تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     15-11-2021

بدلتی سیاست کے آثار!

اپنی کشتی میں سوراخ کون کرتا ہے؟ اپنی بیڑیوں کے ساتھ پتھر کون باندھتا ہے؟ اپنے دیے کا تیل کون گراتا ہے؟ اور اپنے پاؤں پر کلہاڑی کون مارتا ہے؟ کاش! مسندِ اقتدار پر بیٹھے لوگ ہماری لاعلمی دور کر سکتے؟
سب جانتے ہیں کہ اسلام آباد کا موسم تبدیل ہوتا جا رہا ہے اور سیاست میں بدلاؤ آنے والا ہے۔ لاہور پر چھائی دھند اور سموگ بھی دھیرے دھیرے شدت اختیار کر رہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ 'جی کا جانا ٹھہر گیا ہے‘ صبح گیا یا شام گیا۔ بادِ مخالف چل پڑی ہے اور بات اب دعاؤں سے آگے نکل چکی ہے۔ جن پلوں کے نیچے سے پانی بہنا تھا‘ وہ بہہ چکا ہے۔ اہل سیاست جانتے ہیں کہ سیاست میں ٹھہراؤ وقتی ہوتا ہے اور ایک نہ ایک دن ارتعاش ناگزیر ہو جاتا ہے۔ کون جانے کہ حالات کا جبر زیادہ ہے یا حکمرانوں کا قصور۔ ایک با ت طے ہے تبدیلی کا اشارہ ہو چکا ہے۔ دیکھئے حکمرانوں کی دھرتی‘ دلّی‘ سے میر تقی میرؔ کیا کہتے ہیں ؎
ہائے جوانی کیا کیا کہیے شور سروں میں رکھتے تھے
اب کیا ہے وہ عہد گیا وہ موسم‘ وہ ہنگام گیا
وقت کی نبض پر جن کا ہاتھ ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ پرویز خٹک اچھے آدمی ہیں اور تو اور اپوزیشن بھی ان کی شرافت کی قائل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر بھی میدان میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں اور مسلسل بے تابی کے ساتھ کسی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کب ہاتھ ہوا میں بلند ہو، کب انگلی اٹھے اور وہ دوڑ کر کریز پر چلے جائیں۔ ایک مسئلہ جو انہیں درپیش ہے‘ یہ ہے کہ میدان میں اب نیوٹرل امپائر کھڑے ہیں۔ وہ نہ تو کسی اور کو باری دینے کے لیے کریز پر موجود کھلاڑی کو غلط آؤٹ دینا چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی آؤٹ ہوتے کھلاڑی کو سہارا دینے پر آمادہ ہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے تو پھر نیوٹرل کیسے کہلاتے؟ میری دانست میں اپوزیشن اس وقت تھرڈ امپائر کے فرائض انجام دے رہی ہے۔ وہ میدا ن میں اترنے اور میدان چھوڑنے والے کھلاڑیوں کا بغور جائزہ لے رہی ہے۔ اس نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر نیا آنے والا کھلاڑی ان کی مرضی اور پسند کا نہ ہوا تو وہ میچ کے اصول بدل دے گی مگر اس کی نوبت شاید ہی آئے۔ اپوزیشن یہ بھی چاہتی ہے کہ جو بھی کھلاڑی بیٹ کو تھامے کریز پر آئے‘ وہ چوکے‘ چھکے مارنے میں زیادہ مہارت نہ رکھتا ہو۔ اگر وہ بھی کریز سے باہر نکل کر کھیلے گا تو پھر پرانے اور نئے کھلاڑی میں کیا فرق رہ جائے گا؟ پھر تبدیلی کی کیا ضرورت؟
سیاست کی اپنی سائنس ہوتی ہے۔ اس کی ایجادات، فارمولے،کلیے اور اصول بدلتے رہتے ہیں۔ سیاست میں سب سے اہم چیز ٹائمنگ ہوتی ہے۔ فیصلے وقت پر کیے ہوں تو پچھتاوے کی دلدل سے گزرنا پڑتا ہے نہ اذیت کی چکی پیسنا پڑتی ہے، لیکن اگر فیصلوں میں دیر ہو جائے تو پھر اقتدار مٹھی سے ریت کی مانند پھسل جاتا ہے۔ آپ کھڑے دیکھتے رہ جاتے ہیں اور چڑیاں کھیت چگ جاتی ہیں۔ سیاست میں نئے امکانات کا جائزہ لینا ہو یا بدلتے حالات کی تپش محسوس کرنی ہو‘ تو صورتِ حال کا تجزیہ کیا جاتا ہے، کڑیوں سے کڑیاں ملائی جاتی ہیں‘ پھر جا کر صبحِ تازہ کی روشنی دکھائی دیتی ہے اور لاعلمی کے اندھیرے عالمِ فنا کی راہ لیتے ہیں۔ اس وقت کھلی آنکھوں سے سیاسی حالات کو دیکھا جائے تو حکومت کی حالت مخدوش نظر آتی ہے۔ میری نظر میں اس کی پانچ وجوہات ہیں؛ پہلی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس اب صرف بیس ماہ کا وقت باقی بچا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اتحادی دامن چھڑانا شروع کر دیتے ہیں اور ہر الیکشن سے پہلے پارٹیاں تبدیل کرنے والے ایم این ایز ادھر ادھر دیکھنے لگتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے ساتھ بھی یہی مشکل بغل گیر ہے۔ حکومت کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس یونہی مؤخر نہیں کرنا پڑا‘ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ آئندہ الیکشن میںالیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے حوالے سے حکومت قانون سازی کرنا چاہتی تھی مگر ایم کیو ایم اور قاف لیگ نے کورا جواب دے دیا۔ جی ڈی اے بھی حکومت سے زیادہ خوش نہیں ہے۔ یہ تینوں جماعتیں ایسی ہیں جو ہر حکومت کے ساتھ چلنے کو تیار ہو جاتی ہیں کیونکہ یہ ہمیشہ 'سیم پیج‘ پر رہنے کی عادی ہیں۔ یہ کبھی سیاست کے بڑے کھلاڑیوں کو ناراض نہیں کرتیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس بار بھی ہدایات دی جا چکی ہیں‘ اس لیے اتحادی اب حکومت کی نیندیں حرام کیے رکھیں گے۔
حکومت کی پریشانی کی دوسری وجہ اس کے ایم این ایز اور ایم پی ایز ہیں۔ حالات کی جانکاری رکھنے والے دوست کہتے ہیں کہ تیس سے چالیس ایم این ایز وفاقی حکومت سے خائف ہیں جبکہ پنجاب میں پچاس سے زائد ایم پی ایز اپنی الگ دنیا بسانے کو تیار ہیں۔ یہی نہیں‘ آدھی صوبائی کابینہ بھی اپنے باس سے ناخوش ہے۔ ان تمام ناراض ارکان کی وجوہات الگ الگ ہیں۔ کچھ وزاتِ اعلیٰ کے خواہش مند تھے اور کچھ بہتر وزارتوں کے خواب دیکھتے رہے۔ کچھ ایم پی ایز اور ایم این ایز مہنگائی کے باعث سامنے آنے والے عوامی ردعمل کو برداشت نہیں کر پا رہے اور انہیں اگلے الیکشن میں اپنی ضمانتیں ضبط ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ حکومت کے برے دنوں کی تیسری وجہ مہنگائی ہے۔ ہر ہفتے مہنگائی کے اعداد و شمار مزید تکلیف دہ ہوتے جاتے ہیں۔ بجلی‘ گیس اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عوام کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مہنگائی سے حکومت کے بھی ہاتھ پاؤں پھول چکے ہیں۔ حکمرانوں کو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ کریں تو کیا کریں‘ جائیں تو جائیں کہاں۔ مارکیٹ سے حکومت کا کنٹرول بالکل ختم ہو چکا ہے جس کی وجہ سے عوام دہائیاں دے رہے ہیں اور جب عوام دہائی دیتے ہیں تو اس کی گونج دور دور تک سنائی دیتی ہے۔
پی ڈی ایم دوبارہ صف بندی کر چکی ہے اور اب وہ بھی حکومت کے گلے کی پھانس بننے کو تیار ہے‘ اسی لیے پیپلز پارٹی اور اے این پی کو بھی گلے لگایا جا رہا ہے۔ اپوزیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ حکومت کو سڑکوں پر بھی ٹف ٹائم دے گی۔ قومی اسمبلی میں حکومت کو دو بلوں پر شکست اور بڑھتی مہنگائی نے اپوزیشن کا حوصلہ بڑھا دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو یقین ہو چکا ہے کہ وہ سڑکوں پر آئے تو عوام ان کا ساتھ دیں گے اور اگر کسی بھی ایوان میں تحریک عدم اعتماد آئی تو حکومت کے اپنے ارکان اپوزیشن کا بازو بنیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کی صفوں میں پہلے چیئرمین سینیٹ، پھر پنجاب اور آخر میں قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانے کی سو چ پروان چڑھ رہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو حکومت شاید ریت کی دیوار ثابت ہو کیونکہ اب وہ حالات ہیں نہ حالات بدلنے والے دوست۔ حکومت کو پہلی دفعہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کے وقت جو سپورٹ میسر تھی‘ وہ اب اپنی جگہ سے ہٹ چکی ہے۔ رہی سہی کسر، ایک نوٹیفکیشن کے جھگڑے نے پوری کر دی ہے۔
میرا احساس ہے کہ حکومت اب تنہا‘ اپنے پاؤں پر کھڑی ہے۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی بھی جمہوری حکومت زیادہ دیر تک اپنے پاؤں پر نہیں کھڑی رہ سکی۔ جب بھی بیساکھیاں ہٹتی ہیں‘ حکومت کا سورج غروب ہو جاتا ہے۔ ماضی میںبھی یہی ہوتا آیا ہے اور اب بھی ویسا ہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس سب کے بعد بھی‘ اگر حکومت اپنے پاؤں پر کھڑی رہتی ہے تو یہ کوئی کرشمہ ہی ہوگا مگر یاد رکھیں کہ ہماری سیاسی تاریخ میں کرشمے نہیں ہوا کرتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved