تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     15-11-2021

بھارت آلودگی سے پاک کیسے ہو؟

دنیا کا سب سے آلودہ دارالحکومت دہلی کو مانا جاتا ہے۔ اس دیوالی کے موقع پر دہلی نے اس قول پر مہر لگا دی ہے۔ دہلی کی آلودگی نے بھارت کے سبھی شہروں کو مات دی ہے۔ فضائی آلودگی فہرست کے مطابق آلودگی کا انڈکس 50 اچھا‘ 100 تک اطمینان بخش‘ 300 تک خطرناک اور 400 تک زیادہ خطرناک اور 500 تک بہت زیادہ خطرناک مانا جاتا ہے لیکن آپ اگر اس دیوالی پر دہلی کی آلودگی کی حالت جان لیں تو دنگ رہ جائیں گے۔ اس بار دہلی کے آس پاس اور دہلی کے اندر کچھ علاقوں میں فضائی آلودگی 1100 کو بھی پار کر گئی تھی۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ اکیلے دہلی میں 2019ء میں صرف آلودگی سے 17500 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ اس سال مرنے والوں کی تعداد پتہ نہیں کتنی زیادہ نکلے گی۔ آلودگی کی وجہ سے بیمار ہونے والوں کی تعداد تو کئی گنا ہو گی۔ آلودگی کی وجہ سے صحت کا جو غیر واضح نقصان ہوتا رہتا ہے اسے جاننا اور ناپنا تو کہیں زیادہ مشکل ہے۔ یہ تب ہے جبکہ دہلی میں عآپ کی بڑی بیدار سرکار ہے اور بہت زیادہ باشعور وزیر اعلیٰ کا دہلی میں راج ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ اور بھارت کے وزیر اعظم خود پٹاخے باز نہیں ہیں اور انہوں نے لوگوں سے اپیل بھی کی کہ وہ پٹاخے بازی سے پرہیز کریں لیکن لوگوں پر ان کا کتنا اثر ہے یہ آلودگی کی مقدار نے ثابت کر دیا ہے۔ لوگوں کے روزمرہ کے عمل میں بدلاؤ لا سکیں‘ ایسے نیتاؤں کی آج ملک میں ضرورت ہے۔ بھارت کے پاس کوئی مہارشی دیانند‘ گاندھی یا سبھاش جیسے نیتا نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں لیکن اتنے سادھو سنت‘ پادری اور پروہت کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو کیا کچھ ہدایت کی ہے؟ دیوالی کے علاوہ بھی درجنوں تہوار بھارتی لوگ مناتے ہیں لیکن کیا ان میں وہ پٹاخے پھوڑتے ہیں؟ نہیں‘ تو کیا وہ تہوار پھیکے ہو جاتے ہیں؟ یوں بھی دیوالی اور پٹاخے بازی کا کوئی باہمی تعلق نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے مترادف نہیں ہیں یعنی ایسا نہیں ہے کہ اگر ایک نہیں ہو گا تو دوسرا نہیں ہو گا۔ پٹاخے بازی تو دو چار دن ہی چلتی ہے لیکن آلودگی پھیلنے کی کئی دیگر وجوہات بھی ہیں جیسے دھول اڑنا‘ پرالی جلانا‘ ایئرکنڈیشننگ کی بڑھوتری‘ پرانے ٹرکوں‘ کاروں اور ریل انجنوں کا دوڑنا‘ کوئلے سے بجلی گھر چلانا۔ ان سب آلودگی پھیلانے والے کاموں پر روک لگے یا انہیں گھٹایا جائے تب جاکر ہم اس ٹارگٹ تک پہنچ سکتے ہیں جس کا اعلان گلاسگو کی کلائمیٹ کانفرنس میں کر کے وزیر اعظم مودی نے ساری دنیا کی واہ واہ لوٹی ہے۔ سب سے پہلے ہمیں مغرب کے کنزیومرازم طرزِ زندگی کی نقل چھوڑنی ہو گی اور اپنے روزمرہ کے جیون کو قدیم بھارتی طرز پر جدید بنانا ہوگا۔
افغان دہلی میٹنگ
دہلی میں ہوئی افغانستان سے متعلق بین الاقوامی میٹنگ کچھ خامیوں کے باوجود کچھ بامعنی رہی۔ اگر اس میں چین اور پاکستان بھی حصہ لیتے تو بہتر ہوتا۔ اس میٹنگ نے افغانوں کی مدد کی تجویز کو پاس کیا‘ لیکن ٹھوس مدد کا اعلان نہیں کیا گیا۔ بھارت نے جیسے پچاس ہزار ٹن گیہوں بھجوانے کا اعلان کیا تھا ویسے ہی یہ آٹھوں ممالک مل کر ہزاروں ٹن کھانے کی چیزیں‘ گرم کپڑے‘ دوائیاں اور دیگر ضروری سامان کابل بھجوانے کا اعلان اس میٹنگ میں کر دیتے تو عام افغانوں کے من میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ اسی طرح سارے ممالک کے سکیورٹی صلاح کاروں نے جامع سرکار اور افغان انسدا د دہشت گردی پالیسی پر کافی زور دیا‘ لیکن کسی بھی نمائندے نے طالبان کے آگے ڈپلومیٹک معاملے کو نہیں رکھا۔ بھارت کے وزیر اعظم‘ وزارت خارجہ اور سکیورٹی صلاح کار سے میں یہ توقع کرتا تھا کہ وہ جب سبھی ساتوں نمائندوں سے ملیں تب وہ ان سے کہیں کہ ایسی پچھلی میٹنگوں اور بین الاقوامی تنظیموں نے جو تجاویز پاس کر رکھی ہیں انہیں دہرانے کے ساتھ ساتھ طالبان کو ٹھیک راستے پر لانے کیلئے وہ نئے اعلان کریں۔ اگر وہ ایسا کرتے تو ممکن ہے پاکستان اور چین کو بھی احساس ہوتا کہ وہ دہلی کیوں نہیں آئے۔ دہلی میٹنگ کی وجہ سے بھارت کو افغانستان میں تھوڑا کردار ضرور مل گیا ہے بلکہ میں یہ کہوں گا کہ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر بھارت کو اہم کردار ادا کرنا چاہئے تھا۔ بھارت تو اس پہل میں چوک گیا‘ لیکن پاکستان کردار نبھا رہا ہے اور بڑے اچھے طریقے سے نبھا رہا ہے۔ اس نے اپنے یہاں امریکہ‘ روس اور چین کو بلا ہی لیا ہے‘ طالبان نمائندے کو بھی جوڑ لیا ہے۔ میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ ہم لوگ طالبان سے ملنے سے پرہیز بالکل نہ کریں اور ان سے کسی بھی طرح دبے نہ رہیں۔ ویسے تو بھارت کی وزارت خارجہ تقریباً ہر معاملے میں امریکہ کی پچھ لگو سا دکھائی پڑتی ہے لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ طالبان کے سوال پر بھارت اور امریکہ نے ایک دوسرے سے دوری بنا رکھی ہے؟ یہ خوشی کی بات ہے کہ دہلی میٹنگ میں طالبان کے سوال پر اتفاق رائے سے اعلان ہو گیا لیکن مختلف ممالک کے نمائندوں کے بھاشنوں میں اپنی اپنی قومی پالیسی بھی پیش کی گئی۔ ان بھاشنوں اور آپسی بات چیت سے بھارتی افسروں کو افغان صورتحال سمجھنے میں ضرور مدد ملی ہو گی۔ پاکستان بھارت کے ساتھ پہل کرنے سے گریزاں ہے لیکن بھارت نے اچھا کیا کہ اسے دعوت دے دی۔
بھارتی نیتاؤں کے بے لگام بیانات
آج کل ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں کانگرس کے سلمان خورشید‘ سماج وادی پارٹی کے اکھلیش اور اداکارہ کنگنا راناوت کے بیانوں کو لے کر کافی کہا سنی چل رہی ہے۔ ان تینوں افراد کے بیانات بھارت کی جدید تاریخ سے متعلق ہیں۔ ان تینوں میں سے کوئی بھی تاریخ دان نہیں۔ ان تینوں کی کس تاریخی موضوع پر کیا رائے ہے‘ اس کی کوئی صداقت نہیں ہے لیکن ان کے بیانوں کا اتنا زیادہ چرچا کیوں ہوا ہے؟ شاید اسی لیے کہ ان لوگوں کے نام پہلے سے معلوم ہیں۔ یہ نیتا لوگ ہیں۔ یہ بیان اس لیے بھی دیتے ہیں کہ کچھ ووٹ وہ ہتھیا سکیں۔ کبھی کبھی لا علمی یا جلد بازی میں کوئی اوٹ پٹانگ بات بھی نیتاؤں کے منہ سے نکل جاتی ہے۔ کئی بار ان کے بیانوں کو توڑ مروڑ کر ان کے مخالف ان کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ سلمان خورشید نے انتہا پسندی کی مذمت کی ہے لیکن انہوں نے ہندوتوا کے نظریات کا موازنہ بوکو حرام اور داعش سے کرکے ایودھیا سے متعلق اپنی کتاب کو متنازع بنا لیا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہندوتوا کے نام پر ادھر کئی امن دشمن‘ دہشت گردانہ اور احمقانہ کام ہوئے ہیں لیکن میرے خیال میں ان کا ہندوتوا کی وچار دھارا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر سلمان خورشید ساورکر کا ہندوتوا پڑھیں اور راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے مکھیا موہن بھاگوت کے بیانوں پر دھیان دیں تو وہ اپنے نظریے میں ترمیم کر لیں گے۔ جہاں تک فلم اداکارہ کا سوال ہے‘ وہ تو کچھ بھی کہہ دیں سب چلتا ہے۔ 1947ء میں ملی آزادی کو وہ بھیک میں ملی آزادی کہیں اور مودی کی آمد (2014ء) کو وہ سچی آزادی کہیں‘ اس خوشامد کو تو مودی خود بھی ہضم نہیں کر پائیں گے۔ ابھی ابھی ملے پدم شری ایوارڈ کے بدلے ایسی بے لگام بیان بازی کے خلاف مقدمہ درج کروانے کی کیا ضرورت ہے؟ ایسے بیانات دے کر یہ مشہور لوگ اپنی عزت اپنے آپ پیندے میں بٹھالیتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved