تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     14-11-2021

حکومتی کارکردگی اور انتخابی آزمائش

خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے ہنگامے نے حکمران جماعت کی سیاسی بقااور اخلاقی ساکھ کیلئے کڑی آزمائش کے اسباب پیدا کر دیے ہیں۔ابتدا میں گورنمنٹ نے عدالتی حکم کی تعمیل میں خود الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر جس طرح دو مرحلوں میں بلدیاتی الیکشن کرانے کی تجویز دی تھی الیکشن کمیشن نے اس میں مناسب ترمیم کرکے حکومت کے وضع کردہ طریقہ کار کی بجائے اپنی سکیم کے مطابق انتخابی شیڈول جاری کرکے گورنمنٹ کو مشکل میں ڈال دیا۔صوبائی گورنمنٹ چاہتی تھی کہ پہلے مرحلہ میں 15 دسمبر تک صوبہ بھر میں ویلج اور نیبرہڈ کونسلوں کے غیر جماعتی بنیادوں پہ انتخابات کرانے کے بعد مارچ2022 ء میں تحصیل چیئرمین کے الیکشن جماعتی بنیادوں پہ منعقد کرائے جائیں تاکہ وہ صوبہ بھر میں اپنے تحصیل چیئرمین منتخب کرانے کیلئے نیبرہڈاور ویلج کونسلوں کے کامیاب امیدواروں کی حکومتی وسائل کے ذریعے حمایت حاصل کر سکیں‘ لیکن الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کو سرکاری جبر سے بچانے اور شفافیت قائم رکھنے کی خاطر پہلے مرحلہ میںخیبرپختونخوا کے 17 اضلاع میں 15 دسمبر کو ویلج کونسل‘ نیبرہڈ اور تحصیل چیئرمین کے انتخابات ایک ہی دن منعقد کرانے کا شیڈول جاری کرکے حکومتی عزائم کی راہ روک لی۔دریں اثنا پشاور ہائی کورٹ نے شہری کی درخواست پر نیبرہڈ اور ویلج کونسلوں کے انتخابات بھی جماعتی بنیادوں پہ کرانے کا فیصلہ صادر کرکے گورنمنٹ کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا۔پہلے تو صوبائی حکومت نے عدالتی فیصلہ کو جواز بنا کر بلدیاتی الیکشن کوالتوا میں ڈالنے کیلئے ہاتھ پاؤں مارے لیکن الیکشن کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں ترمیم شدہ شیڈول جاری کرکے الیکشن کے انعقاد کے حوالہ سے پائی جانے والی بے یقینی کو رفع کر دیا تو صوبائی حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا تاہم اس سب کے باوجود بڑے قومی رہنماؤں کے علاوہ نچلی سطح کے سیاسی کارکن انتخابی عمل میں حصہ لینے کی خاطر نجی روابط اور سوشل میڈیا کے ذریعے تشہیری مہمات شروع کرکے پوری سوسائٹی کو متحرک کر چکے ہیں۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ رواں بلدیاتی الیکشن پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت اوربالخصوص صوبائی حکومت کی کارکردگی کا کڑا امتحان ثابت ہوں گے۔پچھلے ساڑھے تین سال میں تیزی سے بڑھتا ہوا سیاسی عدم استحکام‘ہوشربا مہنگائی‘ بے روزگاری اور گورننس کی خامیوں نے وفاقی حکومت کی ناکامی کے تاثر کو گہرا کیا۔بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتیں بھی کچھ ڈیلیور نہ کر سکیں اگر ان دونوں صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کچھ بہتر ہوتی تو کافی حد تک وفاقی حکومت کی کمزوریوں کا مدوا ہو سکتا تھا۔لاریب‘پرویز خٹک کی قیادت میں تشکیل پانے والی پی ٹی آئی کی پچھلی حکومت کے دوران اصلاحاتی عمل کے دوام کی خاطر مؤثر قانون سازی کے علاوہ گورننس کا دھارا بھی فعال تھا‘خاص کر صحت اور تعلیم کے شعبوں کی بحالی کیلئے سنجیدہ کوششیں کی گئیں‘ جس سے اگرچہ کوئی بڑی تبدیلی تو رونما نہ سکی لیکن اس مساعی کی بدولت زوال کا وہ مہیب عمل رک گیاجس نے مغربی سرحدوں سے منسلک اس حساس صوبہ کے بنیادی ڈھانچہ کو اجاڑ کے رکھ دیا تھا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پرویز خٹک پختہ کار اور منجھے ہوئے سیاستدان ہونے کے علاوہ انتظامی امور کا وسیع تجربہ رکھتے تھے‘وہ اپنے پارٹی ارکانِ اسمبلی کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں کے ایم پی ایز کو بھی ساتھ لے کر چلنے کی مہارت سے بہرہ ور تھے۔سب سے بڑھ کر خود مختار وزیراعلیٰ کی طرح صوبائی حقوق کے تحفظ کیلئے وفاقی حکومتوں کو مینج کرنے میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔دوہزارچودہ کی شدید پولرآئزیشن کے باوجود انہوں نے نوازشریف جیسے مقتدر وزیراعظم کے ساتھ ہموار کوآرڈی نیشن پیدا کرکے اپنے صوبائی مفادات کا کامیابی سے دفاع کیا۔اس کے برعکس محمود خان ڈھنگ سے انتظامی امور چلا سکے نہ انہیں صوبائی مفادات کا ادراک ہے ‘وہ علاقائی حقوق کی بازیابی کا ہنر بھی نہیں جانتے‘ان کی اسی لاپروائی کے باعث پورے انتظامی ڈھانچہ پہ بے یقینی سایہ فگن رہی۔اس وقت باہمی گروپ بندی کی وجہ سے صوبائی کابینہ غیر فعال اور فیصلہ سازی کا عمل مفقود ہے‘ایک ایسے وقت میں جب مرکز اور صوبہ میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہونے کے باعث وفاق کے ساتھ جڑے حقوق کا حصول قدرے آسان تھا محمود خان بوجوہ صوبائی مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری نبھانے سے پہلو بچاتے رہے۔وزیراعلیٰ محمود خان نے اپنے پاور اینڈ انرجی کے مشیرحمایت یار کو اس لئے عہدہ سے ہٹا دیا کہ انہوں نے وفاقی حکومت سے خیبر پختو نخوا میں پیدا ہونے والی بجلی اور گیس پہ متعین کردہ ایکسائز ڈیوٹی اورکروڈ آئل کے اس منافع کا تقاضاکیا جسے اٹھارہویں ترمیم میں آئینی تحفظ دیا گیا ہے۔
اس وقت سندھ کے بعد خیبر پختونخوا گیس پیدا کرنے والا دوسرا بڑا صوبہ ہے‘جہاں گرگری‘محرمزئی اور ٹل سمیت ہنگو سے یومیہ500 ایم ایم سی ایف ڈی گیس مہیا ہوتی ہے‘سندھ 2000 ایم ایم سی ایف ڈی‘بلوچستان650 ایم ایم سی ایف ڈی اور پنجاب90 ایم ایم سی ایف ڈی یومیہ گیس پیدا کرتا ہے۔خیبر پختونخوا چار لاکھ بیرل یومیہ تیل پیدا کرنے والا صوبہ ہے‘ملک میں کروڈ آئل کی مجموعی کھپت ساڑھے سات لاکھ بیرل یومیہ ہے‘حکومت ملکی ضرورت پوری کرنے کیلئے کم و بیش سوا تین لاکھ بیرل کروڈ آئل درآمد کرتی ہے‘ پاکستان کا 25 بلین ڈالر پہ مشتمل سب سے بڑا امپورٹ بل اسی کا بنتا ہے‘اٹھارہویں ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل161 میںترمیم کے بعد ایک ہزار روپیہ فی بیرل کے حساب سے ایکسائز ڈیوٹی ان صوبوں کو دینے کا اصول تسلیم کیا گیا جہاں کروڈ آئل پیدا ہوتا ہے‘اس طرح خیبر پختونخوا کا پانچ کروڑ یومیہ کے حساب سے18 ارب روپے سالانہ کی ایکسائز ڈیوٹی بنتی ہے‘صرف اسی مد میں وفاق کے ذمہ خیبر پختونخوا کا پچھلے دس سالوں کا تین کھرب چھ ارب روپیہ واجب الادا ہے‘جس کا تقاضا بوجوہ ہماری صوبائی لیڈر شپ نہیں کر سکی۔اس کے علاوہ گیس کی اوسط قیمت(WACOG) کا ایشو بھی پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔خیبر پختونخوا میں پیدا ہونے والی گیس کی قیمت چار ڈالر فی برٹش تھرمل یونٹ(MMBTU) بنتی ہے جبکہ باہر سے درآمد کی جانے والی ایل این جی‘ جو نوازلیگ کے دور میں 10 ڈالر فی یونٹ کے حساب سے خریدی جاتی رہی‘اس بار حکومت نے 30 ڈالر فی یونٹ خریدی۔وفاقی حکومت چار ڈالر اور 30 ڈالر فی یونٹ کے حساب سے خریدی جانے والی گیس کو یکجا کرکے اس کی اوسط قیمت 34 ڈالر فیMMBTUمقرر کرکے اسے دو پہ تقسیم کرکے پنجاب اور باقی صوبوں کو 17 ڈالر فی یونٹ کے حساب سے گیس کی فراہمی کا فارمولہ پیش کر چکی ہے لیکن اس وقت گیس پیدا کرنے والے صوبے (سندھ‘بلوچستان اورخیبرپختونخوا ) مشترکہ مفادات کونسل میں WACOG فارمولا کو قبول کرنے سے اجتناب کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ خیبر پختونخوا اس وقت 500 ایم ایم بی ٹی یو گیس پیدا کرتا ہے جبکہ اس کی اپنی کھپت 250 ایم ایم بی ٹی یو روزانہ کی ہے لیکن اپنی پیدوار پہ منافع دینے کی بجائے وفاق اسے اپنی چار ڈالر فی یونٹ کے حساب سے پیدا کردہ گیس بھی17 ڈالر فی یونٹ فروخت کر رہا ہے لیکن صوبائی حکومت اور علاقائی جماعتیں صوبائی حقوق ومفادات کے تحفظ کی بجائے جماعتی مفادات اور اپنی بے اختیار حکومتوں کے دوام کی خاطر نہایت خاموشی کے ساتھ صوبائی مفادات سے دستبردار ہو جاتی ہیں۔کچھ ایسی ہی صورتحال ہمیں بجلی کی پیدوار کے حوالہ سے بھی درپیش ہے‘اس وقت خیبرپختونخوا20 ارب یونٹ سالانہ سستی بجلی پیدا کرنے والا صوبہ ہے‘صرف تربیلا ڈیم سے 87 پیسے فی یونٹ کے حساب سے 18 ارب یونٹ سالانہ سستی بجلی نیشنل گرڈ کو مہیاکی جاتی ہے لیکن بجلی فروخت کرنے والی کمپنیاں یہی 87 پیسے فی یونٹ والی بجلی خیبر پختونخوا کو 23 روپے فی یونٹ کے حساب سے فروخت کرکے اربوں روپے کما رہی ہیں۔پیسکو کے مطابق صوبہ بھر میں بجلی کی مجموعی کھپت10 ارب یونٹ سالانہ ہے۔حالت یہ ہے کہ بڑی مقدار میں آئل اور گیس مہیا کرنے والے صوبہ خیبر پختونخوا میں کوئی آئل ریفائنری موجود نہیں۔ملک کی پانچ آئل ریفائنریز میں سے دو پنجاب‘دو سندھ اور ایک بلوچستان میں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved