تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     15-11-2021

زندہ رہنا تو ناممکن نہ بنایا جائے

ذہن ماننے سے انکار کردے‘ تب بھی یہ حقیقت ماننا ہی پڑے گی کہ ملک میں ہر مافیا نے اپنا پوٹلا کھول لیا ہے۔ منافع خوری کے دریا میں سبھی حسبِ توفیق و حسبِ ہمت‘ یعنی اپنی اپنی بے حسی سے مطابقت رکھنے والی ڈبکیاں لگارہے ہیں۔ عام آدمی کا یہ معاملہ ہے کہ اُس کے لیے کوئی بھی دور مثالی نوعیت کا نہیں رہا۔ اُسے تو حالات کی چکی میں پستے ہی رہنا ہے۔ مزے تو اُن کے ہیں یا اُن کے لیے ہیں جنہوں نے اقتدار و اختیار کے حامل افراد سے ساز باز کر رکھی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے دنیا اُنہی کے لیے ہے اور وہ دنیا کے لیے۔ وقت ایسا چل رہا ہے کہ سب کچھ اُن کے حق میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ جب کوئی نظام کام نہ کر رہا ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اصولوں اور قوانین کے مطابق زندگی بسر کرنے کو جب بوجھ تصور کیا جانے لگے تب ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم اُس موڑ تک آگئے ہیں جہاں پہنچ کر لوگ سمجھ نہیں پاتے کہ اب کدھر کو جائیں۔ کوئی راہ سُجھائی دیتی ہے نہ اپنی راہ پر پلٹنے کا محل ہے۔
جمہوریت کا حُسن اِس میں ہے کہ ایک اپوزیشن ہو اور اپوزیشن بھی ایسی کہ اپنی بات کھل کر کہے۔ اپوزیشن ہی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے میں معاونت کرنے والا بنیادی نسخہ ہے۔ اگر اپوزیشن نہ ہو یا کمزور ہو تو اقتدار کے حامل افراد کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا۔ ہمارے ہاں سرِدست ایک بڑی الجھن یہ بھی ہے کہ اپوزیشن سمت کھوچکی ہے۔ جس تازیانے کو اہلِ اقتدار پر برسنا ہے‘ وہ اپنے آپ ہی پر برس رہا ہے۔ اُس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا کہ کرے تو کیا کرے۔ شارٹ اور لانگ مارچ بھی کرکے دیکھ لیے۔ کچھ نہیں ہوا۔ حکومت کو ڈرانے دھمکانے کے مراحل بھی آئے۔ حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کی پیالی میں بھی طوفان اٹھانے کی کوشش کی مگر دال گلی نہیں۔ عوام یہ تماشا بے دِلی اور قدرے مایوسی سے دیکھتے آئے ہیں۔ بے دِلی اِس لیے ہے کہ اپوزیشن کا اپنے ہی وجود پر بھروسا نہیں۔ جب اعتماد کا گراف اِس حد تک پست ہو تو عوام کے لیے کچھ بھی کرنے کی راہ کیسے ہموار ہوسکے گی؟ مایوسی اس لیے ہے کہ عوام کو اپنے مسائل کا حل درکار ہے اور وہ سوچ رہے تھے کہ اپوزیشن اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے بنیادی مسائل کا حل یقینی بنائے گی۔ ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ نتیجتاً خرابیاں ہیں کہ پنپتی جا رہی ہیں۔ یہ بھی ہمارے ہاں ایک ''تابندہ‘‘ روایت ہے کہ ہر حکومت انتہائی بلند بانگ دعووں کے ساتھ آتی ہے۔ وعدوں اور دعووں کے ذریعے عوام کو یقین دلایا جاتا ہے کہ بس اقتدار ملنے کی دیر ہے‘ ملک کو جنت بنانے میں ذراوقت نہیں لگے گا۔ برسوں‘ بلکہ عشروں میں پنپنے اور شدید بحران کی شکل اختیار کرنے والے مسائل کا ایسا آسان حل سجھایا جاتا ہے کہ سوچ کر ہنسی آتی ہے۔
ملک ایک زمانے سے مافیاز کے چنگل میں ہے۔ ہر شعبے میں مافیا نے اپنا کھیل پوری توجہ اور توانائی سے کھیلا ہے۔ جو بھی حکومت میں آتا ہے‘ اچھی طرح جانتا ہے کہ کسی بھی شعبے کے مافیا سے لڑنا بچوں کا کھیل نہیں‘ اور جیتنے کا تو تصور بھی ذہن سے نکال دیجیے۔ اب کسی بھی مافیا کو ہرانا ناممکنات کی حد کو چھو رہا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ محض سیاسی اور معاشی معاملات ہی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نہیں بلکہ تمام معاملات باہم جڑے ہوئے ہیں؛ البتہ سیاسی معاشی معاملات ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ اب کسی چیز کو ہلائیے تو دوسری بہت سی چیزیں ہل جاتی ہیں، بہت کچھ اچانک کچھ کا کچھ ہونے لگتا ہے۔ جب معاملات اس نہج پر پہنچ چکے ہوں تو‘ بظاہر‘ مایوس ہونے کا آپشن ہی رہ جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ عوام میں مایوسی کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔
تحریکِ انصاف کی حکومت کسی بھی اعتبار سے نئی ہے نہ حیران کن۔ تبدیلی کا نعرہ لگاکر ملک کا نظم و نسق سنبھالنے والی اس جماعت نے اگر اپنے وعدے نہیں نبھائے تو حیرت کیسی؟ کون ہے جس نے بلند بانگ دعوے کیے اور پھر کچھ کرکے دکھایا؟ جن جماعتوں کو اب تک اقتدار ملتا رہا‘ انہوں نے بھی بس واجبی سی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ہاں! اتنا ضرور ہے کہ پی ٹی آئی‘ کم از کم جو کچھ کرسکتی تھی اُس کے لیے بھی کوشش نہیں کی۔ عمران خان کے بارے میں یہ بات زور و شور سے کہی جاتی رہی کہ وہ اُصول پسند ہیں اور کرپٹ بالکل نہیں‘ لیکن مسئلہ کارکردگی کا ہے۔ قوم کو ایسے حکمرانوں کی ضرورت ہے جو کسی نہ کسی درجے میں عوام کے لیے کچھ راحت کا سامان کریں۔ خان صاحب سے عوام نے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں اور کسی نے بھی نہیں سوچا تھا کہ تمام توقعات نقش بر آب ثابت ہوں گی۔ عام آدمی کسی نہ کسی طور کچھ کما ہی لیتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب اُس کے لیے صبح کو شام کرنا بھی دوبھر ہوتا جارہا ہے۔ زندگی جیسی نعمت دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کی فکر میں ہی کھپ رہی ہے۔ ایسے میں اُس کی تمنا ہے تو بس اتنی کہ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو‘ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا کسی نہ کسی طور ممکن بنایا جاتا رہے۔ بنیادی سہولتیں مل جائیں تو اور کیا چاہیے۔ یہاں تو یہ بھی نہیں ہو پارہا۔ اقتدار کے ایوانوں میں متمکن صرف اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں‘ کسی کو اس بات سے چنداں غرض نہیں کہ کس پر کیا بیت رہی ہے۔ بیان بازی ہے کہ دم توڑنے کا نام نہیں لے رہی۔ عوام کی شکایات رفع کرنے کے بجائے دلائل دیے جارہے ہیں، تاویلیں گھڑی جارہی ہیں۔ عوام کو دلاسوں کی نہیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ روز افزوں مہنگائی نے عوام کا ناطقہ بند کر رکھا ہے اور حکومتی صفوں میں موجود بیان باز دوسرے ملکوں سے موازنے کی آڑ میں حالات زدہ لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت تین سال پورے کرچکی ہے۔ تین برس کی اِس مدت میں عوام کو ملا کچھ بھی نہیں‘ ہاں! گیا بہت کچھ ہے۔ اشیائے خور و نوش کے نرخ اِتنے بلند ہوچکے ہیں کہ عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ جب اِس حکومت کے پانچ برس مکمل ہوں گے تب تک معاملات کیا سے کیا ہوچکے ہوں گے۔ عام آدمی کے خدشات کچھ غلط نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے ہاتھ میں اب کچھ بھی نہیں رہا۔ اور اِس سے بھی بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ صاحبانِ اقتدار و اختیار خود بھی ہمت ہارچکے ہیں۔ اُن کی طرف سے ایسی کوئی کوشش دکھائی نہیں دے رہی جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ وہ اب بھی دل و دماغ کو اُمید کی خوشبو سے معطر کیے ہوئے کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
حکومت اگر بہت کچھ نہ بھی کر پائے تو کچھ نہ کچھ ضرور کرسکتی ہے۔ جو تھوڑا بہت اُس کے ہاتھ اور بس میں ہو وہ تو کر ہی گزرے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی نے جو شہرت اور عزت کمائی تھی‘ وہ سب مٹی میں ملتی دکھائی دے رہی ہے۔ پچاس لاکھ مکانات بناکر کم آمدن والوں کو دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ پچاس لاکھ نہ سہی‘ پانچ ہزار مکانات تیار کرکے ہی پوری دیانت سے انتہائی غریب افراد میں تقسیم کردیں تاکہ ایک مثال قائم ہو۔ بعض معاملات میں سبسڈی سے کام نہیں چلتا کیونکہ سبسڈی دکھائی نہیں دیتی‘ اس لیے لازم ہے کہ کچھ اشیا کے نرخ نمایاں حد تک کم کیے جائیں تاکہ عوام کو تھوڑی سی بہتری دکھائی دے، کچھ دل بستگی کا سامان ہو۔
عوام خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں مگر وہ خود بھی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جو کچھ وہ چاہتے ہیں‘ وہ ہو نہیں سکتا۔ اُن سے خواب تو نہ چھینے جائیں۔ زندہ رہنا اُن کا حق ہے اور یہ حق کسی صورت غصب نہیں کیا جانا چاہیے۔ حکومت اور کچھ کرے نہ کرے‘ عوام آدمی کا زندہ رہنا تو ناممکن نہ بنائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved