہش بڑی ظالم ہے یعنی یہ کم بخت خواہش اُسے بدنام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی۔ اِس خواہش نے بھارتی قیادت کو بارہا ذلت سے دوچار کیا ہے مگر وہ بھی ایسی ڈھیٹ ہے کہ باز نہیں آتی۔ ہم بات کر رہے ہیں بڑا بننے کی خواہش کی۔ بھارت کو علاقے کا بدمعاش یعنی جنوبی ایشیا کا چودھری بننے کا شوق ہے۔ بھارتی قیادت چاہتی ہے کہ خطے کے تمام ممالک اُسے اپنا بڑا مان لیں۔ مان لینے میں کوئی ہرج نہیں اگر ماننے والی بات بھی ہو۔ معاملہ وہی ہے کہ سُوت نہ کپاس، جولاہے سے لٹھم لٹھا۔ بھارتی قیادت کی کئی عشروں سے خواہش ہے کہ اُسے جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی قوت تسلیم کرتے ہوئے عالمی طاقتوں میں بھی شمار کیا جائے!
خطے میں سلامتی سے متعلق امور پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے بھارتی قیادت نے کبھی نیپال کو دبوچنا چاہا اور کبھی سری لنکا کو۔ بنگلہ دیش کو بغل بچے کی سی کیٹیگری ہی میں رکھنے کے حوالے سے بھارتی قیادت نے اب تک کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ بنگلہ دیش چونکہ باقی دنیا سے کٹا ہوا یعنی خاصا اندر واقع ہے اور تنگ گلی کے آخری مکان کی سی لوکیشن کا حامل ہے‘ اس لیے بہت سے معاملات میں بھارت کا دست نگر ہے اور اُس سے ٹکرانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا مگر حقیقت یہ ہے کہ بعض معاملات میں بھارت کی دادا گیری اور زبردستی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ بنگلہ دیش کی بھارت نواز اسٹیبلشمنٹ بھی تنگ آکر مخاصمانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ بھوٹان اور نیپال خشکی سے مکمل طور پر گھرے ہوئے ہونے کے باعث بھارت کے خلاف کھڑے ہونے کی پوزیشن میں نہیں اور اپنی بقا کے لیے اُنہیں بہت حد تک بھارت پر منحصر رہنا پڑتا ہے اس لیے اُن کا بھارت کے سامنے دب جانا سمجھ میں آتا ہے۔ پاکستان خطے کا واحد ملک ہے جو کسی بھی معاملے میں بھارت کی غیر ضروری بالا دستی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ معاملات عسکری ہوں یا ثقافتی، معاشی ہوں یا معاشرتی‘ ہر معاملے میں پاکستان کسی نہ کسی طور بھارت کے ہم پلہ رہا ہے۔
افغانستان کے معاملے میں بھارت نے سفارتی، عسکری، معاشی اور سٹریٹیجک سطح پر جو مہم جوئی کی اُس کا (ظاہر ہے، بُرا) انجام بھی سب کے سامنے ہے۔ بھارتی قیادت کے افغانستان سے روابط ہمیشہ اچھے رہے ہیں۔ افغانستان کو ایک بیس کیمپ کے طور پر بروئے کار لاکر بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف مسائل پیدا کرنے کی کوشش کی۔ یہ بھارتی کوششوں ہی کا نتیجہ ہے کہ آج افغانستان کے اکثر لوگ سب کچھ بھول کر پاکستان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ یہ نفرت بہت سے معاملات میں بہت نمایاں ہوکر سامنے آچکی ہے۔ طالبان کو اقتدار سے محروم کردیے جانے کے بعد جب امریکا اور یورپ نے افغانستان میں اپنی مرضی کی یعنی کٹھ پتلی حکومتیں قائم کرنے کا سلسلہ شروع کیا تب بھارت کی مراد بر آئی۔ پہلے حامد کرزئی اور پھر اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کے ادوار میں بھارت نے افغانستان میں ''سٹریٹیجک ڈیپتھ‘‘ پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ بھارت نے اچھی خاصی سرمایہ کاری کی۔ مقصود صرف یہ تھا کہ وہاں پاکستان کے مفادات کو زک پہنچائی جائے۔ افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ طالبان دوبارہ برسرِ اقتدار آچکے ہیں۔ دو کٹھ پتلی حکومتوں نے جو گل کھلائے اُن کے پیدا کردہ تعفن سے آج افغانستان کا حال اِتنا بُرا ہے کہ لوگوں کے لیے سانس لینا دوبھر ہو چکا ہے۔ کروڑوں افراد کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ملک میں خوراک اور توانائی کے علاوہ صحت و تعلیمِ عامہ کی سہولتوں کا بھی شدید فقدان پایا جاتا ہے۔ امریکا اور اُس کے اتحادی افغانستان سے نکل چکے ہیں اور طالبان کا اقتدار قائم ہوچکا ہے مگر ملک کا حال پتلا ہے۔ ترقی و خوشحالی کا کیا ہی تذکرہ کہ بقا کی فکر سب سے زیادہ لاحق ہے۔ بھارت کی سرمایہ کاری بظاہر مٹی میں مل چکی ہے بنیا ذہنیت مگر خسارے کو قبول کرنے کو تیار نہیں، بھارتی قیادت بھی افغانستان میں حالات کی تبدیلی کو ہضم نہیں کر پائی۔
بھارت اور اس کے بعض حامی ممالک کی جانب سے علاقائی سلامتی یقینی بنانے کے حوالے سے مکالمہ شروع کرنے کے نام پر پاکستان کو دور رکھنے کی کوشش اب بھی جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تین ماہ قبل افغانستان سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا اور معاملات طالبان نے سنبھال لیے۔ ایسے میں علاقائی سلامتی کے حوالے سے کسی بھی سطح کے مذاکرات میں طالبان کا شریک کیا جانا ناگزیر ہے کیونکہ وہی سب سے بڑے سٹیک ہولڈر ہیں۔ پاکستان اور چین کی شرکت بھی ناگزیر ہونی چاہیے۔ علاقائی سلامتی سے متعلق مذاکرات کے دو ادوار ایران میں ہوئے جن میں چین بھی شریک ہوا۔ بھارت اس معاملے میں پیش پیش رہا۔ اب دہلی میں ڈول ڈالا گیا ہے۔ ''ریجنل سکیورٹی ڈائیلاگ‘‘ کے نام پر بھارت، روس، ایران، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، کرغیزستان اور قازقستان کے قومی سلامتی کے مشیروں نے دہلی میں ''جماؤڑا‘‘ کیا۔ نمائشی نوعیت کے اس مکالمے کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ طالبان کی آمد سے دنیا کو ڈرایا جائے اور علاقائی و عالمی سلامتی کو لاحق خطرات کا رونا روکر انتہا پسندی اور دہشت گردی کا راگ الاپا جائے، نیز افغانستان کے عوام سے محض دکھاوے کی ہمدردی جتاکر طالبان اور اُن کے ہم خیال سٹیک ہولڈرز کے علاوہ پاکستان کو بھی زیادہ سے زیادہ بدنام کیا جائے۔ دہلی میں ہونے والے اس مکالمے میں بھارت سے اجیت دوول، ایران سے ریئر ایڈمرل علی شمخانی، روس سے نکولائی پی پیٹروشیف، قازقستان سے کریم ماسیموف، کرغیزستان سے مرات مکانووچ ایمانکلوف، تاجکستان سے نصراللہ رحمت جان محمود زادہ، ترکمانستان سے چر میرات کلاکی ییوچ اماووف اور ازبکستان سے وکٹر محمودوف نے شرکت کی۔ اعلامیے میں اِس عزم کا اظہار کیا گیا کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی صورت دہشت گردی کے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ مطالبہ کیا گیا کہ افغانستان میں ایسی حکومت قائم کی جائے جس میں وہاں کی تمام نسلی برادریوں کی نمائندگی ہو۔ افغانستان میں انسانی المیے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ افغانستان کی زیادہ سے زیادہ مدد کی جائے اور امداد پورے ملک میں کسی بھی نوع کے امتیاز کے بغیر تقسیم کی جائے۔ جس برات کی بنیاد ایران نے ڈالی تھی‘ اب بھارت اُس کا دُلہا بننا چاہتا ہے۔ افغانستان کی سلامتی اور استحکام یقینی بنانے کی خاطر سوچنے کے لیے بیٹھک جمائی گئی دہلی میں۔ اس میں پاکستان کے شریک ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ افغانستان سے تو کسی کو بلانا ہی چاہیے تھا۔ یہ بھی نہ ہوا۔ چین نے بھی شرکت سے گریز کیا۔ جب بنیادی اور کلیدی سٹیک ہولڈرز ہی شریک نہ ہوں تو کسی بھی مکالمے کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔
ایک بار پھر افغانستان میں انتہا پسندی کے فروغ پانے اور دہشت گردوں کے پنپنے کا ہوّا کھڑا کرکے تمام علاقائی ممالک اور دنیا کی مقتدر قوتوں پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ افغانستان کو دبوچ کر رکھیں۔ افغانستان کو دبوچنا کیا معنی رکھتا ہے، اصل مسئلہ تو پاکستان اور چین کو مسلسل نرغے میں رکھنا اور خطے کے معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کا ہے۔ افغان بحران کا وہ حل تلاش کیا جارہا ہے جو معاملات کو بالکل ابتدائی سطح کی درستی کی طرف بھی نہیں لے جاسکتا۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت تسلیم کیے جانے تک وہاں کے معاملات درست کرنیکی کوئی بھی کوشش حقیقی کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتی۔ طالبان نے برسوں غیر معمولی قربانیاں دیکر ''پردیسیوں‘‘ کو نکال باہر کیا ہے مگر پھر بھی اپنے اُنہیں قبول نہیں کر رہے۔ اب علاقائی ممالک نسلی برادریوں کے حقوق کی دہائی دے رہے ہیں۔ دو عشروں تک افغانستان کے پشتونوں سے امتیازی سلوک روا رکھا گیا‘ تب یہ دہائیاں دینے والے کہاں تھے؟ اب اچانک دل میں درد کے نام پر پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھا ہے؟ افغانستان میں حقیقی امن و استحکام کا راستہ طالبان کو قبول کیے جانے سے نکلے گا۔