تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     17-11-2021

یہ کونسی اتنی بات ہے

پاکستانی کہانیوں میں یہ کوئی اتنی بڑی واردات نہیں۔ ایک جج صاحب کا حلف نامہ کہ میں نے فلاں گفتگو سنی‘ تفصیل میں جانے کی کیا ضرورت ہے‘ تمام باتیں منظرعام پہ آچکی ہیں۔ ہماری تاریخ میں بڑے بڑے کارنامے ہوتے رہے ہیں اور اُن کے منظر ِ عام پہ آنے سے کسی کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔اس مبینہ گفتگو کے حوالے سے بھی انکار آچکا ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے۔کچھ دنوں بعد ساری بات دب جائے گی۔
ہمارے ہر دلعزیز جج اور بعد میں اٹارنی جنرل ملک عبدالقیوم کے بارے میں بہت سی باتیں عام ہوئیں۔ ایک گفتگو اُن کی محترم شہباز شریف سے تھی‘ جس میں پنجاب کے سابقہ مردِ آہن یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ فلاں کیس کا فیصلہ یوں ہونا چاہئے اور یہ 'بھائی جان‘ کی خواہش ہے۔ملک صاحب نے جواب دیا کہ جب بھائی جان نے کہہ دیا ہے تو پھرسمجھئے کہ کام ہو جائے گا۔ایک اور ملک صاحب کی گفتگو احتساب بیورو کے سابق چیئرمین سیف الرحمن سے تھی جس کی آڈیو پتا نہیں کس مہربان نے لیک کر دی۔آڈیو میں سیف الرحمن‘جن کو اُس ہنگامہ خیز دور میں احتساب الرحمن کہہ کر بھی پکارا جاتا تھا‘کہہ رہے ہیں کہ بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے مقدمات سست روی کا شکار ہو رہے ہیں‘ فیصلہ جلد آنا چاہئے۔ ملک صاحب نے فرمایا کہ ایسا ہی ہو گا۔آڈیو منظرعام پہ آئی تو ایسا ہنگامہ کھڑا ہوا کہ بینظیر بھٹو کے خلاف کرپشن کے مقدمات ختم کرنا پڑے۔
یہاں تو شاہسواروں کو عدلیہ کی طرف سے آئین میں تبدیلی کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ یہ واقعہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں نصرت بھٹو کیس سپریم کورٹ میں سنا جا رہا تھا تو چیف جسٹس انوارالحق نے فیصلہ لکھ دیا۔اُس شام سرکاری قسم کی ضیافت تھی جس میں تب کے اٹارنی جنرل شریف الدین پیرزادہ نے جج صاحب سے پوچھا کہ فیصلہ لکھا گیا ہے؟ جسٹس انوارلحق نے کہا کہ ٹائپ ہوچکا ہے۔ پیرزادہ صاحب نے پوچھا کہ اُس میں آپ نے جنرل ضیا الحق کو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار دیا ہے؟جج صاحب نے کہا: نہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک پروویژنل آئینی آرڈر آنے والا ہے جس میں ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو پھر سے حلف لینا پڑے گااور حلف وہ لیں گے جن کو دعوت دی جائے گی۔جسٹس انوارالحق مطلب سمجھ گئے۔ ڈنر ختم ہوتے ہی وہ سپریم کورٹ گئے جو تب راولپنڈی کے پشاور روڈ پہ واقع تھی۔ اپنا کمرہ کھلوایا‘ ٹائپ شدہ فیصلہ نکلوایا اور آخری صفحے پہ اپنے قلم سے لکھا کہ حالات کے پیش نظر چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ جب پی سی او آیا تو جسٹس صاحب کو حلف لینے کی دعوت نہ دی گئی۔ جسٹس مولوی مشتاق‘ جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دی تھی‘ کو بھی دعوت نہ دی گئی۔ یعنی دونوں عالی مرتبت جج صاحبان سے جو کام لینا تھا‘ وہ لیا گیا اور پھر اُنہیں باعزت فارغ کردیا گیا۔ ان واقعات میں توایک گونج ہے۔ آج بھی ان کو یاد کریں تو مسکرائے بغیر نہیں رہا جاتا۔یہ جو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کے بارے میں حلف نامے والا قصہ ہے اس میں کون سی گونج ہے؟مبینہ گفتگو کو سچ مان بھی لیا جائے تو یہی ایک بات نکلتی ہے کہ فلاں تاریخ سے پہلے میاں نوازشریف اور مریم نواز کی ضمانتیں نہیں ہونی چاہئیں۔یہ کون سی اتنی بڑی بات ہے۔
نون لیگیوں نے تو چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ پر باقاعدہ دھاوا بولا تھا۔ جج صاحب نے عدالت لگائی ہوئی تھی اور اُنہیں کرسی چھوڑ کر بند دروازے کے پیچھے جانا پڑا۔واقعہ تو بہت بڑا تھا لیکن اُس کا کچھ نہ بنا۔راولپنڈی کے سردار نسیم جیسے چندلوگوں پر الیکشن میں حصہ لینے کی پابندی کچھ عرصے تک لگی۔ نہ کوئی مقدمہ بنا نہ کوئی اور کارروائی ہوئی۔ جسٹس ناصراسلم زاہد ایک کمیشن کے سربراہ بنے‘ جس کو یہ کام دیا گیا کہ اس واقعہ کی چھان بین کرے۔ساری دنیا کو پتاتھا کہ واقعے کے پیچھے کون سے ہاتھ ہیں لیکن جسٹس صاحب وہ واحد شخص تھے جن کو کچھ نظر نہ آیا۔ سپریم کورٹ پر حملہ کرنے سے پہلے نون لیگ کے جیالوں‘ جنہیں یہ 'نیک‘ کام سونپا گیا تھا‘ کی تواضع پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں ایک پُرتکلف ناشتے سے کی گئی۔ پھر یہ ڈنڈے لہراتے ہوئے سپریم کورٹ کی طرف گئے۔ جسٹس زاہد البتہ ان تفصیلات سے بے خبر رہے۔
بے نظیر بھٹو کا قتل راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ہوا۔ اُس شام جائے وقوعہ کو تیز پانی سے دھو دیا گیا۔ آج تک مصدقہ طور پر یہ نہیں پتا چلا کہ کس کے حکم پہ ایسا کیا گیا۔ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا کچھ بنا ہے ؟ ہمارے پیارے دوست شعیب سَڈل تب کراچی کے ڈی آئی جی تھے۔ ڈی آئی جی ہاؤس ستر کلفٹن‘ جس کے گیٹ پر قتل ہوا‘ کے بالکل قریب ہے۔ سڈل صاحب سے اس واقعے کے بارے میں پوچھیں تو بالکل معصوم بن جاتے ہیں۔قتل کے چند روز بعد تب کے ایس ایچ او تھانہ کلفٹن کو پُراسرارطور پر قتل کردیا گیا۔ اُس قتل کا بھی کچھ نہ بنا۔کراچی میں جو پولیس افسران کلیدی عہدوں پر فائز تھے اُن کی ترقیاں ہوتی رہیں لیکن کسی کا بال بیکا نہیں ہوا۔
ماڈل ٹاؤن واقعہ میں چودہ اشخاص پولیس کی گولیوں سے بھون دیے گئے۔ ان میں دو خواتین بھی تھیں جن میں سے ایک حاملہ تھی۔ یہ واقعہ دن دہاڑے ہوا‘ ٹیلی وژن کیمروں نے سب کچھ دیکھا۔ پولیس آپریشن صبح سویرے شروع ہوا تھا‘ گولیاں چار گھنٹے بعد چلیں۔ تب کے چیف منسٹر ہمارے مردِ آہن شہباز شریف آج تک کہتے ہیں کہ اُنہیں تو کچھ پتا ہی نہیں تھا۔ اُن کو پتا تب چلا جب اُنہوں نے ٹی وی آن کیا۔وقوعہ ہو گیا لیکن پرچہ نہیں کٹ رہا تھا۔ پہلا پرچہ جو درج ہوا وہ پولیس کی طرف سے تھا۔ مقتولین کی طرف سے پرچہ درج ہوا جب تب کے آرمی چیف نے مداخلت کی۔انصاف کا تو یہ حال ہے یہاں پر۔
ساہیوال والا واقعہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ ادارے مبینہ دہشت گردوں کو پکڑنے گئے تھے۔ایک کار کا پیچھا کیاجس میں ماں باپ اور بچے سوار تھے۔ کار روکی گئی اور بندوقیں تانی گئیں۔ باپ نے دہائی دی کہ ہمیں پکڑ لو‘ فائر نہ کھولو۔ بچوں کے سامنے ماں باپ کو چھلنی کردیا گیا۔مقدمے کی کارروائی ہوئی تو زیرِ حراست پولیس والوں کوگواہان کے سامنے جب کیا گیا توتمام گواہان نے یک زبان کہا کہ وہ کسی کو پہچان نہیں سکتے۔
ریمنڈ ڈیوس والے واقعے میں مدعیوں پہ دباؤڈالا گیا کہ صلح کریں اور دیت لے لیں۔ دباؤ کس کا تھا؟ریاست کا۔بھلا وہ غریب لوگ یہ دباؤ کیسے برداشت کرسکتے تھے۔ مقدمے کی کارروائی کوٹ لکھپت جیل میں ہوئی۔ ریمنڈڈیوس نے بعدمیں اس سارے واقعے پر کتاب لکھی۔ وہ خود لکھتا ہے کہ مدعیوں پر دباؤ اس نوعیت کا تھا کہ وہاں بیٹھی امریکی قونصل جنرل‘ جو ایک خاتون تھی‘ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔یہ ہمارے ملک کا انصاف ہے۔ان واقعات کے تناظر میں یہ حلف نامے والی بات کیا معنی رکھتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved