ریمنڈ ڈیوس نے جب دو شہریوں کو قتل کیا تھا، اس کے بارے میں تو لبرلز نے اس شدّومد کے ساتھ مطالبہ نہیں کیا کہ اُسے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے، اس سے مقتولین کا قصاص لیا جائے اور اُسے نشانِ عبرت بنایا جائے۔ اُسے تو اعزاز کے ساتھ بری کر کے بحفاظت لاہور ایئر پورٹ پہنچایا گیا اور پھر خصوصی ہوائی جہاز میں وہ امریکا روانہ ہوا؛ پس تحریک لبیک کے کارکنوں کا جرم وہی ہے جو اکبر نے برطانوی استعمار کے دور میں کہا تھا:
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
ایک تبصرہ بار بار کیا جاتا ہے کہ سیاست میں مذہب کا استعمال ممنوع ہونا چاہیے، جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور کہتا ہے کہ تمام قانون سازی قرآن وسنّت کے تابع ہونی چاہیے، اس کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل، فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ جیسے آئینی ادارے قائم ہیں۔ دستور حکومت کو پابند کرتا ہے کہ وہ مسلمانانِ پاکستان کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے سہولتیں بہم پہنچائے۔ مسلمان کے لیے اسلام کا نام لینا صرف سیکولر ازم‘ لبرل ازم کی ''شریعت‘‘ میں حرام ہے، ہمارے دستور میں نہ صرف اس کی مکمل اجازت ہے، بلکہ یہ ناگزیر دستوری تقاضا ہے۔
جب میرا کوئی اور جرم سامنے نہ آیا توبعض حضرات نے اپنے وی لاگ میں کہا: ''اب مفتی منیب الرحمن تحریک لبیک کی قیادت کریں گے‘‘، گویا اُن کے نزدیک میں نے پُرامن معاہدہ کرانے میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ سیاسی مقاصد کے لیے تھا، تحریک لبیک کی قیادت حاصل کرنے کے لیے تھا، اس بدگمانی پر اظہارِ افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (1) ''اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچے رہو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں‘‘ (الحجرات: 12)، (2) ''جس چیز کا تمہیں علم نہیں، اس کی ٹوہ میں نہ لگ جائو‘‘ (بنی اسرائیل: 36)، رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ''تم بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے، دوسروں کی پوشیدہ باتوں کو جاننے کی کوشش نہ کرو، کسی کی بات سننے کے لیے کان نہ لگائو، ایک دوسرے سے بغض نہ کرو اور بھائی بھائی بن جائو‘‘ (صحیح بخاری: 5143)۔ عربی کا مقولہ ہے: ''(جب تک یقین یا ظنِّ غالب کی حد تک شواہد نہ ملیں) مومنوں کے بارے میں نیک گمان رکھو‘‘۔
پس میری جانب سے اپنے کرم فرمائوں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ میرا تحریک لبیک کی قیادت سنبھالنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، بالفرض اگران کی پوری مجلسِ شوریٰ مکمل رضا و رغبت سے مجھے ا س کی پیشکش کرے‘ تب بھی میری طرف سے مکمل اعتذار ہو گا، اسی طرح مجھے ان کا سرپرست یا پالیسی ساز بننے کا بھی کوئی شوق نہیں ہے۔ ان کا اپنا امیر ہے، اپنی شوریٰ ہے، اپنا نظم ہے۔ بس اتنی بات ہے کہ ہماری نظر میں اُن کا مشن مقدس ہے، ان کا موٹو تحفظِ ختمِ نبوت اور تحفظِ ناموسِ رسالت ہے، یہ ہر مسلمان کے دل کی آواز ہے، اس لیے اُن پر جب بھی کریک ڈائون کرنے اور نیست و نابود کرنے کی بات کی گئی تو میں نے اُن کی حمایت میں آواز بلند کی اور ریاست و حکومت کو کسی عاقبت نااندیشانہ اقدام کے تباہ کن نتائج پر متنبہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہر بار بلا ٹل گئی، یہ میرا دینی و مسلکی فریضہ تھا اور اس سے ملک وملّت کو فائدہ پہنچا، میں اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور سراپا تشکر و امتنان ہوں۔ ہمارے کرم فرمائوں کو اندازہ نہیں کہ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک پاکستانی مسلمان نہایت مضطرب تھے، اس معاہدے پر انہیں بے حد قلبی مسرّت نصیب ہوئی۔ یہ سب کی دعائوں کا ثمر تھا، الحمدللہ! نہ میں کسی خوش فہمی یا خبطِ عظمت میں مبتلا ہوں اور نہ اَنا کا اسیر ہوں۔
ہمارے ایک فلسفی کرم فرما نے سوال وجواب کی صورت میں ہمیں اپنی دانش سے فیضیاب کیا ہے۔ اُن سے گزارش ہے: ''ہم آپ سے متفق ہیں، ایک غلطی کو دوسری غلطی کا جواز نہیں بنانا چاہیے‘‘، لیکن سب لبرلز کو مل کر ایک مذہبی طبقے کو اپنی نفرت انگیز تنقید کا ہدف بھی نہیں بنانا چاہیے۔ پھر تحریک لبیک کو بعض حضرات نے ایسی تنظیموں سے مشابہت دی ہے، جن کا کردار تاریخ کا حصہ ہے۔ میں لاہور ؍ اسلام آباد کے اہلِ فکر و نظر سے پوچھتا ہوں : ''کیا آپ نے کبھی سنا کہ تحریک کا ڈیتھ سکواڈ یا ڈیتھ سیل یا بھتہ سیل ہے؟ کسی نے آکر آپ سے کہا: ''تحریک کے لوگ بھتہ مانگ رہے ہیں، وغیرہ‘‘، آپ کو یہ فرق بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔ صرف ''لبیک یا رسول اللہ!‘‘ کے نعرے سے کسی کو اختلاف ہے، تو اُسے ہم معذور سمجھتے ہیں۔
آپ مبہم باتیں نہ کریں، کیا تحریک لبیک ایک دہشت گرد تنظیم ہے، اُن کے ہزاروں لاکھوں کے اجتماعات ہوتے ہیں، کہیں آپ کو اسلحہ لہراتا ہوا نظر آیا، سب کو ایک لاٹھی سے نہ ہانکیں، انصاف پر مبنی باتیں کریں۔ نیز یہ بتائیں کہ دینی و سیاسی جماعتوں کے سڑکوں پر آنے اور دھرنا دینے کی نوبت ہمیشہ کیوں آتی ہے؟ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ حکومت پُرامن لوگوں کو قابلِ توجہ نہیں سمجھتی، ان کے جائز مطالبات کو سننے کی روادار نہیں ہوتی، حل کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ اس کا مجھے ذاتی تجربہ ہے، پُرامن تاریخی ریلی کے بعد بھی شکایات کا ازالہ نہیں کیا گیا۔ ہماری ہر دور کی حکومتوں کا بلا استثنا یہی رویہ رہا ہے کہ جب تک لوگ نظام کو جام نہ کر دیں، وہ ہرگز قابلِ توجہ نہیں ہوتے، سو‘ پچاس لبرل خواتین کے مظاہرے اور اُن کے مطالبات کو مین سٹریم میڈیا بار بار دکھائے گا، لیکن پُرامن مذہبی لوگوں کے ہزاروں لاکھوں کے اجتماع کا بلیک آئوٹ کیا جائے گا، یہ کون سی صحافتی یا اخلاقی قدر ہے۔
الحمدللہ علیٰ احسانہٖ! تحریکِ لبیک اور حکومتِ پاکستان کے درمیان معاہدے پر اب تک کی پیش رفت نہایت حوصلہ افزا ہے، تمام معاملات درست سَمت میں جاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، رکاوٹیں ہر کام میں پیش آتی ہیں، لیکن اُن سے دل شکستہ ہوکر حوصلہ ہارنے کے بجائے اُنہیں دور کرنا حوصلہ مند لوگوںکا کام ہوتا ہے۔ مشکلات کے آگے سِپر انداز ہونا اصحابِ عزیمت کا شِعار کبھی نہیں رہا۔ میں نے وزیر آباد جاکر مظاہرین سے خطاب کیا، انہیں اپنی قیادت سے وفادار رہنے اور اُن کی ہدایات کی بجا آوری کی تلقین کی، اُن سے گزارش کی کہ مین جی ٹی روڈ خالی کر دیں اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ تحریک لبیک کی قیادت اور کارکنان معاہدے میں طے شدہ تاریخ پر وزیر آباد میں مین جی ٹی روڈ کو خالی کرکے قریب ہی چٹھہ پارک میں منتقل ہو گئے، وہاں پُرامن و پُرسکون رہے، ''لبیک یا رسول اللہ ‘‘کے نعرے لگاتے رہے اور اپنے دلوں کو عشقِ مصطفی سے گرماتے رہے۔ پھر گزشتہ پیر کے دن انہوں نے وزیر آباد سے احتجاجی دھرنا ختم کیا اور پُرامن طریقے سے جامع مسجد رحمۃ للعالمین لاہور کی طرف عازمِ سفر ہو گئے۔ وہاں وہ علامہ خادم حسین رضوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے عرس کے انعقاد تک موجود رہیں گے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد ہے اور توقع ہے کہ امیر تحریک لبیک علامہ حافظ سعد حسین رضوی اس سے پہلے رہا ہو کر آ جائیں گے اور عرس کے موقع پر مرکزی خطاب کریں گے۔ اس کے بعد تحریک لبیک کی مجلسِ شوریٰ اور مرکز سے لے کر صوبائی، ضلعی اور تحصیل سطح تک کے عہدیداران اپنی جماعتی نظم پر توجہ دیں گے، کارکنوں کی تربیت کریں گے، ان تمام مراحل اور تجربات سے کارکنوں کو آگاہ کریں گے اور سب کو اعتماد میں لیں گے۔
اسے اللہ تعالیٰ کا فضل، ختم المرسلینﷺ کا فیضان، علامہ خادم حسین رضوی کا اخلاص اور ان کی کرامت جانیں اور عشقِ مصطفیﷺ کی حرارت سمجھیں کہ ان تمام مراحل سے گزرنے کے باوجود ان کے جذبے بدستور جوان ہیں۔ میں نے وزیر آباد کے خطاب میں کہا تھا: ''علامہ خادم حسین رضوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کارکنوں کے دلوں میں عشقِ رسالت کی ایسی شمع فروزاں کی ہے جس کی تابانی کبھی ماند نہیں پڑے گی اور انہیں اس طرح چارج کیا ہے کہ اب وہ ''آٹو چارج‘‘ اور ''سیلف سٹارٹ‘‘ہیں۔ انہیں ریچارج کرنے کی ضرورت نہیں ہے، موسم کی شدّت و حِدّت بھی ان کے جذبوں کو ماند نہیں کر پاتی۔ شاعر نے فطرتِ اسلام کی بہترین ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے:
اسلام زمانے میں، دبنے کو نہیں آیا
تاریخ سے یہ مضموں، ہم تم کو دکھادیں گے
اسلام کی فطرت میں، قدرت نے لچک دی ہے
اُتنا ہی یہ ابھرے گا، جتنا کہ دبا دیں گے
مولانا الطاف حسین حالی نے کہا ہے:
اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
مِسِ خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا
''مِسِ خام کو کُندن بنانے‘‘ کے معنی ہیں: ''کچی دھات (مثلاً خام سونے)کو بھٹی میں ڈال کر اور کھوٹ نکال کر خالص اور کھرا سونا بنایا۔ مولانا حالی نے علم، تہذیب، شائستگی اور اعتقادِ خالص سے عاری انسان کو خام دھات سے تشبیہ دی اور یہی خام دھات جب عشقِ رسالت کی بھٹی میں ڈھل گئی تو انسانی شاہکار وجود میں آئے؛ چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''لوگوں کی مثال کانوں کی سی ہے، جیسے سونے اور چاندی کی کانیں ہوتی ہیں، ان میں سے زمانۂ جاہلیت میں جس میں کوئی جوہر کمال تھا‘ اسلام قبول کرنے اورحقیقتِ اسلام کو سمجھنے کے بعد وہ انسانیت کے بہترین نفوس بن گئے‘‘ (صحیح مسلم: 2638)۔ الغرض خام کو پختہ کر دیا، بے کمال کو باکمال بنا دیا اور باکمال کو اوجِ کمال پر پہنچا دیا۔