’’ممنو میاں! تھوڑے دنوں میں بادشاہ بننے والے ہو۔‘‘ ’’چھوڑو بھائی! بادشاہت تو میاں صاحب کی ہے۔‘‘ ’’لیکن آئین کے مطابق تو صدر مملکت آپ ہوں گے۔‘‘ ’’میرے پاس کیا ہو گا؟‘‘ ’’آپ کے پاس پورا ایوان صدر ہو گا۔‘‘ ’’وہاں میں کیا کروں گا؟‘‘ ’’شاہی خاندان کے بچے وہیں رہا کریں گے اور آپ ان کی دیکھ بھال کیا کریں گے۔‘‘ ’’یہ تو میرا فرض ہو گا۔‘‘ ’’آپ کو اپنی رہائش کے لئے بھی جگہ ڈھونڈنا ہو گی۔‘‘ ’’کوئی بات نہیں۔ کسی دوست کے گھر یا ہوٹل میں چلا جائوں گا۔‘‘ ’’یہ نہیں ہو سکے گا‘‘ ’’وہ کیوں؟‘‘ ’’آپ کی سکیورٹی بڑی سخت ہو گی۔ قدم قدم پر آپ کی نگرانی کی جائے گی‘‘ ’’ایوان صدر میں بھی نہیں سو پائوں گا اور باہر جانے کی بھی اجازت نہیں ہو گی‘ تو پھر میں کیا کروں گا؟‘‘ ’’آپ کمبل اوڑھ کے دیواروں پر لکھا کریں گے کہ ’’ممنون کو رہا کرو‘‘ آپ سے پہلے بھی ایک صدر کو یہی کرنا پڑا تھا۔‘‘ ’’وہ کون تھے؟‘‘ ’’چوہدری فضل الٰہی‘‘ ’’تو کیاانہیں رہا کر دیا گیا تھا؟‘‘ ’’نہیں‘‘ ’’پھر کیا ہوا تھا؟‘‘ ’’انہیں قید کرنے والوں کو خود جیل جانا پڑا‘‘ ’’کیا پھر ایسا ہو گا؟‘‘ ’’ممنومیاں! ہوش کرو۔ احسان کرنے والوں کا برا نہیں چاہا جاتا۔ آپ کو میاں صاحب تمام اختیارات دیں گے۔ ‘‘ ’’مثلا؟‘‘ ’’آپ کو کھانے پینے کی آزادی ہو گی۔ کپڑے بدلنے کی آزادی ہو گی۔ وزیراعظم ہائوس کی اجازت سے ٹیلیفون کرنے اور سننے کی آزادی ہو گی۔ وزیراعظم ہائوس سے آنے والی فائلوں پر دستخط کرنے کی آزادی ہو گی۔ ‘‘ ’’مجھے تو بتایا گیا ہے کہ صدر بننے کے بعد مجھے گارڈ آف آنر کا معائنہ بھی کرنا ہو گا۔‘‘ ’’یہ تو ضروری ہے۔تم نے تیاری کر لی؟‘‘ ’’میں پوری طرح تیار ہوں۔ اس دن میں کس کے کمربند باندھوں گا۔ کمر سیدھی رکھ کے چلوں گا۔ ٹانگیں سیدھی کر کے قدم اٹھائوں گا۔‘‘ ’’وہاں قدم اٹھانے کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے۔ ‘‘ ’’میں نے سب طریقے سیکھ لئے ہیں۔ میرے بائیں طرف فوجی کھڑے ہوں گے۔ وہ مجھے سلیوٹ کریں گے۔ میں مسکرا تے ہوئے مُنڈی موڑ کے ان کی طرف دیکھوں گا۔‘‘ ’’کسی نے آنکھ مار دی تو؟‘‘ ’’میں فوری طور پہ کچھ نہیں کہوں گا۔ بعد میں وزیراعظم سے شکایت لگائوں گا ۔‘‘ ’’اور وہ قدم رکھنے کے طریقے؟‘‘ ’’میں نے وہ بھی سیکھ لئے ہیں۔ ون۔ ٹو۔تھری‘‘ ’’یہ کیا ہو گا؟‘‘ ’’یہ ایسے ہو گا کہ میں ون کہہ کے ایک پائوں اٹھائوں گا۔ ٹو کہہ کے اسے زمین پہ رکھوں گا اور تھری کہہ کے تیسرا قدم اٹھائوں گا۔ اس طرح ون‘ ٹو‘ تھری کرتا ہوا بڑے طریقے سے گارڈ آف آنر کے آخر تک پہنچ جائوں گا۔‘‘ ’’اس طرح چلتے ہوئے کہیں ٹھوکر کھا بیٹھے تو؟‘‘ ’’صدر کو بھی ٹھوکر لگتی ہے؟‘‘ ’’سب کو لگی۔ چوہدری فضل الٰہی کو لگی۔ اسحق خان کو لگی۔ فاروق لغاری کو لگی۔ رفیق تارڑ کو لگی۔ ٹھوکر ہر صدر کو لگتی ہے۔ ‘‘ ’’مجھے اس کی فکر نہیں۔ میرے ساتھ میرے لیڈر جناب نوازشریف ہیں۔ وہی مجھے صدر بنائیں گے۔ وہی مجھے سنبھالیں گے۔‘‘ ’’اور وہی تمہیں نکالیں گے۔‘‘ ’’ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔نوازشریف بہت سمجھدار ‘ معاملہ فہم اور بردبار لیڈر ہیں۔ جب انہوں نے مجھے صدارت کا امیدوار بنایا تو آپ کو اسی وقت اندازہ ہو جانا چاہیے تھا کہ انہیں اپنی ذات پر کتنااعتماد ہے؟ وہ میرے جیسے صدر کو بھی چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘ ’’اور تمہاری اپنی قابلیت؟‘‘ ’’آپ نے آئین پڑھا ہے؟ ‘‘ ’’بالکل پڑھا ہے۔‘‘ ’’تو پھر آپ نے قابلیت والا سوال کیوں پوچھا؟ آئین میں صاف صاف لکھا ہے کہ صدر کو کچھ نہیں کرنا ہوتا۔ اسے صرف وزیراعظم ہائوس سے آنے والی فائلوں کا انتظار کرنا ہوتا ہے یا وزیراعظم کے احکامات پر مبنی ٹیلیفون کالیں سننا ہوتی ہیں اور وزیراعظم ہائوس کی منظوری سے آنے والے مہمانوں سے ملاقاتیں کرنا ہوتی ہیں۔‘‘ ’’ممنو! تم نے تو ساری تیاریاں کر لیں۔‘‘ ’’مجھے ایسے ہی امیدوار نہیں بنایا گیا۔ مجھے ہر وہ کام بتا دیا گیا ہے‘ جو مجھے نہیں کرنا ۔‘‘ ’’اور جو کام کرنا ہے؟‘‘ ’’وہ کوئی ہے ہی نہیں۔‘‘ ’’ممنو! تمہاری قسمت بہت اچھی ہے۔ پیپلزپارٹی نے صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا۔ ‘‘ ’’یوں کہو‘ وہ بھاگ گئی ہے۔‘‘ ’’اس خوشی میں تم کیا کرو گے؟‘‘ ’’میں افطار کے وقت دہی بڑے اور گول گپے لے کر وزیراعظم کی خدمت میں حاضری دوں گا۔‘‘ ’’یہ خدمت صدر بننے کے بعد بھی جاری رکھنا۔‘‘ ’’اتنی سمجھ مجھے ہے۔ اسی وجہ سے تو مجھے صدر بنایا جا رہا ہے۔ ‘‘ ’’تمہیں پتہ ہے کہ ایوان صدر کے مینو میں دہی بڑے اور گول گپے شامل نہیں۔‘‘ ’’کچن کے انچارج کی ایسی تیسی۔ دہی بڑے اور گول گپے تو صدارتی مینو کا ناگزیرحصہ بنیں گے۔ میں حلیم‘ قورمے‘ بریانی اور نہاری کا مستقل انتظام کروں گا۔ خواب آور خوراک نہیں کھائوں گا تو وقت کیسے گزرے گا؟‘‘
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved