تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     14-11-2021

گلے میں پڑا ہار

جمعرات کی رات والے سیمی فائنل کی سنسنی ابھی تک جسم میں دوڑ رہی ہے۔ یہ الگ بات کہ پاکستانی ٹیم کا فائنل میں پہنچنے کا خواب پورا نہ ہوا۔ یہ الگ بات کہ آخری اوورز نے میچ کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ یہ الگ بات کہ ہم پاکستانیوں کی ٹرافی اٹھانے اور اپنے گھر لانے کی تصویر کرچی کرچی ہوگئی۔ اور یہ الگ بات کہ سالہا سال کے بعد پاکستانی کرکٹ کو عروج پر دیکھنے سے قوم کی جو توجہ بہت سے سنگین مسائل کی طرف سے ہٹ گئی تھی، اسے اب حقیقتوں کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ بات یہ ہے کہ کھیل کو اب لوگ دل پر اس طرح لے لیتے ہیں جیسے ذاتی زندگی میں بڑا فائدہ یا ناکامی ہوگئی ہو۔ بیشمار لوگوں کو روتے دیکھا گیا اور ان بچوں کو سنبھالنا مشکل ہوگیا جو زاروقطار رو رہے تھے۔ والدین خود دل شکستہ تھے‘ سو بچوں کو سنبھالنے سے پہلے انہیں خود کو سنبھالنا پڑ رہا تھا۔
لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ ورلڈ کپ ٹی ٹونٹی بہت سے اعتماد ہمیں واپس کرگیا جن کی ہمیں شدید ضرورت تھی۔ کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والے ایک عام پاکستانی کا اپنی کرکٹ ٹیم پر بھرپور اعتماد بہت مدت بعد بحال ہوا۔ اب اس کارکردگی کے بعد ہر پاکستانی کو یہ اعتماد ہے کہ ان کی ٹیم بین الاقوامی ٹیموں کے ہم پلہ ہی نہیں ان سے کم از کم ٹی ٹونٹی فارمیٹ میں آگے ہے اور کسی بھی بڑے ٹورنامنٹ کو جیتنے کی اہل ہے۔ یہ اعتماد واپس آیا ہے کہ ہماری ٹیم بھارت کی ٹیم پر فائق ہے اور ٹی ٹونٹی میں اسے پچھاڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ باقی ٹیموں کا معاملہ الگ لیکن تنہا بھارت کو ایسی شکست دینا جو اس سے پہلے ورلڈ کپ مقابلوں میں کبھی اس نے نہیں چکھی تھی پاکستانیوں کو خوش کرنے کیلئے کافی ہے۔ پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ پر یہ اعتماد بحال ہوا ہے کہ وہ سیاست کے گند سے نکل کر کھیل کے معیار پر توجہ دے رہا ہے اور سفارش اور پرچی کی جو بازگشت سنی جاتی رہی ہے اور نالائقوں کا انتخاب جو بڑے ٹورنامنٹس اور بڑی ٹیموں کے خلاف مقابلوں میں قوم کو شرمندہ کرایا کرتا تھا، اس کا عمل دخل اب کم ہے یا نہیں ہے۔ یہ اعتماد بھی واپس آیا ہے کہ ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں اور کسی خاص علاقے اور کسی خاص طبقے کی اہمیت نہیں بلکہ اہمیت کارکردگی کی ہے۔ پچاس اوورز اور بیس اوورز کے مقابلوں کی جو غیرمعمولی مقبولیت عوام میں ہے، اس نے ہر ملک کے کرکٹ کنٹرول بورڈ کو جہاں بہت مالدار بنا دیا ہے‘ وہیں ان کیلئے بہت سی آزمائشیں بھی پیدا کردی ہیں۔ اب سفارش، اقربا نوازی اور پرچی پر عمل کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے کیونکہ جب ایسا لڑکا میدان میں اترے گا اور میدان بھی بڑے مقابلوں کا، تو ظاہر ہے کہ وہ کارکردگی نہیں دکھا سکتا‘ اور کارکردگی کی عدم موجودگی میں انتخاب کنندہ اور سفارش کنندہ کو محض شرمندگی ہی نصیب ہوگی۔ اب یہ معاملہ ایک دو میچوں کا نہیں بلکہ مسلسل اور ہموار کارکردگی کا ہے۔ کسی کی کارکردگی جانچنے کے اتنے بہت سے پیمانے وضع ہو چکے کہ خرابی پر پردہ ڈالنا ممکن ہی نہیں رہا۔ اس پر مزید یہ کہ اب کئی غیرملکی سابق کھلاڑی‘ جو ٹیم کے کوچ بھی ہوتے ہیں، معاملات کے چشم دید گواہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ سفارش اور اقربا پروری کے پروردہ نہیں ہوتے اس لیے کوئی بھرتی کا آدمی چھپ ہی نہیں سکتا۔ نیٹ پریکٹس ہی میں کھرے کھوٹے کا پتہ چل جاتا ہے۔ یہ کرکٹ کی غیرمعمولی مقبولیت ہی کا اعجاز ہے‘ ورنہ ہمارے کھیلوں میں سیاست کے عمل دخل کا کس کو علم نہیں ہے۔ اس خوش آئند بات کو دیکھتے ہوئے یہ حسرت بھی ہوتی ہے کہ ہمارے دوسرے کھیلوں میں جو زوال اور پستی ہے وہ بھی اسی طرح دور ہوسکے۔ مثلاً قومی کھیل ہاکی کا جو حال ہے کہ ہم جو کئی بار کے اولمپکس چیمپئن رہے ہیں، اب اس بڑے مقابلے میں شمولیت کے بھی اہل نہیں رہے‘ اس کیلئے بھی مطلوبہ معیار موجود نہیں ہے۔ بظاہر وجہ یہی ہے کہ جو ابتری ہاکی بورڈ میں ہے، اس پر رونے اور احتجاج کرنے والے بھی کم کم ہیں۔ سکول کالج کی سطح پر ہاکی ختم ہوتی گئی‘ نرسریاں ختم ہوتی گئیں‘ کھلاڑی پیدا ہونے بند ہو گئے؛ چنانچہ عام لوگوں میں بتدریج ہاکی کی مقبولیت کم ہوتی گئی۔ اگر یہ بھی عام آدمی کے لیے کرکٹ کی طرح زندگی موت کا معاملہ بن جاتا تو قوم کوشرمندہ کروانے والوں کی یہ من مانی بھی ختم ہوجاتی۔
ہاکی کا مرثیہ اپنی جگہ لیکن ابھی بات کرکٹ کی‘ اور پہلے پاکستانی ٹیم کی مجموعی کارکردگی کی۔ ابتدائی میچ سے سیمی فائنل تک ٹیم ناقابل شکست رہی اور تمام ٹیموں میں واحد ٹیم ثابت ہوئی جس نے اپنے پانچ کے پانچ میچ جیتے تھے۔ کچھ بیٹسمین جیسے بابر اعظم، رضوان تو ٹیم کا افتخار رہے جنہوں نے غیرمعمولی بیٹنگ کی اور سب سے زیادہ رنز بنانے والے دو بیٹسمین ثابت ہوئے۔ اسی طرح کچھ باؤلر جیسے شاہین شاہ آفریدی ٹورنامنٹ میں بہت نمایاں تھے لیکن مجموعی طور پر ان چھ میچوں میں ٹیم کے ہر ایک رکن نے اپنی اہمیت کسی نہ کسی طرح ثابت کی۔ ایک میچ میں کوئی زیادہ نمایاں رہا، دوسرے میچ میں کوئی اور‘ لیکن یہ طے ہوگیا کہ ہر ایک اپنی جگہ ٹیم میں شامل ہونے کا اہل تھا۔ اسی طرح محمد آصف اور محمد رضوان کی پرفارمنس یہ ثابت کرتی ہے کہ متوسط اور دیہی طبقات میں بھی اگر ہنر موجود تھا تو اسے اسی بنیاد پرجگہ دی گئی ہے‘ اور اس ہنر نے اپنا انتخاب درست ثابت کیا ہے۔ حارث رؤف ہوں یا شعیب ملک‘ محمد حفیظ ہوں یا عماد وسیم‘ ان سب نے مختلف میچوں کے مختلف اہم مراحل میں اپنی اپنی افادیت ثابت کی ہے۔ حسن علی اس بار رنگ میں نظر نہیں آئے اور انہوں نے نو بال بھی کافی کروائے لیکن پاکستانی ٹیم کیلئے ان کے جو ماضی کے کارنامے ہیں انہیں بہرحال فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
ایک خاص بات‘ جسے دیکھ کر ہر پاکستانی کو خوشی ہوئی، پوری ٹیم کا رویہ تھا۔ وہ بہترین کھلاڑیوں کے طور پر ابھرے تھے، لیکن انہوں نے فتح کے جشن منانے سے پرہیز کیا۔ بہت پُروقار اور سلجھے ہوئے انداز میں خوشی کا اظہار کیا۔ ہاری ہوئی ٹیموں سے فاتحین کا نہیں بلکہ دوستانہ رویہ رکھا۔ اسی طرح وہ میچ جیتنے کے بعد نمیبیا اور سکاٹ لینڈ کی ٹیموں کے ڈریسنگ رومز میں گئے، ان کے کھیل پر ان کی تعریف کی اور دوستانہ انداز اختیار کیا۔ یہ بات اتنی متاثر کن تھی کہ دوسری ٹیموں نے بھی یہ طریقہ اختیار کیا۔ میچ جیتنے یا سیمی فائنل ہارنے کے بعد بھی ڈریسنگ روم میںکپتان بابر اعظم اور کوچ وغیرہ کی جو گفتگو ریکارڈ ہوکر سامنے آئی وہ بہت سلجھے ہوئے ذہنوں کی نشاندہی کرتی ہے اور بڑے اور کشادہ دل کھلاڑی ہی ایسا کیا کرتے ہیں۔
سیمی فائنل اور ٹورنامنٹ پر ہر طرف سے تبصرے سامنے آرہے ہیں۔ ایک عام شائق نے ٹیم کے ہارنے پر عام طور پر وہ تلخ تبصرے نہیں کیے جو ماضی میں ہوتے رہے ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ سب کو نظر آیا کہ ٹیم لڑ کر جیتی اور ہاری بھی تو لڑکر ہاری۔ باقی ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہوا کرتے ہیں۔ مسئلہ پہلے یہی ہوا کرتا تھا کہ ٹیم کی جان لڑا دینے کی کوشش سامنے نہیں آتی تھی تو ان کی ہار ان کے گلے پڑ جاتی تھی۔
آپ ٹیم کی واحد ہار کو کیا کہیں گے؟ گلے میں پڑی ہوئی ہار، یا گلے میں پڑا ہوا ہار؟ میں تو اس ہار کو گلے میں پڑا ہوا ہار سمجھتا ہوں۔ تمغے کی طرح۔ اور یہ مجھے پاکستانی ٹیم کی کارکردگی نے سمجھایا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved