تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     16-11-2021

کیا اب تمہاری جیب میں وعدے نہیں رہے ؟؟

غزل کی حالیہ تاریخ میں کچھ معزز شعرائے کرام نے‘ جن میں چند مرحومین بھی شامل ہیں‘ مکالماتی غزل کے بانی ہونے کا دعویٰ کیا ! مگر یہ درست نہیں۔ '' ایجادِ بندہ‘‘ کا رواج بدقسمتی سے ہر زمانے میں رہا ہے۔ مکالماتی غزل برصغیر میں وہیں سے آئی ہے جہاں سے غزل آئی ہے۔ مولانا روم کی یہ مکالماتی غزل مشہور ہے۔
گفتا کہ کیست بر در گفتم کمین غلامت
گفتا چہ کار داری گفتم مھا سلامت
اس نے پوچھا دروازے پر کون ہے؟ میں نے جواب دیاکہ عاجز غلام۔ پوچھا :کام کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اے چاند! سلام عرض کرنا ہے!
رومی کی اس مکالماتی غزل کے باقی اشعار کاترجمہ دیکھیے۔
میں نے عشق کا دعویٰ کیا ہے۔قسمیں کھائی ہیں۔خود مختاری اور حکومت کو محبت کے لیے تج دیا ہے/ اس نے کہا دعویٰ کے ثبوت میں قاضی گواہ طلب کرتا ہے۔ میں نے کہا میرے آنسو میرے گواہ ہیں اور چہرے کی زردی شہادت/ اس نے کہا ساتھ کون آیا ہے ؟ میں نے کہا حضور ! آپ کا خیال! اس نے کہا بلایا کس نے ہے؟ میں نے کہا آپ کے ساغر کی خوشبو نے! اس نے کہا کیا ارادہ ہے ؟میں نے کہا وفا اور دوستی کا ! اس نے کہا مجھ سے کیا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا آپ کا لطفِ عام ! اس نے کہا آفت کہاں ہے ؟ میں نے کہا تمہارے کوچۂ عشق میں! اس نے کہا تم وہاں کس حال میں ہو‘ میں نے کہا استقامت میں
رومی کے لگ بھگ سو سال بعد حافظ شیرازی نے بھی مکالماتی غزل کہی جو اہلِ علم اور باذوق حضرات کے وردِ زبان رہتی ہے۔ مطلع ملاحظہ فرمائیے
گفتم غمِ تو دارم‘ گفتا غمت سر آید
گفتم کہ ماہِ من شو‘ گفتا اگر بر آید
میں نے کہا مجھے تیرا غم لاحق ہے! اس نے کہا تمہارا غم ختم ہو جائے گا۔ میں نے کہا تم میرے چاند بن جاؤ۔ اس نے کہا اگر یہ چاند چڑھا تو!
حافظ کی اس مکالماتی غزل کے چند اور اشعار دیکھیے۔
میں نے کہا محبت کرنے والوں سے وفا کی رسم سیکھ لو۔اس نے کہا خوبصورت چہروں سے یہ کام کم ہی صادر ہوتا ہے ! میں نے کہا تمہاری زلف کی خوشبو نے مجھے دنیا بھر کا گمراہ کر دیا ہے۔ اس نے کہا استقامت سے کام لو۔ یہی تمہاری رہبری کرے گی/میں نے کہا تمہارا یہ مہربان دل کب تک صلح کا اردہ رکھتا ہے؟ اس نے کہا جفائیں برداشت کرو۔ صلح کا وقت بھی آجائے گا/میں نے کہا اپنی نظر کا راستہ تمہارے خیال کے لیے بند کردوں گا۔ اس نے کہا یہ تو چور ہے‘ کسی اور راستے سے آدھمکے گا ! میں نے کہا وہ ہوا کس قدر خوشگوار ہے جو باغِ خلد سے آتی ہے۔ اس نے کہا خنک تو وہ بادِ نسیم ہے جو کوچہ محبوب سے آئے/ میں نے کہا تمہارے لعل کی شیرینی نے ہمیں آرزو میں مار ڈالا/اس نے کہا اس کی غلامی کر و یہی بندہ پروری کرے گی! میں نے کہا تم نے دیکھا کہ ایامِ عشرت ختم ہو گئے/ اس نے کہا حافظ! صبر کر و ! یہ رنج کے دن بھی ختم ہو جائیں گے۔
جدید رنگ میں کلاسیکی غزل کہنے والے سراج الدین ظفر (1912-1972 )نے بھی مکالماتی غزل کہی۔دلکش جارحانہ رنگ میں غزل کہتے تھے مثلاً
کل شب جو بے خودی میں مجھے آ گیا جلال
میں جام اٹھا کے درپئے سرِ ازل ہوا
ان کی مکالماتی غزل دیکھیے
میں نے کہا کہ تجزیۂ جسم و جاں کرو
اس نے کہا یہ بات سپردِ بتاں کرو
میں نے کہا کہ صَرفِ دلِ رائیگاں ہے کیا
اس نے کہا کہ آرزوئے رائیگاں کرو
میں نے کہا کہ عشق میں بھی اب مزا نہیں
اس نے کہا کہ از سر نو امتحاں کرو
میں نے کہا کہ اور کوئی پندِ خوش گوار
اس نے کہا کہ خدمتِ پیر مغاں کرو
میں نے کہا کہ بابِ مشیّت میں کیا ہے حکم
اس نے کہا نہ اس میں چنین و چناں کرو
میں نے کہا کشائشِ مشکل ہو کس طرح
اس نے کہا وظیفۂ اسمِ بتاں کرو
میں نے کہا کہ زہد سراسر فریب ہے
اس نے کہا یہ بات یہاں کم بیاں کرو
میں نے کہا کہ حدِ ادب میں نہیں ظفرؔ
اس نے کہا نہ بند کسی کی زباں کرو
جدید ہم عصر شعرا میں حسن عباس رضا نے کمال کی مکالماتی غزل کہی ہے۔ یہ ایک مشہور و مقبول غزل ہے۔
میں نے کہا وہ پیار کے رشتے نہیں رہے
کہنے لگی کہ تم بھی تو ویسے نہیں رہے
پوچھا گھروں میں کھڑکیاں کیوں ختم ہو گئیں؟
بولی کہ اب وہ جھانکنے والے نہیں رہے
پوچھا کہاں گئے مرے یارانِ خوش خصال
کہنے لگی کہ وہ بھی تمہارے نہیں رہے
اگلا سوال تھا کہ مری نیند کیا ہوئی؟
بولی تمہاری آنکھ میں سپنے نہیں رہے
پوچھا کرو گی کیا جو اگر میں نہیں رہا؟
بولی یہاں تو تم سے بھی اچھے‘ نہیں رہے
آخر وہ پھٹ پڑی کہ سنو اب مرے سوال
کیا سچ نہیں کہ تم بھی کسی کے نہیں رہے
گو آج تک دیا نہیں تم نے مجھے فریب
پر یہ بھی سچ ہے تم کبھی میرے نہیں رہے
اب مدتوں کے بعد یہ آئے ہو دیکھنے
کتنے چراغ ہیں ابھی‘ کتنے نہیں رہے!
میں نے کہا مجھے تری یادیں عزیز تھیں
ان کے سوا کبھی کہیں الجھے نہیں رہے
کہنے لگی تسلّیاں کیوں دے رہے ہو تم
کیا اب تمہاری جیب میں وعدے نہیں رہے
بہلا نہ پائیں گے یہ کھلونے حروف کے
تم جانتے ہو ہم کوئی بچے نہیں رہے
پوچھا تمہیں کبھی نہیں آیا مرا خیال؟
کیا تم کو یاد‘ یار پرانے نہیں رہے
کہنے لگی میں ڈھونڈتی تیرا پتا‘ مگر
جن پر نشاں لگے تھے‘ وہ نقشے نہیں رہے
بولی کہ سارا شہرِ سخن سنگ ہو گیا
ہونٹوں پہ اب وہ ریشمی لہجے نہیں رہے
جن سے اُتر کے آتی دبے پاؤں تیری یاد
خوابوں میں بھی وہ کاسنی زینے نہیں رہے
میں نے کہا‘ جو ہو سکے‘ کرنا ہمیں معاف
تم جیسا چاہتی تھیں‘ ہم ایسے نہیں رہے
اب یہ تری رضاؔ ہے‘ کہ جو چاہے‘ سو‘ کرے
ورنہ کسی کے کیا‘ کہ ہم اپنے نہیں رہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved