تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     16-11-2021

بی جے پی کی سیاست اور بھارت کے مسلمان

شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے بعد کشیدہ ترین تعلقات کے حوالے سے اگر دوممالک کا نام لیا جائے تو شاید پاکستان اور بھارت سرفہرست دکھائی دیں گے۔ اِن دونوں ممالک کا معاملہ بھی دونوں کوریاؤں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی طرح‘ جنوبی اورشمالی کوریا بھی کسی زمانے میں ایک ہی ملک ہوتے تھے ۔ جس طرح تقسیمِ ہند کے بعد سے پاک بھارت تعلقات کشیدگی کا شکار چلے آ رہے ہیں‘ اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد‘ جب جاپان کا اس علاقے سے کنٹرول ختم ہوا تو ملک کے ایک حصے پر امریکی اور دوسرے پر سوویت یونین کا تسلط قائم ہو گیا اور سرد جنگ کا شکار یہ ملک نفرت کی آگ میں جھلسنے لگا۔ البتہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ابتدا میں خاصے خوشگوار تھے۔ سنتے ہیں کہ آغاز میں ایک دوسرے کی طرف آنا جانا لگا رہتا تھا مگر مسئلہ کشمیر،1965ء اور پھر 1971ء کی جنگوں کے باعث وہ تلخی پیدا ہوئی کہ تعلقات میں دکھائی دینے والی بہتری بگاڑمیں تبدیل ہوتی گئی۔ کارگل کی جنگ نے دو طرفہ تعلقات کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ شاید وقت کے ساتھ ساتھ رہنماؤں کو اِس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ حصولِ اقتدار یا مضبوطیٔ اقتدار کا تیر بہدف نسخہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کو ہدفِ تنقید بناتے رہو۔ خدا لگتی بات یہ ہے کہ اِس فارمولے کو طرفین نے خوب مہارت سے استعمال کیا۔ الزامات کا ایک طومار ہے جو ہروقت ایک دوسرے پر باندھاجاتا ہے اور مجال ہے کوئی ڈھنگ کی بات کرنے یا سننے کے لیے تیار ہو۔ پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کا سب سے زیادہ خمیازہ عوام‘ خصوصاً اقلیتوں کو بھگتنا پڑا ہے۔
ایک طرف یہ رٹ لگی رہتی ہے کہ ہمسایے بدلے نہیں جاسکتے اور دوسری طرف تعلقات میں بہتری کی سنجیدہ کوششیں بھی ہوتی نظر نہیں آتیں۔ کبھی انڈین میڈیا دیکھنے کا اتفاق ہو تو اُن کے اینکرز کو پاکستان پر چیختے چلاتے ہوئے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ وہ حکومتی ایما پر نفرت کو کس انتہا تک لے جانا چاہتے ہیں۔ اِس تناظر میں دیکھا جائے تو بی جے پی ہندوکارڈ بہت مہارت سے کھیل رہی ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کے نفرتوں کے کھیل کا اختتام بالآخر تباہی پر ہوتا ہے۔ نتائج سے بے خبر‘ آج نریندر مودی کے بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کو جس منظم انداز میں نشانہ بنایا جارہا ہے، اُس کی ماضی میں شاید ہی کوئی مثال ملتی ہو۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے سیاست میں جس انداز میں مذہبی کارڈ استعمال کیا ہے‘ اِس کے باعث اُسے بے پناہ سیاسی فوائد حاصل ہوئے ہیں اور اب وہ اِسی ایجنڈے کو لے کرآگے بڑھ رہی ہے۔ اب انتہا پسندوں کو اقلیتوں کو نوچ کھانے کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ خصوصی طور پر مسلمان‘ انتہا پسندوں کا آسان ہدف بن چکے ہیں۔ شاید ہی کوئی دن جاتاہوکہ بھارت میں مذہبی تعصب اور فرقہ واریت کی بنا پر کسی مسلمان کو شہید نہ کیاجاتاہو۔ دیکھا جائے تویہ سب کچھ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے۔حالات کا بغور جائزہ لیاجائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو باقاعدہ منصوبے کے تحت سرکاری ملازمتوں سے دور رکھا گیا۔ بھارت میںمسلمانوں کی تعدادکل آبادی کا تقریباً 18سے 20 فیصد ہے لیکن ملازمتوںمیں اِن کا حصہ بمشکل 4 سے 5 فیصد ہے۔ اِن میں سے بھی بڑی تعداد نچلے درجے کی ملازمت کرتی ہے۔ جب اِس صورت حال سے تنگ آکر مسلمانوں کی غالب اکثریت نے چھوٹے موٹے کاروبار کرنا شروع کردیے تو اب آئے روز کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اِن کے کاروبار تباہ کردیے جاتے ہیں۔ ان کی بستیوں پر حملے کر کے ان کی املاک کو نذرِ آتش کر دیا جاتا ہے، بپھرے ہوئے ہجوم کا کسی شخص کو محض مسلمان ہونے پر قتل کر دینا ایک عام سی بات ہو چکی ہے۔ اِس عمل کو واضح طور پر مسلمانوں کا معاشی قتلِ عام قرار دیاجاسکتا ہے۔ اِس کے بعد ''اُردو‘‘ کے محاصرے کی تیاریاں بھی مکمل ہوچکی ہیں جبکہ پاکستان کو ہدفِ تنقید بنانا تو بھارت کا سدا بہار مشغلہ ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ بی جے پی کے سیاسی مخالفین ٹاک شوز میں برملا یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ اگر بی جے پی کی سیاست سے پاکستان، مسلمان اور دہشت گردی کے الفاظ نکال دیے جائیں تو اِن کی پوری سیاست ختم ہوجائے گی۔
دوسری طرف اگر پاکستان کی بات کی جائے تو اقلیتوں کے ساتھ چند ایک ناخوشگوار واقعات ضرور پیش آئے مگر اس کے بعد صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے حکومتی سطح پر ٹھوس اقدامات کیے گئے۔ اس ضمن میں عدالتی سطح پر بھی بہت فعال کردار دیکھنے کو ملا۔ گزشتہ برس جب کے پی کے ضلع کرک میں مشتعل ہجوم نے ایک مندر کو نذرِ آتش کر دیا تھا تو حکومت اور اعلیٰ عدلیہ فوری طور پر حرکت میں آئے۔ عدالت کی طرف سے لیے جانے والے از خود نوٹس کے نتیجے میں یہ مندر چند ہی دنوںمیں بحال کردیا گیا۔ صرف اتناہی نہیں‘ عدالت کی طرف سے یہ حکم بھی دیا گیاکہ مندر کی دوبارہ تعمیر کے اخراجات اِسے جلانے والوں سے وصول کیے جائیں۔ اسی طرح رحیم یار خان کے علاقے میں بھی ایک ایسا ہی افسوسناک واقعہ پیش آیا جس کے بعد حکومت فوری طور پر حرکت میں آئی۔ دونوں واقعات میں ملوث سینکڑوں افراد کو قانون کی گرفت میںبھی لایا گیا۔ مذکورہ دونوں واقعات پر حکومت اور عدلیہ نے جس طرح کا فوری رد عمل ظاہر کیا‘ اُس کے بعد سے سب کو یہ اندازہ ہوگیا کہ اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جائے گا۔
ہمارے ہاں جس طرح سے اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے ٹھوس اقدامات ہوتے دکھائی دے رہے ہیں‘ وہ یقینا قابلِ تحسین ہیں۔ احسن بات یہ ہو گی کہ انفرادی سطح پربھی مذہبی رواداری کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے۔ البتہ سرحد کے اِس پار اقلیتوں کے لیے حالات جیسے جیسے بہتر بنائے جا رہے ہیں‘ سرحد کے اُس پار صورتحال ویسے ویسے بگڑتی جارہی ہے۔ ہماری سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آئی کہ کسی کمزور پر کیا ہاتھ اُٹھانا؟یہ کیسی طاقت اور کیسی مردانگی ہے کہ کمزوروں پر ظلم ڈھاتے رہو اورکوئی طاقتور سامنے آئے تو فورا گھٹنے ٹیک دو۔ یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ مذہب کی آڑ لے کر محض اپنے مفادات حاصل کیے جاتے ہیں۔ بیشتر صورتوں میں ایجنڈا سیاسی ہوتا ہے لیکن اجتماع کو کوئی مذہبی نام دے دیا جاتا ہے۔ اِن دنوں بھارت سے ایسی درجنوں مثالیں مل جائیں گی۔ پاکستان کی جیت پر جشن منانے والے کشمیری طلبہ پر غداری کے مقدمات کا اندراج ہو یا مسلم بستیوں پر حملے، اردو کے خلاف کھولا گیا محاذ ہو یا مسلم اداکاروں اور فنکاروں سے نفرت کا اظہار‘ نریندر مودی کے بھارت میں مسلمانوں پر ہر آنے والا دن مزید تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ وہاں کی حکومت خوب جانتی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک مڈل کلاس کی اتنی بڑی مارکیٹ کوکھونے کی جرأت نہیںکر سکتا، اسی لیے بین الاقوامی دباؤ کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ بس اِسی کولے کر ہندوووٹ بینک کے لیے مذہبی انتہا پسندی کے بدکے ہوئے گھوڑے کو بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے جو سب کچھ روندتا چلا جارہا ہے۔ اِس طرح کے طرزِ عمل کا سب سے بڑا سیاسی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مہنگائی، امن و امان، ڈگمگاتی معیشت اور دیگر مسائل سے عوام کی توجہ ہٹی رہتی ہے۔ اب تک تو مودی حکومت اس پتے کو بخوبی کھیل رہی ہے مگر سب جانتے ہیں کہ اس کا حتمی نتیجہ صرف شکست کی صورت میں نکلتا ہے بلکہ سماج اور معاشرے سمیت ملک اور ریاست بھی اس آگ میں جھلس کر تباہ ہو جاتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved