تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     14-11-2021

حکومت، اتحادی اور نئے گھونسلے

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو قائم ہوئے سوا تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد تحریک انصاف کو وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں اور سیاسی الائنس کی حمایت حاصل کرنا پڑی۔ عمران خان وزیر اعظم تو بن گئے اور پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اپنی حکومتیں بھی قائم کر لیں لیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ پاکستانی عوام کی خان صاحب سے جو توقعات وابستہ تھیں اور جو خواب خان صاحب نے کنٹینروں پر کھڑے ہو کر عوام کو دکھائے تھے، وہ پورے نہیں ہو سکے۔ وزیر اعظم اور ان کے رفقا اس ساری صورت حال کا ذمہ دار پچھلی حکومتوں کو ٹھہراتے ہوئے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی دو تہائی اکثریت نہ ہونے کا درد سناتے ہیں۔ اور تو اور اپنی حکومت قائم کرنے میں مددگار اتحادیوں پر بھی انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ شاید میری بات سیاست دانوں کو بری لگے لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ مختلف اشاروں کے منتظر حکومت کے اتحادی عام طور پر اتحادی کم اور موقع پرست زیادہ ہوتے ہیں۔ جب تک مراعات ملتی رہیں یہ خوش رہتے ہیں‘ لیکن حکومت مخالف ہوائیں چلنے لگیں تو یہ اتحادی بھی پر تولنے لگتے ہیں۔ اب اگر موجودہ حالات میں تحریک انصاف کے اتحادی‘ حکومت کی کشتی کو ممکنہ طور پر کسی بھنور میں پھنستا دیکھ کر یا اس کی روز بروز بڑھتی ہوئی مشکلات کا اندازہ لگا کر، کسی دوسری طرف کودنے کی تیاری کر رہے ہیں تو اس میں حیرانی والی تو کوئی بات نہیں۔ دوسری طرف موجودہ صورت حال میں سارا الزام ان اتحادیوں کو دینا بھی زیادتی ہو گی، اتحادیوں کو ساتھ رکھنا بھی ایک فن ہے، جس سے تبدیلی سرکار شاید عاری ہے۔
سال کے گیارہویں مہینے کی گیارہ تاریخ کو جمعرات کے دن گیارہ بجے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہونا تھا، جو نہیں ہو سکا۔ حکومت نے ایک دن پہلے اس اجلاس کو مؤخر کر دیا اور وجہ یہ بتائی کہ اپوزیشن کو وقت دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ قانون سازی میں مؤثر کردار ادا کرے۔ اس مقصد کے لیے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اپوزیشن رہنماؤں سے رابطے میں رہیں گے۔ حکومت کے اس جواز کو کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں کہ اپوزیشن کی خاطر اتنا اہم اجلاس مؤخر کیا گیا ہے۔ دوسری طرف سب لوگ جو بات ماننے کو تیار ہیں وہ یہ ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کے الیکٹرانک ووٹنگ مشینز یعنی ای وی ایم کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں۔ یہی نہیں کچھ اور معاملات کی بنا پر بھی حکومت اور اتحادیوں میں دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ ایسے میں اتحادیوں کی جانب سے حکومت کی مجوزہ قانون سازی کی مخالفت کے ڈر سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو مؤخر کیا گیا ہے۔ حکومت کی بڑی اتحادی جماعتوں میں مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم شامل ہیں، اس کے علاوہ سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے)بھی حکومت کا اتحادی ہے۔ ان سب اتحادیوں کے رہنما مختلف معاملات پر اپنے خدشات کا برملا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ مسلم لیگ ق کے سینیٹر کامل علی آغا کھل کر بات کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتے۔ وہ میڈیا کے سامنے کہہ چکے ہیں کہ حکومت کبھی بھی کسی موضوع پر ان کی جماعت سے مشاورت نہیں کرتی، مسلم لیگ ق کو حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے بھی تحفظات ہیں‘ اس حکومت کے اتحادی ہوتے ہوئے آئندہ الیکشن میں ان کے لیے اپنے ووٹرز کا سامنا کرنا آسان نہیں ہو گا‘ ایسے میں حکومت کے ساتھ کھڑے رہنا اتحادیوں کے لیے ایک مشکل امر بنتا جا رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا ایک وفد مسلم لیگ ق کے رہنماؤں سے ملاقات کرکے ان سے حکومت سے الگ ہونے کی درخواست بھی کرچکا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کی سربراہی میں مسلم لیگ ق کی سینٹرل کمیٹی بھی اس امر پر غور کررہی ہے کہ حکومت کے ساتھ کتنے عرصے تک اور کس طرح چلنا ہے۔ پنجاب حکومت کے رویے پر بھی مسلم لیگ ق کو تحفظات ہیں۔ ایم کیو ایم بھی حکومت کی کارکردگی سے خوش نہیں۔ وہ حکومت کے ساتھ تو ضرور ہے لیکن حکومت کی نااہلی کا بوجھ اپنے سر لینے کو تیار نہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتحادیوں کے بہت سے مسائل ہیں اور ان کا اظہار وہ حکومت سے کئی بار کرچکے ہیں‘ مہنگائی کا جواب حکومت کو دینا ہے، ہم پر مہنگائی کا بوجھ نہیں آنا چاہیے‘ حکومت کو اپنی نا اہلی تسلیم کرنی چاہیے‘ حکومت نے سنجیدہ فیصلے نہ کیے تو بے چینی مزید بڑھے گی۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں کی باتوں سے یہ واضح ہے کہ بے چینی بڑھ چکی ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید اپنی جماعت عوامی مسلم لیگ کے سربراہ ہیں۔ وہ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک بڑے دھڑلّے سے کہتے رہے ہیں کہ عمران خان پانچ سال پورے کریں گے۔ وہ اب بھی یہی کہتے ہیں‘ لیکن ان کی بات میں پہلے سا دم خم نظر نہیں آتا۔
کسی بھی حکومت کے لیے اپنے اتحادیوں کو ہر حال میں خوش رکھ کر ساتھ لے کر چلنا آسان کام نہیں ہوتا۔ مسلم لیگ ق کی بات کریں تو وہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی روایتی سیاسی جماعت ہے۔ ہر روایتی سیاسی جماعت اپنی جڑیں نظام میں مضبوط رکھنے کے لیے ووٹر سے زیادہ دوری برداشت نہیں کر پاتی۔ منتخب نمائندے اسمبلیوں میں ہوں تو ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ جن سے ووٹ لیا ہو ان کی طرف سے جواب دہی ہوتی ہے اور اگلے الیکشن میں ووٹ مانگنے سے پہلے اپنی کارکردگی کا ثبوت بھی دینا پڑتا ہے۔ ایسے میں مسلم لیگ ق کے کیمپ سے جن تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے، انہیں بے جا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایم کیو ایم سندھ میں اپنا اثر و رسوخ رکھنے والی جماعت ہے، مختلف دھڑے بندیوں اور کچھ سیاسی پریشانیوں کے باعث مشکلات کا شکار ہے، اس کے باوجود اپنے ووٹرز کی نمائندہ ہونے کی دعوے دار ہے اور حیثیت میں ان کے مسائل کے حل بھی چاہتی ہے۔
ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے کئی سوالیہ نشان ہیں۔ حکومتی ترجمانوں کی بات سنیں تو وہ یہی کہتے ہیں کہ ملک معاشی طور پر درست سمت میں جا رہا ہے۔ مہنگائی پر سوال کریں تو وہ دنیا بھر کی مثالیں دینا شروع کر دیتے ہیں کہ مہنگائی تو سب جگہ ہے پاکستان مریخ پر تو واقع نہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو تو اس کی ذمہ دار پچھلی حکومتیں نکل آتی ہیں۔ سردیوں میں گیس نہیں آئے گی تو اس میں بھی موجودہ حکومت بالکل قصور وار نہیں، ڈالر اب اپنی اصل قیمت پر ہے پچھلی حکومتوں نے مصنوعی طریقے سے ڈالر کو سستا رکھا ہوا تھا۔ عام آدمی کے لیے گھر چلانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اور حکومت کے پاس سوائے اپوزیشن سے الجھنے یا ماضی کی حکومتوں پر ملبہ ڈالنے کے بظاہر کوئی دوسرا کام نظر نہیں آتا تھا۔ اتحادی تین سال اس حکومت کے ساتھ جیسے تیسے کرکے گزار چکے ہیں۔ اگلے دو سال بھی اس حکومت کے ساتھ کھڑے رہے تو بقول ان کے الیکشن میں کہیں کھڑے ہونے کی جگہ مشکل سے ہی مل پائے گی۔ اپوزیشن کے آپس میں تیز ہوتے رابطے اس بات کا عندیہ ہیں کہ جلد یا بدیر وہ حکومت کے اتحادیوں کو بھی توڑنے کی کوشش کریں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved