تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     13-11-2021

شفاف انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹیں

وزیر اعظم عمران خان اپنی تقاریر میں قوم کو باور کراتے رہتے ہیں کہ حق پر کھڑے شخص کی طاقت کو کبھی کم مت سمجھیں‘ ایک ایماندار ایس پی پورا ضلع ٹھیک کر سکتا ہے۔ وزیر اعظم کے ویژن کے برعکس پنجاب کے وزیراعلیٰ اور ان کی بیورو کریسی نے ڈسکہ ضمنی انتخابات میں منظم دھاندلی کروا کر آئندہ کے انتخابات کو مشکوک بنانے کی راہ ہموار کر دی ہے۔ اس سے پاکستان میں شفاف انتخابات کا تصور دھندلا گیا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق بیورو کریسی پولنگ کے عملے سے دھاندلی کروا کر من پسند جماعت کو برسرِ اقتدار لانے کی سازش میں برابر کی شریک ہوتی رہے گی۔ ڈسکہ ضمنی انتخابات دھاندلی رپورٹ میں مزید تین بیوروکریٹس کا مشکوک کردار سامنے آیا ہے اور مبینہ طور پر ان بیورو کریٹس کو وزیراعلیٰ پنجاب نے انعام کے طور پر پُرکشش عہدے دیے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی انکوائری رپورٹ میںقومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 میں اس سال فروری میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں منظم دھاندلی میں تین مزید عہدیداروں کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے‘ جن کا وزیراعلیٰ پنجاب سے قریبی تعلق بتایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب کے سپیشل سیکرٹری ہائر ایجوکیشن نعیم غوث نے پولنگ سے دو روز قبل 17 فروری کو ڈسکہ کے حلقے کا دورہ کیا اور گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین ڈسکہ کی پرنسپل کے دفتر میں محکمہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے 45 پریذائیڈنگ آفیسرز کے ساتھ میٹنگ کی جبکہ الیکشن کے قواعد و ضوابط کے مطابق پنجاب کے ہائر ایجوکیشن کے سپیشل سیکرٹری کے پاس انتخابی ڈیوٹی کے لیے تعینات اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ انکوائری رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ انہوں نے ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کالجز اور گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین کی پرنسپل کی موجودگی میں 45 پریذائیڈنگ آفیسرز سے ملاقات کی۔ ان کے ہمراہ وزیراعلیٰ آفس کے ڈپٹی سیکرٹری علی عباس بھی تھے۔ پنجاب سیکرٹریٹ سروس کے گریڈ 20 کے آفیسر نعیم غوث وزیراعلیٰ کے قریبی سمجھے جاتے ہیں، ان کا تعلق تونسہ شریف ڈیرہ غازی خان سے ہے جو وزیراعلیٰ کی آبائی تحصیل ہے۔ انہیں 2020ء میں ہائر ایجوکیشن کے خصوصی سیکرٹری کے طور پر تعینات کیا گیا تھا۔ اس سے قبل انہوں نے وزیراعلیٰ کے دفتر میں تقریباً دو سال ایڈیشنل سیکرٹری کے طور پر کام کیا۔ ڈسکہ ضمنی الیکشن کے پراسرار کردار ڈپٹی سیکرٹری علی عباس وفاقی حکومت کے آڈٹ اور اکاؤنٹس سروس کے آفیسر ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب کے دفتر میں تین سال سے زائد عرصے سے متعین ہیں ۔ اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ آصف حسین کی رہائش گاہ پر ہونے والی ملاقات میں علی عباس موجود تھے جس میں وزیراعلیٰ کی اُس وقت کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بھی شرکت کی تھی۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس ملاقات میں اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی سپرنٹنڈ نٹ پولیس سمبڑ یال نے یہ ہدایات جاری کیں کہ حکومت کی حمایت کریں، ووٹرز کو قومی شناختی کارڈ کی فوٹو سٹیٹ کاپیوں پر ووٹ ڈالنے کی اجازت دیں، اگر انہیں ڈپٹی ڈائریکٹر فرخندہ ماجد کا فون آتا ہے تو انہیں ان کی ہدایات پر عمل کرنا پڑے گا۔ اگر وہ ان سے پولنگ روکنے کا حکم دیں تو ان کا حکم ماننا پڑے گا۔ اگر باہر فائرنگ کے واقعات ہوتے ہیں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، ان کی حفاظت کے مؤثر انتظامات موجود ہیں۔ ووٹنگ کے عمل کو سست کریں۔ ڈسکہ شہر کے علاقے میں قائم پولنگ سٹیشن پر پولنگ کی شرح 25 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ پولنگ سٹیشن شام ساڑھے چار بجے پولیس کی مدد سے بند کر دیں۔ مزید برآں پریذائیڈنگ آفیسرز کو حکم دیا گیا کہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے کاموں میں مداخلت نہ کریں اور رزلٹ تبدیل کرنے کے لیے ان کو مکمل اختیارات دیے گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ علی عباس نے پریذائیڈنگ آفیسرز سے ملاقات میں ان کو دھمکیاں دیں اور سپیشل سیکرٹری نعیم غوث نے انتخابی عملے کو ''انسان بننا‘‘ سکھانے کی دھمکی دی اور کہا کہ ان کے ساتھ تعاون کریں ورنہ ان کی ٹرانسفر دور دراز کے علاقوں میں کر دی جائے گی۔ اسی طرح ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ ذیشان جاوید لاشاری ہیں جن کے ماتحت خاص طور پر ڈسکہ کے اسسٹنٹ کمشنر آصف حسین اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر فاروق اکمل اس ضمنی انتخاب میں دھاندلی کی کارروائی میں سرگرم پائے گئے۔
الیکشن کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں کیا یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ماضی میں جن انتخابات پر سوالیہ نشانات لگائے گئے ان کی پشت پر بیورو کریٹس کی ایسی ہی کوئی سازش کارفرما ہوتی رہی اور وہ اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے انتخابی عملے پر دھونس اور دباؤ کے ذریعے انتخابی نتائج تبدیل کراتے رہے جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ریٹرننگ آفیسرز کے ہاتھوں یرغمال بنتا رہا؟ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ مئی 2013ء کے انتخابات کے موقع پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنی پریس ریلیز میں واضح کر دیا تھا کہ ریٹرننگ آفیسرز اِن کے زیر اثر نہیں ہیں وہ انتخابی عمل کے سلسلے میں خودمختار ہیں۔ الیکشن کمیشن ان کے معاملات میں مداخلت کرنے کا روادار نہیں ہے، یہ بیان الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود رہا، جو بعد ازاں واپس لے لیا گیا۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ایک ایماندار ایس پی پورا ضلع ٹھیک کر سکتا ہے تو اسی فرمان کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈسکہ ضمنی الیکشن میں منظم دھاندلی کرنے، انتخابی عملے کو ہراساں کرنے اور رزلٹ میں تبدیلی کی سازش کے محرکات بننے والی بیورو کریسی کے خلاف ازخود نوٹس ابھی تک کیوں نہیں لیا گیا؟ وزیراعلیٰ پنجاب سے سرکاری طور پر باز پرس ابھی تک نہیں کی گئی کہ ان کا عملہ ڈسکہ الیکشن میں کیوں مداخلت کرتا رہا ہے اور ضلعی انتظامیہ کے گھروں میں کیا کرتے رہے ہیں؟ وزیراعظم کو خود کریڈٹ لینا چاہیے تھا کہ ان کے دورِ حکومت میں آزاد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی بنیاد رکھ دی گئی ہے، جس نے چشم کشا رپورٹ جاری کر کے انتخابات میں دھاندلی کے پس پردہ محرکات کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اگر وزیراعظم ایسا قدم اٹھاتے تو ان کی غیر جانبداری پر قوم رشک کرتی، لیکن اس کے برعکس ان کے ترجمان وزیراعظم کے وژن کے برخلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ پاکستان سیاسی طور پر اندرونی خطرات کی زد میں ہے اور موجودہ حکومت بین الاقوامی تناظر میں مثبت اقدامات کرنے کی اس لیے اہلیت نہیں رکھتی کہ اپوزیشن پارٹیوں نے وزیر اعظم کو مکمل طور پر بند گلی میں کھڑا کر دیا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے حالیہ اجلاس میں اعلیٰ عسکری حکام اور ملک کی سیاسی و پارلیمانی قیادت کو اہم خارجہ امور، داخلی سلامتی و اندرونی و بیرونی خطرات، تنازع کشمیر اور افغان صورت حال پر بریفنگ کے لیے بلایا گیا تھا۔ یہ انتہائی اہم اجلاس تھا مگر وزیراعظم اس میں شریک نہیں ہوئے۔ ان کی اس لاتعلقی سے ریاست کو زک پہنچی اور بین الاقوامی طور پر منفی پیغامات پہنچائے گئے جو کہ آئین کے آرٹیکل پانچ سے مطابقت نہیں رکھتے۔
وزیراعظم عمران خان لوکل گورنمنٹ سسٹم کو آئین کے آرٹیکل 140-A کے مطابق شاہراہ جمہوریت پر پہنچانا چاہتے ہیں لیکن اس کے برعکس ان کی وزارت خزانہ نے ابھی تک صوبہ خیبر پختونخوا میں 19دسمبر کو انتخابات کرانے کے لیے فنڈز جاری نہیں کیے‘ جس سے اس صوبے میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات تاخیر کا شکار ہونے کے خدشات لاحق ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved