عرفات کے لق و دق صحرائی میدان میں جبلُ الرّحمت کی چوٹی سے چودہ سو سال پہلے جو خطبہ میرے آقا سیّد الانبیاء حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ نے ارشاد کیا، وہ پوری انسانی تاریخ میں اس لیے منفرد ہے کہ اس خطبے میں جو بنیادی اور اساسی نظریے آپ نے بتائے ان کی گونج اس سے پہلے کے معاشروں میں سنائی نہیں دیتی اور آج کی مہذب ترین دنیا بھی ان اساسی نظریوں کا صرف نام لیتی ہے لیکن ان پر عمل سے کوسوں دُور ہے‘ اس قدر دُور کہ غاروں میں زندگی بسر کرنے والے انسان بھی آج کے ’’مہذب ترین‘‘ معاشرے سے زیادہ پرامن، نرم دل اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے والے تھے۔ میرے آقاؐ نے یوں تو اس خطبے میں انسانی تہذیب کے بنیادی اصول بتائے جن کی بنیاد پر معاشرے پُرسکون اور پرامن زندگی گذار سکتے ہیں‘ لیکن میں حیرت میں گم ہو جاتا ہوں، جب میں اس آخری حج کا منظر چشمِ تصور کے سامنے لاتا ہوں۔ جبلُ الرّحمت سے آپ کے سامنے کھڑے لوگ تو سب کے سب مسلمان تھے اور وہ بھی حالتِ احرام میں، یعنی ان ایک لاکھ چالیس ہزار مردوزن میں کسی دوسرے مذہب کے فرد کا کوئی تصور بھی نہیں ہوسکتا تھا‘ لیکن میرے آقاﷺ کہیں بھی اے مومنو یا اے مسلمانو کہہ کر مخاطب نہیں ہورہے۔ خطبے کا آغاز اللہ کی حمدو ثنا سے ہو تا ہے اور پھر آپ لوگوں سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں: ’’ایّہاا لنّاس‘‘ اے انسانو یعنی اے بنی نوعِ انسان! تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزتیں اسی طرح حرمت والی ہیں جس طرح یہ آج کا دن، یہ جگہ اور یہ مہینہ حرمت والا ہے۔ پورے خطبے میں آپ نے بنی نوعِ انسان کو مخاطب کیا اور پھر انسانی تاریخ کا سب سے بڑا دعویٰ کیا: ’’یقینا آج زمانہ پھر پھرا کر اسی حالت میں آگیا ہے جو اس وقت تھا جب اللہ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا تھا‘‘۔ اس فقرے پر غور کریں اور پھر آپﷺ کے اسی خطبے میں کیے گئے اس اعلان پر بھی غور کریں کہ: ’’تمہاری جہالت کے‘ نسل‘ رنگ اور عصبیت کے بت میرے پائوں تلے کرچی کرچی ہو چکے ہیں‘‘ تو پھر آپ کو پوری انسانیت ایک کنبہ نظر آئے گی جس کے بارے میں اسی خطبے میں ارشاد فرمایا کہ تم سب ایک آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھے۔ بنی نوعِ انسان… ایّہاا لنّاس… کے تصور کی گونج، تاریخ میں اس سے پہلے کہیں سنائی نہیں دیتی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ سامنے کھڑا ایک لاکھ چالیس ہزار کا مجمع مسلمانوں کا ہے اور خالصتاً ایک دینی فریضے کی ادائیگی کے لیے جمع ہوا ہے۔ یہ طرز تخاطب کیوں اختیار کیا گیا؟ اس لیے کہ اللہ اپنے رسولؐ کے ذریعے اس عالمِ انسانیت سے رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی تفریق کا خاتمہ چاہتا تھا۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جو انسانی تاریخ میں اس سے پہلے کسی نے پیش نہیں کیا تھا۔ انسان نے جب بھی کوئی عالمی ادارہ بنایا اسے اقوام کا اجتماع یعنی(Comity of nations) کہا گیا۔ خواہ وہ لیگ آف نیشنز تھی یا اقوام متحدہ۔ یورپی یونین ہو یا سارک‘ سب کے سب اقوام کا اجتماع ہیں جبکہ اللہ اور اس کا رسولؐ ’’انسانوں کے اجتماع‘‘ Comity of Human beingsکی بات کرتے ہیں۔ یعنی پوری انسانیت کا ا دارہ۔ اکثر لوگوں کے نزدیک یہ ایک خواب ہے، ایک سراب ہے۔ کہتے ہیں ایسا کبھی ممکن نہیں ہو سکتا۔ ایک خاص لفظ میرے بہت زیادہ پڑھے لکھے دوست بولتے ہیں کہ یہ ایک یوٹوپیا ہے یعنی خواب و خیال ہے۔ لیکن میرے ان دوستوں سے کوئی یہ سوال کرے کہ یہ لیگ آف نیشنز یا اقوام متحدہ کی ضرورت انسان کو کب پیش آئی۔ یہ دونوں ادارے اس وقت وجود میں آئے جب انسان نے اپنے آپ کو رنگ ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر واضح طور پر تقسیم کر لیا اور زمین کے چہرے پر خاردار لکیریں کھینچ لیں۔ اس طرح جب دنیا مختلف اقوام کا مجموعہ بن گئی تو پھر ان اقوام کو لڑنا اور خون ہی بہانا تھا۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے خود کو بالا تر سمجھتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں کروڑوں لوگوں کا خون بہا تو لیگ آف نیشنز وجود میں آئی۔ عہد کیا گیا کہ ہم امن قائم کریں گے‘ لیکن اس نے نفرت کو مزید مستحکم کیا۔ پاسپورٹ، ویزا ریگولیشن، بارڈر سکیورٹی فورسز‘ ان سب کا نظام مرتب کر کے دنیا کوسو کے قریب متحارب گروہوں میں تقسیم کر دیا جو ایک ایک انچ کے ٹکڑے پر کئی سو جانوں کو قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔ 1920ء میں پاسپورٹ وجود میں آیا۔ اس سے پہلے یہ دنیا انسانوں کی ایک بستی تھی۔ بغداد سے تاجر نکلتا اور فلپائن میں آباد ہو جاتا اور ہندوستان سے لوگ چلتے تو مانچسٹر کی ملوں کو خون پسینہ مہیا کرتے۔ یہ دنیا انسانوں کا ایک بڑا سفاری پارک تھا جسے چڑیا گھر میں تبدیل کر دیا گیا اور ہر ملک ایک ایسا پنجرہ بنا دیا گیا جس کے تحفظ کے لیے دنیا بھر کے وسائل اسلحہ و بارود پرجھونک دیے گئے۔ دنیا کی پوری تاریخ میں انسان نے کبھی اتنا سرمایہ اپنے دفاع پر خرچ نہیں کیا جتنا 1900ء کے بعد بننے والی قومی ریاستوں یعنی Nation States کے بعد خرچ کیا گیا۔ ہر ایک کو ایک دوسرے سے خوفزدہ کر دیا گیا۔ ہر کسی نے سرحد پر وطن کے محافظ کھڑے کر دیے۔ انہی سرحدوں کو مستحکم اور مضبوط کر نے کے لیے سودی مافیا نے کاغذ کے نوٹوں کا جال بچھایا۔ پہلے سونے اور چاندی کے سکے ہوتے تھے اس لیے ہندوستان سے فرانس جانے والے کو یہ نہیں سوچنا پڑتا تھا کہ ایک ہندوستانی روپے کے کتنے فرانک آئیں گے۔ سونے کی مارکیٹ دنیا بھر میں یکساں ہوتی ہے اس لیے روم کے سونے کے سکے بھی عرب میں چلتے تھے۔ اب ہر شخص کی پہچان اس کے نوٹ پر بنی واشنگٹن، ملکہ الزبتھ، قائداعظم یا گاندھی کی تصویر ہے۔ اب آپ اس نوٹ سے پہچانے جاتے ہیں کہ کتنے غریب یا کتنے امیر ہیں۔ انسانوں کو خانوں میں تقسیم کرنے کا فائدہ اس دنیا میں دوگروہوں کو ہوا، ایک عالمی اقتصادی سودی مافیا کو جس نے دنیا کو اس مصنوعی دولت سازی(Artificial Credit Creation) سے غلام اور مقروض بنایا اور دوسرا اسلحہ ساز فیکٹریوں کو۔ اب دس سے پندرہ لاکھ کا ملک بھی ایک مکمل فوج یعنی آرمی، نیوی اور ائر فورس رکھنے پر مجبور ہے کہ اُس کے دماغ میں سرحدوں کا ایک مصنوعی بت کھڑا کر دیا گیا ہے اور ساتھ ہی باقی اقوام کا خوف بھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک اس دنیا میںقومی ریاستیں وجود میں نہیں آئیں تھیں نہ عالمی جنگوں کا کوئی تصور تھا اور نہ ہی اقوام متحدہ کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔ یہ سارا گو رکھ دھندا اس لیے بنایا گیا تا کہ دنیا میں199ممالک کو خونخوار بھیڑیوں کی طرح ایک دوسرے پر غرانے کے لیے علیحدہ علیحدہ پنجروں میں رکھاجائے اور پھر ان کی لڑائی اور تحفظ کے نام پر دولت کمائی جائے اور معاشی و سیاسی طور پر ان کا استحصال کیا جائے۔ اقبال نے سیّد الابنیاءﷺ کے اسی عالمی اساسی فلسفے کو کس خوبصورتی سے واضح کیا ہے: اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام پوشیدہ نگاہوں سے رہے وحدتِ آدم تفریقِ ملل ملتِ افرنگ کا مقصود اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم مکیّ نے دیا خاک جنیوا کو یہ پیغام جمعیّتِ اقوام کہ جمعیّتِ آدم جمعیّتِ آدم یعنی بنی نوعِ انسان کا نعرہ میرے آقاﷺ نے بلند کیا تھا۔ ہماری خونریزی، بربادی اور تباہی صرف اس لیے ہے کہ ہم انسانوں کا نہیں اقوام کا اتحاد چاہتے ہیں۔ اقوام کو اسی لیے رکھا گیا ہے۔ دنیا کے سامنے انسانی حقوق، عالمی برادری اور دنیا ایک گا ئوں کے نعرے بلند کرتے رہو لیکن انہیں سرحد توڑ کر ایک انسانیت کے نام پر اکٹھا مت ہونے دینا، ورنہ ہمار ا سودی مالیاتی مافیا، اسلحہ کی صنعت اور رنگ، نسل ، زبان کا تصور سب خاک میں مل جائے گا۔ قوموں کے ادارے وجود میں آتے رہیں گے، لیکن انسانوں کا ادارہ وجود میں نہیں آئے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved