تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     16-11-2021

نئے صوبے اور مقامی زبانیں

اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز کے انتظامی یونٹوں کی نئے سرے سے تشکیل ضروری ہے؛ تاہم اس کیلئے لسانیت کو بنیاد بنانا مناسب نہیں ہو گا کیونکہ لسانیت کبھی بھی وحدت کی بنیاد نہیں بنتی۔ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانا پاکستان کی تمام سیا سی جماعتوںکے منشور میں شامل ہے‘ تحریک انصاف تو اسی نعرے اور وعدے کے سہارے معرکۂ انتخاب میں اتری تھی، لیکن آج اقتدار کے تین برس بعد بھی‘ وہ اس لیے یہ وعدہ پورا نہیںکر سکی کہ اس کیلئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اسے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو مسلم لیگ نواز اور پی پی پی کی مددکی ضرورت ہے جو اسے ملنے سے رہی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے نام سے نیا صوبہ تو قائم نہیں ہو سکا لیکن عارضی طور پر ملتان میں علیحدہ سیکرٹریٹ قائم ہو چکا ہے لیکن عوامی سطح پر سوال کیا جا رہا ہے کہ باقاعدہ طور پر علیحدہ صوبہ کب کام شروع کرے گا‘ اس کا اپنا وزیر اعلیٰ اور گورنر سمیت نئی کابینہ کب تشکیل پائے گی‘ اس سوال کا جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں اس حوالے سے ایک قدم آگے بڑھاتی ہیں تو ساتھ ہی دو قدم پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔ وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ گورنر ہائوس اور وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کہاں ہوں گے‘ اس حوالے سے خاصی کنفیوژن اور سیاسی کشمکش پائی جاتی ہے۔ سیاسی نقصان کے خوف سے ملتان اور بہاولپور میں سے کسی ایک کو صوبائی دارالحکومت کا درجہ دینے سے تمام سیاسی جماعتیں ڈرتی اور جھجکتی ہیں۔انہیں خدشہ ہے کہ اگر ملتان کو جنوبی پنجاب صوبے کا دارالحکومت بنایا جاتا ہے تو بہاولپور سے رحیم یار خان تک جبکہ دوسری صورت میں لیہ سے تونسہ اور ڈیرہ غازی خان تک کے لوگ ناراض ہو سکتے ہیں۔یہی وہ نکتہ ہے جو جنوبی پنجاب میں اقتدار کی منتقلی کی راہ میں حائل ہے۔
ملتان جب ایک علیحدہ صوبہ تھا تو اس کی سرحدیں نواب شاہ سے بھی آگے تک پھیلی ہوئی تھیں اور مغلوں اور بعد ازاں سکھوں کے دور میں صوبہ پنجاب کی حدود کابل تک پھیلی ہوئی تھیں بلکہ یہ جان کر شاید کچھ لوگ حیران ہوں کہ کسی دور میں کشمیر بھی پنجاب کا حصہ تھا۔ اس بنیاد پر اگر آج کچھ لوگ یہ کہنا شروع کر دیں کہ نواب شاہ سرائیکی علاقہ تھا تو کیا یہ کہنا منا سب اور درست ہو گا؟اگر کشمیر اور کابل کسی دور میں پنجاب کا حصہ تھے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کشمیراور کابل کے لوگ پنجابی بولتے تھے۔ایسا تصور بھی مضحکہ خیز ہے۔ لسانیت کے ماہرین جانتے ہیں کہ زبان ایسی چیز ہے جس کو حدود و قیود میں نہیں رکھاجا سکتا، بعض کے مطابق‘ ہر پچیس کلومیٹر بعد علاقائی زبان کے لہجے میں تبدیلی آ جاتی ہے، بڑے شہروں کے ایک کونے میں رہنے والوں کی زبان اور لہجہ دوسرے کونے میں رہنے والوں کی زبان اور لہجے سے قدرے مختلف ہو سکتا ہے‘ اسی لیے انتظامی یونٹوں کی تشکیل ہر دور میں لوگوں کی سہولتوں اور انتظامی معاملات میں آسانی کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے ۔ لسانی وجوہات یا علاقائی سیاست کو بنیاد بنا کر کیا جانے والا فیصلہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
سینٹرل پنجاب یا تختِ لاہور سے جنوبی پنجاب کے لوگوں کو شکایات ہو سکتی ہیں لیکن گزشتہ 73 برسوں سے اقتدار کی راہداریوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے‘ چند ایک سالوں کے علاوہ‘ جنوبی پنجاب کی نمایاں سیاسی شخصیات ہر دور میں ملکی سیاسی منظر نامے پر چھائی ہوئی نظر آئیں گی۔ مشتاق احمد گورمانی سے سردار فاروق لغاری اور یوسف رضا گیلانی تک ناموں کی ایک طویل فہرست ہے جن کے ہاتھوں میں پورے ملک اور پنجاب کی باگ ڈور رہی۔ اگر اس خطے کے لوگ اپنے علاقے میںترقی اور خوشحالی کے دور کا آغاز نہیں کر سکے تو اس میںسینٹرل پنجاب یا تختِ لاہور کا کیا قصور؟ جب بھی جنوبی پنجاب کے بڑے سیاسی خاندانوں سے کوئی اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوتا تو کیا اس نے اس وقت اپنے علاقے کے عوام کے لیے آواز بلند کی؟ اگر یہ سیاستدان یا گورنر اوروزیر وغیرہ اپنے علاقے کے لوگوں کے ساتھ مخلص ہوتے تو وہ برسر اقتدار جماعتوں پر واضح کر دیتے کہ اگر آپ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ نہیں بنائیں گے توہم آپ سے علیحدہ ہو جائیں گے؟ اگر یہ لوگ واقعی سنجیدہ ہوتے اور ایکا کر لیتے تو کوئی بھی حکومت چند ماہ سے زیادہ اقتدار میں نہ رہ سکتی اور ان کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنا دیتی لیکن یہ سب اپنے اور اپنے اپنے خاندان کے مفادات کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہے اور ان میں سے کسی نے ہلکی سی آواز بھی نہ نکالی۔ ایسے سیاسی افراد اور خاندانوں کو عوام نے بھی رد نہیں کیا اور سب کے سامنے ہے کہ کیسے بار بار یہی لوگ منتخب ہو کر اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہوتے رہے اور بعد میں جنوبی پنجاب کی محرومی کا نوحہ پڑھتے رہے۔ البتہ آپ کو شاید یہ جان کر حیرانی ہو کہ اب تک کراچی سے‘ سوائے لیاقت علی خان کے‘ کوئی بھی ملک کا حکمران نہیں رہا ۔
اگر لسانی ماہرین کی تحقیقات کا جائزہ لیا جائے تو ان کے مطا بق‘ ہمارے ہاں صرف دو مرکزی زبانیں ہیں (یقینا اکثریت اس سے اتفاق نہیں کرے گی) ان میں سے ایک دریائے سندھ کے مشرق میں اور دوسری دریائے سندھ کے مغرب میں بولی جاتی ہے۔ دریائے سندھ کے مشرقی حصے میں بولی جانے والی زبان کا مرکزی خطہ جھنگ اور شاہ پور کے علاقے کو کہا جاتا ہے جسے مقامی لوگ لہندی پنجابی کہتے ہیں‘اسی طرزِ زبان کا اسلوب شمال میں پوٹھو ہاری، مشرق میں ماجھی یا ماجھہ، دو آبہ‘ وسطی پنجاب میںدھنی، جنوبی پنجاب میں ملتانی اور ریاستی لہجہ ہیں۔ یہاں سے اگر جنوب کی طرف بڑھتے جائیں تو یہی لہجہ سندھی کہلانے لگتا ہے۔اگر آپ غور کریں تو میر پور ماتھیلو اور براہوی لہجے بھی اسی زبان کے ذیلی اسلوب ہیں، اب آپ انہیں پنجابی کہہ لیجئے یا سرائیکی‘ بات ایک ہی ہے۔ خیر پوری،ملیروی اور براہوی لہجے سندھی لہجے کے ذیلی اسلوب ہیں جبکہ اگر پشتو کی بات کریں تو یہ بلاشبہ ایک مختلف زبان ہے اور اس زبان کا مرکز قبائلی علاقے ہیں۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ پشتو زبان بھی مختلف لہجوں میں بولی جاتی ہے۔پشاور، مردان، نوشہرہ ، بنوں اور کوہاٹ میں پشتو زبان انہی قبیلوں اور گھرانوں کی زبان ہے جن کے اجداد متذکرہ شہروں کے اردگرد آ کر آباد ہوئے۔ اب ہزارہ اور پشاور سمیت کے پی کے نجانے کتنے ہی علا قوںمیں ہندکو بولی جاتی ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ صوبہ پنجاب کا نام پنجابی زبان کی وجہ نہیں بلکہ اسے پنجاب( پنج آب) پانچ دریائوں کی سر زمین کی وجہ سے کہا گیا۔سندھ کا نام دریائے سندھ کی وجہ سے اختیار کیا گیا‘ اسی طرح بلوچستان کا نام وہاں بسنے والی بلوچ قوم کے نام سے موسوم ہے۔
انتظامی یونٹس کو تقسیم نہ کرنے سے عوام کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جسے اپنے مسائل کے حل کیلئے راجن پور سے لاہور تک600 کلومیٹر سے زائد،گھوٹکی سے کراچی تک550 کلومیٹر، جیوانی سے کوئٹہ تک ایک ہزار کلومیٹر اور چترال سے پشاور تک 400 کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ 74 برسوں سے بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے مضافاتی باسیوں کی تین‘ چار نسلیں اپنی بے جا تذلیل کے احساس کا شکار چلی آ رہی ہیں اور آج علم وشعور کی کرنوں نے نئی نسل کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز دل سے چاہتی ہیں کہ جنوبی پنجاب صوبے کی تشکیل کی جائے تواس کیلئے انہیں اپنی تمام ذاتی اور سیا سی شکایات کو ایک طرف رکھتے ہوئے حکومتی بینچوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ دوسری جانب اگر تحریک انصاف واقعی یہ چاہتی ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ اگلے عام انتخابات سے قبل اپنی جداگانہ حیثیت سے کام شروع کر دے تو اسے اپو زیشن سے‘ چھپ کر نہیں‘ بر ملا سب کے سامنے تعاون کی اپیل کرنا ہو گی تاکہ اگر اپوزیشن جماعتیں یا مخصوص سیاسی خاندان اس درخواست کو رد کرتے ہیں تو جنوبی پنجاب کے عوام کو بھی یہ پتا چل سکے کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی راہ میں رکا وٹ کون ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved