تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     16-11-2021

قصہ ایک شہرِ قدیم کا… (آخری حصہ)

جنوبی پنجاب جو تین ڈویژنز اور گیارہ اضلاع پر مشتمل ہے‘ رقبے کے اعتبار سے پنجاب کا تقریباًانچاس فیصد اور آبادی کے حوالے سے پنجاب کی کل آبادی کا تقریباً بتیس فیصد ہے۔ سرائیکی قوم پرستوں نے اپنا جائز مطالبہ خراب کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کی حدود کو پھیلا کر چوبیس اضلاع اور دو صوبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس مطالبے میں خیبر پختونخوا کے دو اضلاع‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کو بھی ٹانک لیا جبکہ میانوالی‘ بھکر‘ خوشاب‘ سرگودھا‘ چنیوٹ‘ جھنگ‘ بھکر‘ ساہیوال‘ پاکپتن‘ اوکاڑہ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کو بھی اپنے مجوزہ صوبے کی لپیٹ میں لے لیا۔ ظاہر ہے سرائیکی قوم پرستوں کی خواہش پر تو صوبے کی تشکیل نہیں ہونی۔ انہیں کون عقل دے کہ خیبر پختونخوا کے دو اضلاع کو اپنی خواہش کی بوری میں بند کرنا تب تک ممکن نہیں جب تک صوبہ خیبرپختونخوا کی اسمبلی اسے منظور نہ کرے اور ایسا قیامت تک ممکن نہیں۔ رہ گئی بات ساہیوال‘ پاکپتن‘ اوکاڑہ‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ سرگودھا‘ چنیوٹ‘ جھنگ اور خوشاب وغیرہ کا تو وہ خود کو سرائیکی تسلیم ہی نہیں کرتے۔ اب یوں کسی کو اپنی خواہش کے پیش نظر دھکے سے تو سرائیکی نہیں بنایا جا سکتا۔ یہی حال میانوالی اور بھکر کا تھا۔ خیر سمجھدار سرائیکی اس بات پر ذہنی اور منطقی طور پر راضی ہیں کہ ملتان‘ بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن پر مشتمل صوبہ جنوبی پنجاب ہی وہ درست جغرافیائی مطالبہ ہے جو قابلِ عمل بھی ہے اور قابلِ قبول بھی۔
ملتان اس خطے کا سب سے پرانا اور قدیم صوبہ بھی ہے اور کسی حد تک خود مختار بھی رہا ہے۔ اس کی صوبائی حیثیت کی گواہی کو کتنا پیچھے لے جا کر جائزہ لینا درست ہوگا؟ قبل از مسیح کی تاریخ کو ٹٹولیں تو ملتان اپنی شناخت اور پہچان کے حوالے سے اس خطے کا ثقافتی مرکز اور دارالخلافہ تھا۔ سکندر نے 326 قبل مسیح ملتان پر حملہ کیا تو اسے ناقابلِ فراموش مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی جنگ کے دوران اسے تیر لگا اور شدید زخمی سکندر کے مرنے کی خبر پھیل گئی۔ فوج میں پھیلی بد دلی اور مایوسی کو رفع کرنے کی غرض سے سکندر نے دریا میں اپنی کشتی پر بمشکل گھوڑے پر سوار ہو کر اپنی فوج کو درشن کروایا۔ ملتان تب بھی اس خطے کا سب سے بڑا اور مضبوط گڑھ تھا‘ بلکہ میں نے ملتان کی تاریخ کی ابتدا کرتے ہوئے اس کی قدامت کو جلد بازی میں محض 326 قبل مسیح سے شروع کیا ہے جبکہ ملتان مہابھارت کی جنگ ‘جو قریب 3000سال قبل مسیح لڑی گئی تھی‘ کے وقت بھی موجود تھا اور کورو پانڈو کی جنگ میں کورووں کا تعلق اسی علاقے سے تھا اور دریو دھن ملتان سے تھا۔ ملتان ہڑپہ اور موہنجودڑوں کا ہم عصر شہر ہے۔ اس کی صوبائی حیثیت بہت قدیم اور مستحکم ہے۔
کوروکشیتر کی جنگ کے وقت ملتان ‘ کٹوچ خاندان کے زیرانتظام تریگارتا بادشاہت میں صوبے کے درجے کا حامل علاقہ تھا۔ بدھوں کے دور میں ملتان صوبہ تھا۔ سکندراعظم کے حملے کے دور میں ملتان صوبہ تھا۔ محمد بن قاسم کے حملے کے وقت ملتان ایک علیحدہ شناخت کا حامل صوبہ تھا اور اس پر اروڑ کے حاکم چچ کی جانب سے صوبیدار مقرر کیا گیا تھا۔ دسویں صدی عیسوی میں ملتان قرامطیوں کے زیرِ قبضہ رہا۔ قرامطی دراصل مصر میں اسماعیلی فرقے کے ان فاطمی حکمرانوں سے تعلق رکھتے تھے جو عباسیوں سے شکست کے بعد مصر اور عراق سے فرار ہو کر ملتان آئے اور یہاں قابض ہو گئے۔ ملتان قرامطیوں کے دور میں ایک خود مختار ریاست رہا۔ 1005ء میں محمود غزنوی نے قرامطی حکمران عبدالفاتح داؤد کو شکست دے کر ملتان فتح کیا۔1030ء میں محمود غزنوی کی وفات کے بعد ایک بار پھر قرامطیوں نے ملتان کی حکومت سنبھال لی۔1175ء میں محمد غوری نے قرامطیوں کو شکست دے کر ملتان پر قبضہ کر لیا۔ ملتان تب بھی صوبہ تھا۔ بعد ازاں دہلی کے مملوک حکمرانوں نے غوری سے ملتان چھین لیا اور سلطنت دہلی کا صوبہ قرار دے دیا۔1210ء میں ملتان سلطنت دہلی کے سلطان ناصر الدین قباچہ کے زیر نگیں ایک صوبہ تھا۔ جب منگولوں نے ملتان پر حملہ کیا تب بھی ملتان صوبہ تھا۔ نویں مملوک حکمران غیاث الدین بلبن کے دور میں بھی ملتان سلطنت دہلی کا صوبہ تھا۔1320ء میں غیاث الدین تغلق نے ملتان فتح کیا اور اس کی صوبائی حیثیت برقرار رکھی۔ 1398ء میں جب تیمور کے پوتے پیر محمد نے ملتان فتح کیا تو اس کی حیثیت کو برقرار رکھا اور اس کا گورنر خضر خان کو مقرر کیا۔ بعد ازاں خضر خان نے تیمور کی مدد سے دہلی پر حملہ کیا اور دولت خان لودھی سے دہلی کا تخت چھین کر سید خاندان کی حکمرانی کا آغاز کیا جو بہت کم عرصہ چلی۔
اس کے بعد ملتان لنگاہ خاندان کے بڈھن خان المعروف محمود شاہ کے زیر حکمرانی ایک خود مختار ریاست کے طور پر اس خطے میں اپنا آپ منواتا رہا۔ 1469ء سے 1498ء تک ملتان کا حاکم محمود شاہ کا پوتا شاہ حسین رہا۔ یہ ملتان کا زریں دور تھا۔ اس دور میں ملتان نے خوشحالی اور ترقی کی منزلیں طے کیں اسی دوران شاہ حسین نے دہلی کے حکمران تاتار خان اور بربک شاہ کے حملے بھی پسپا کئے۔ 1525ء میں لنگاہ حکمرانوں کا دور ختم ہوا۔ درمیان میں ملتان منگول ترکوں کے قبضے میں رہا۔ 1541ء میں ملتان پر شیر شاہ سوری نے قبضہ کر لیا۔1557ء میں ملتان پر مغل بادشاہ اکبر کے کمانڈر بیرم خان نے قبضہ کرکے اسے سلطنت دہلی کا صوبہ قرار دے دیا۔
1627ء میں شاہ جہان کے فرزند مراد بخش نے بلخ کی مہم کی واپسی پر ملتان کے گرد دوبارہ فصیل قائم کرنے کا حکم دیا۔ بادشاہِ ہند اورنگ زیب عالمگیر1652ء تک صوبہ ملتان کا گورنر رہا۔ مغلوں کے دور میں ملتان کامل200سال امن و سکون کا گہوارا رہا۔1739ء میں ملتان پر احمد شاہ درانی نے قبضہ کر لیا۔1756ء میں شہر پناہ کی فصیل کی مرمت کی گئی۔ یہ کام ملتان کے گورنر علی محمد خان نے سرانجام دیا۔ 1758ء میں ملتان پر رگھو ناتھ راؤ نے حملہ کرکے قبضہ کر لیا۔ 1772ء میں جب احمد شاہ درانی کے بیٹے تیمور شاہ سے سکھوں نے ملتان چھینا ‘ ملتان کی بطور صوبہ حیثیت قائم رکھی۔1778ء میں نواب مظفر خان نے ملتان پر دوبارہ قبضہ کرکے اسے سلطنت کابل کے صوبے کا درجہ دیا؛ تاہم یہ محض علامتی تھا وگرنہ ملتان مکمل طور پر خود مختار تھا۔
1818ء رنجیت سنگھ نے ملتان پر قبضہ کر لیا۔ دیوان ساون مل ملتان کا گورنر مقرر ہوا۔ ساون مل چوپڑا اگلے پچیس سال تک ملتان کا گورنر رہا۔ 1844ء میں ساون مل کے قتل کے بعد اس کا بیٹا دیوان مولراج ملتان کا گورنر بنا۔1849ء میں ملتان پر انگریزوں نے قبضہ کرکے اسے تخت ِلاہور کے زیر نگیں کر دیا۔ یہ صوبہ ملتان کا اختتام تھا۔ ایک قدیم اور شاندار ماضی کا شہر جو صدیوں تک صوبائی دارالحکومت رہا لاہور کا ذیلی شہر بن کر رہ گیا۔
ملتان کو پنجاب میں ضم کر کے اس کی صوبائی حیثیت کا خاتمہ انگریزوں کا ایسا انتظامی فیصلہ تھا جسے لاہور میں بیٹھنے والے سارے حکمران اب محض اس لیے تبدیل نہیں کرتے کہ ان کے زیرِ حکمرانی رقبہ سمٹ جائے گا۔ وقت آگیا ہے کہ ایک سو بیالیس سال پہلے 1849ء میں کی جانے والی اس ناانصافی کا ازالہ کیا جائے اور صدیوں پرانا صوبہ بحال کیا جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved