تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     16-11-2021

بڑھکیں اور دھمکیاں

چند ہی روز قبل پاکستان کے ممتاز عالم ِدین مفتی منیب الرحمن صاحب نے فرمایا تھا کہ ہم صرف پی ٹی آئی کے اسد عمر اور پرویز خٹک جیسے سنجیدہ اور مہذب وزرا سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ 2017ء کے اواخر میں انتخابات سے صرف چند ماہ قبل امریکہ میں منعقد ایک کانفرنس کے موقع پر دو تین روز ہمیں بھی جناب اسد عمر سے امریکی یونیورسٹی کے آزاد علمی ماحول میں تبادلۂ خیال کے مواقع ملتے رہے۔ ہمارا تاثر بھی وزیر موصوف کے بارے میں یہی تھا کہ وہ سنجیدہ بھی ہیں‘ مہذب بھی ہیں اور معقول بھی ہیں۔ اسد عمر نے کورونا کے خلاف جس انداز میں منصوبہ بندی کی اور پھر اُس پر عملدرآمد کروایا اُس سے بھی اُن کی شخصیت میں مزید دلکشی پیدا ہوگئی۔
مگر جمعۃ المبارک کے روز اسد عمر نے اسلام آباد کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جوکچھ ارشاد فرمایا‘ اس نے سارے سابقہ اندازوں‘ امیدوں اور حسنِ ظن کے چراغوں کو گُل کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کا لانگ مارچ اگر اسلام آباد آیا تو بڑی کُٹ لگائیں گے۔ وزیر موصوف نے واشگاف الفاظ میں کہاکہ میڈیا میں بیٹھے پی ڈی ایم کے سہولت کار سن لیں کہ ہمارے کارکنان میڈیا والوں کو بھی سبق سکھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ خان جھکا ہے نہ جھکے گا۔ پاکستان میں ترقی ہو رہی ہے۔ ہماری معیشت ساری دنیا سے بہتر چل رہی ہے۔
وزیر منصوبہ بندی کے ان گوہرپاروں کے بارے میں تو بعد میں عرض کروں گا پہلے یہ سوچنا ہوگا کہ ایک سنجیدہ وزیر یکایک غیرسنجیدہ اور غیرمہذب کیوں ہوگیا۔ اُن کی دھمکیوں نے تو پنجابی فلموں ''مولا جٹ‘‘ اور ''جٹ دا ویر‘‘ کی یاد تازہ کردی۔ دراصل اسد عمر نے بھی مولا جٹ کے لب و لہجے میں اپوزیشن کے لیے بڑھک لگائی ہے ''اوئے میں تھاں مار دیاں گا‘‘۔
جب سنجیدگی کا یہ لیول ہو جائے تو پھر مکالمے اور بامعنی تبادلۂ خیال کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ ایسے مواقع پر تو اصحابِ علم ''قالوا سلاما‘‘ والی پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ مگر چونکہ ہم ٹھہرے ''سہولت کار صحافی‘‘ اس لیے اپنی صفائی میں کچھ عرض تو کرنا پڑے گا۔ حضور! پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کے شرکا کو آپ بڑی کُٹ کیوں لگائیں گے؟ کیا احتجاج کرنا غیر دستوری اور غیر قانونی ہے؟ کیا لانگ مارچ کرنا اور اسلام آباد کی طرف آنا سیاسی طور پر غلط ہے؟ کس قانونی ضابطے کے تحت لانگ مارچ کے شرکا پر تشدد جائز ہے؟
جناب اسد عمر کو یاد ہوگا کہ آپ اور آپ کے لیڈر عمران خان اور آپ کی جماعت نے 2014ء میں حکومتِ وقت کے خلاف اسلام آباد آکر‘ دوچار روز نہیں‘ پورے 126 روز دھرنا دیا تھا۔ کیا وہ دھرنا خلافِ قانون تھا؟ اُس دھرنے پر اس زمانے کے وزیراعظم نواز شریف نے تشدد نہیں کیا تھا بلکہ احتجاج کے شرکا کو ڈی چوک اسلام آباد تک آنے کی سہولت دی تھی۔
اب آئیے ایسے تشدد کے نتائج کی طرف۔ اس ''کُٹ‘‘ کا فوری نتیجہ دوطرفہ تشدد ہو گا‘ پھر یہ تشدد گلی گلی اور شہر شہر پھیل جائے گا۔ گویا ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجائے گا۔ مشرقی پاکستان میں تشدد کا کیا نتیجہ نکلا؟ سقوطِ ڈھاکہ کے جاں لیوا اور خونچکاں صدمے کے بعد جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کو قدرت نے ایک موقع دیا تھا کہ وہ ایک جمہوری حکمران کے طور طریقے اختیار کریں۔ ون مین شو کا گلیمر ترک کرکے جمہوری اقدار کو پروان چھڑائیں۔ اپنی ذات کے بجائے پارلیمنٹ کو فوقیت دیں۔ دوسروں کی رائے کا احترام کریں اور منتخب اداروں کو مضبوط کریں مگر انہوں نے یہ عطیۂ خداوندی ضائع کر دیا۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو ایک وسیع المطالعہ شخص تھے اور تاریخ پر اُن کی گہری نظر تھی مگر انہوں نے اپنی اور غیروں کی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اس کے برعکس وہ جمہوری قبا میں ایک آمر اور ڈکٹیٹر بن کر جلوہ گر ہوئے۔ وہ ملک کے پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے۔ 23 مارچ 1973ء کو بھٹو کی بنائی ہوئی ایف ایس ایف نے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں نیشنل عوامی پارٹی کے جلسے پر گولیاں برسائیں اور آزادیٔ تقریر کا جمہوری حق استعمال کرنے کی پاداش میں ولی خان کے کم از کم بارہ لیڈروں کو موت کے گھاٹ اتارا اور خیبر پختونخوا سے آئی ہوئی بسوں کو جلایا۔ اگر جواباً ولی خان بھی تشدد کا جواب تشدد سے دیتے تو پھر اندازہ لگا لیں کہ ملک کا کیا حشر ہوتا۔ مگر جمہوریت پسند نیپ نے اس ظلمِ عظیم پر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور ملک کو خانہ جنگی کے شعلوں سے بچا لیا۔
جہاں تک پی ڈی ایم کے ''میڈیا سہولت کاروں‘‘ کو دی جانے والی دھمکیوں کا تعلق ہے تو اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جو میڈیا پرسن موجودہ حکومت کی معاشی‘ سیاسی اور انتظامی ناکامیوں کے بارے میں لکھے یا بولے تو وہ اپوزیشن کا سہولت کار ہے۔ ہمارا یہ اندازہ بھی غلط ثابت ہوا کہ کم از کم اسد عمر اُن اِکا دُکا حکومتی شخصیات میں شامل ہیں کہ جو میڈیا تنقید کو اپنے لیے نعمتِ غیرمترقبہ اور چراغِ راہ تصور کرتے ہیں۔ اسد عمر کی ''تشدد پالیسی‘‘ کو اگر درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر پانچ چھ برس قبل سارا میڈیا جناب عمران خان کے گن گاتا رہا اور الیکٹرانک میڈیا شب و روز اُن کے دھرنے کی لائیو کوریج کرتا رہا۔ اس دوران سول نافرمانی کی ترغیب دینے والے مناظر بھی دکھائے گئے جن میں عمران خان نے بجلی کے بلوں کو جلایا اور بل نہ دینے کی تلقین کی۔ اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ اس وقت میڈیا پی ٹی آئی اور عمران خان کا سہولت کار تھا۔ میڈیا نہ اُس وقت اور نہ آج کسی کا سہولت کار ہے۔ سچ تب بھی حکمرانوں کو کڑوا ہی لگتا تھا مگر انہوں نے لانگ مارچ کرنے اور دھرنے دینے والوں کے خلاف اپنے کارکنوں کو تشدد پر نہ اکسایا تھا۔
ایک معاصر کی ہفتہ 13 نومبر کی ایک خبر کے مطابق‘ گزشتہ ایک سال کے دوران 32 صحافیوں نے اسلام آباد پولیس کو اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملوں کے بارے میں رپورٹ کیا ہے۔ اب اگر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے صحافیوں کو سبق سکھانا شروع کیا تو پھر اندازہ لگا لیجئے کہ پرتشدد کارروائیوں کی تعداد کتنی ہو جائے گی۔
روحانی‘ سیاسی اور شخصی سفر میں خوداحتسابی کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ جب انسان نرگسیت کا دلدادہ ہو جائے‘ داخلی خود احتسابی کا دروازہ بند کر دے‘ اَنا کے گنبد میں بند ہو جائے اور اپنے خیرخواہوں کو اپنا دشمن اور دوسروں کا سہولت کار سمجھنے لگے تو پھر اس کی ناکامی کو کوئی نہیں روک سکتا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسد عمر جیسے اعتدال پسند شخص نے اچانک بڑھکوں والی انتہا پسندی کیوں اختیار کرلی۔ ہماری رائے میں اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ شاید اسد عمر حکومت کے پرشور اور شہ زور جارحیت پسند ترجمانوں کے ہم قدم ہوکر امیر ِشہر کی نظر میں اپنا مقام بلند کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ وہ پی ٹی آئی کے اساسی رکن ہیں۔ اُنہیں تو اس قسم کا کوئی ''ثبوت‘‘ پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ ان دھمکیوں کا دوسرا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسد عمر ڈانواں ڈول حکومت کا مستقبل دیکھ کر گھبرا گئے ہوں گے۔
بہرحال اسد عمر صاحب کے لیے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ حکومت آنی جانی شے ہے اس کے لیے ایک آدمی کو اپنی اعتدال پسندی کی قربانی دے کر انتہا پسندی کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved