تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     26-07-2013

زید حامد اور ان کے حریف

معلوم نہیں ، کتنے برس بیت گئے۔ تنقید کرنے والے نفرت کے الائو بھڑکاتے چلے جارہے تھے ۔ روپیہ لے کر گیت گانے والوں کی ایک بڑی تعداد بھی ان میں موجود تھی ۔ تنگ آکر کسی نے خطابت کا ہنر رکھنے والے زید حامد کو منتخب کیا۔پھر ایک عظیم استاد سے ذاتی تعلق رکھنے والے بعض افراد نے درخواست کی کہ زید حامد کی ’’Grooming‘‘ کی جائے ۔ مقصد یہ تھا کہ میڈیا کے محاذ پر وطن کے محافظوں کی وہ حفاظت کر یں ۔ جہاندیدہ آدمی ان کی اس معصوم خواہش پر بہت محظوظ ہوا۔کہا: ’’وہ تو ایک شیزوفرینک آدمی ہے‘‘۔ الفاظ شاید مختلف ہوں لیکن نصیحت یہ کی کہ خود تو وہ مرے گا ہی ، انہیں بھی رسوا کر کے رکھ دے گا۔یہی ہوا۔ دوسروں کا دفاع تو کیا کرتے ، زید حامد خود مصیبت میں گرفتار ہیں ۔ پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت اسلام سے محبت کرتی ہے ۔ اگرچہ خود ہماری حالت ایسی مثالی نہیں لیکن بیرونی جارحیت اور خانہ جنگی کے شکار فلسطین ، عراق ، افغانستان اور مصر جیسے ممالک کی حالتِ زار پہ وہ کڑھتے ہیںاور یہ جذبہ قابلِ تعریف ہے ۔ ایسے میں زید حامد جیسا ایک پرجوش مقرر امریکہ سے لے کر اسرائیل تک عالمی استعمار کا تیا پانچہ کرتاہے ۔ اپنی صفوں میں چھپے ہوئے منافقین کو وہ ہدفِ تنقید بناتا ہے اور اقبالؔ سے محبت کا وہ درس دیتاہے ۔ قدرتی طور پر بہت سے دل اس خطیب کے ساتھ دھڑکنے لگتے ہیں ۔عقیدت جنم لیتی ہے ۔ معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے مگربڑے حوصلے اور صبر کے ساتھ تعلیم اور تربیت درکار ہوتی ہے ۔ پھر دانا تو وہ ہے ، جو اپنے زمانے کو سمجھتا ہو ۔ آج ہر ہاتھ میں کیمرہ ہے اور زبان سے نکلا ہر لفظ مکمل صحت کے ساتھ محفوظ ہو رہا ہے ؛چنانچہ بات وہ کرنی چاہیے، جس کا دفاع ممکن ہو ۔ ٹی وی پروگرام میں دکھائے جانے والے سید زید حامد کے اقوال کچھ یوں ہیں ۔ 1۔ سیاسی جماعتیں پلیت (ناپاک ) ہیں ۔ 2۔ سسٹم (جمہوریت ) کے اند ر سے تبدیلی ممکن نہیں (چنانچہ انقلاب لانا ہوگا)۔ 3۔ فوج کی طرف سے حکومت کا تختہ نہ الٹنے پر اظہارِ ناراضی ۔ یہ نہیں کہ مذہبی اور سیاسی جماعتوں اور میڈیا میں زید حامد کے مخالفین دودھ کے دھلے ہیں ۔ ایک سے ایک اژدھا ان میں روپوش ہے ۔ مثلاً ایک سیاسی جماعت کے لیڈر ،جنہوں نے دہلی کے ایک سیمینا ر میں فرمایا تھا: ’’برصغیر کی تقسیم انسانیت کی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ میں بھارتی حکومت سے درخواست کروں گا کہ 1947ء میں ہجرت کرنے والوں کو معاف کردے‘‘۔ میڈیا میں ایسے ہیں جو خفیہ ایجنسیوں سے لے کر صدر زرداری تک سب کی ملازمت کر چکے ہیں ۔ آج کل وہ میاں محمد نواز شریف کو فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف بھڑکا نے میں مصروف ہیں ۔ ایک بھارت نواز تنظیم ہے ، جس سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے سب سے بڑے سیاسی لیڈر نے اعلان کیا تھا کہ مسلمان اور ہندوایک ہی رب کو پوجتے ہیں اور صرف ایک لکیر (سرحد ) ہمارے درمیان حائل ہو گئی ہے ۔ مذہبی حریفوں کا حال یہ ہے کہ غیر ملکی سفارت خانوں میں دادِ شجاعت دیتے پائے جاتے ہیں لیکن بہرحال تینوں محاذوں پر موجود دشمن مکّار ہیں ۔نہایت سوچ سمجھ کر وہ چال چلتے ہیں اور ان کے خلاف کچھ بھی ثابت کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے ۔ ادھر انقلاب کا مدّعی فوج او رخفیہ اداروں سے لے کر عدلیہ تک ، ایسے بیانات بے دھڑک جاری کرتاہے ، جو آج اس کے گلے میں پھنس چکے ہیں ۔ اپنے مخالفین کے بارے میں وہ ایسے انکشافات کرتاہے، جو سچ ہوں تو بھی انہیں ثابت کرنا ممکن نہیں۔ پاکستان میں مذہبی رجحان رکھنے والے افراد کی اکثریت اس مغالطے کا شکار ہے کہ جمہوری نظامِ حکومت اسلام سے متصادم ہے۔ بعض خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ حل اگر یہی ہے تو امیر المومنین کون ہوگا؟ جماعتِ اسلامی کے امیر ، مولانا فضل الرحمٰن یا خود زید حامد؟ کیا کسی مذہبی جماعت میں ایسا دم ہے کہ ملک کو درپیش مسائل سے نمٹ سکے ؟ کیا معیشت کی بحالی کے لیے کسی کے پاس کوئی منصوبہ موجود ہے ؟ کیا دہشت گردی سے نمٹنے کا راستہ انہیں معلوم ہے ۔ جواباً وہ یہ گنگنا دیں گے کہ امریکی جنگ سے نکل جائیے ، سب مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے ۔ پھر کیا اسلام کے علمبردار جنرل مشرف کو اسمبلیاںتحلیل کرنے کا اختیار دینے والوں میں شامل نہ تھے ؟ دوسروں کو تو چھوڑیے ، خود مختلف مذہبی سیاسی جماعتوں اور مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے علماء ایک دوسرے کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ؟ خلفائے راشدین کا معاملہ تو یہ تھا کہ خود حضرت محمد ؐ نے 23برس تک ان کی تربیت کی تھی ۔ اس لیے دانائی ،قابلیت ، دیانت اور شجاعت میں وہ سب سے افضل تھے ؛لہٰذا اسلامی سلطنت کی سرحدیں ان کے دور میں دنیا کے طول و عرض میں پھیلنے لگیں ۔ 1400بر س پہلے کا وہ ایک قبائلی معاشرہ تھا ، جہاں سردار کی اہمیت مسلّم ہے ۔ آج کے دور میں عوام کی اکثریت اگر ووٹ کے ذریعے اپنے حکمران منتخب کرنا چاہے تو اسلام کو اس پہ کیا اعتراض ہو سکتاہے ؟ حکومت، عدلیہ ، میڈیا اور فوج سمیت ادارے مضبوط بنیادوں پر قائم کیے جائیں اور سب اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرتے رہیں تو مذہب سے تصادم کہاں ہے ؟ سیاسی جدوجہد ہی واحد راستہ ہے ۔ زید حامد اور انقلاب کے دیگر علم برداروں کو اسی کا انتخاب کرنا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved