اس دفعہ لاہور میں نومبر کا مہینہ سردیوں کا مہینہ نہیں لگتا۔ شاید اس با ر سردی کا موسم دیر سے آئے گا۔اتوار کی سہ پہر جب انعم نے کہا‘ پاپا کیا ہم لارنس گارڈن جا سکتے ہیں تو میں فوراًتیار ہو گیا۔ انعم میری چھوٹی بیٹی ہے۔ اس نے میڈیا سٹڈیز میں گریجویشن کی ہے۔ انعم کو پرانی چیزیں جاننے کا شوق ہے‘ کچھ دن پہلے وہ پرانے زمانے کے ٹائپ رائٹر کی تلاش میں تھی۔ جب میں گھر ہوتا ہوں تو اس کے ساتھ سوشل میڈیا کے ٹرینڈز کے بارے میں اکثر بات ہوتی ہے۔دنیا کے کس گوشے میں کیا ہو رہا ہے‘ انعم اس معاملے میں ہم سب سے زیادہ با خبر ہوتی ہے۔یہ سوچ کر میں اداس ہو جاتا ہوں کہ شادی کے بعد وہ اگلے مہینے امریکہ چلی جائے گی۔امریکہ جانے سے پہلے وہ لاہور کے گلی کوچوں میں جانا چاہتی ہے۔ آج اس نے لارنس گارڈن کا نام لیا تو میں فوراً تیار ہو گیا۔ڈی ایچ اے سے مال روڈ 20‘25 منٹ کی ڈرائیو ہے۔خوشگوار دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اور ہم مال روڈ پر ڈرائیو کرتے ہوئے لارنس گارڈن کے طرف جا رہے تھے۔ گاڑی چلاتے ہوئے مجھے وہ دن یاد آ گئے جب میں پہلے پہل لارنس گارڈن گیا تھا۔ پہلی بار وہاں جا کر میںتو حیران رہ گیا تھا۔یہ لاہورکے اندر ایک مختلف دنیا تھی۔ پھولوں اور درختوں کی دنیا جہاں جا کر ہم کچھ دیر کے لیے سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ان دنوں بانو قدسیہ کا ناول راجہ گدھ شائع ہو تھا۔ شاید یہ 1981ء کا سال تھا۔ راجہ گدھ ایک مختلف موضوع پر لکھا ہوا انوکھے اسلوب کا ناول تھا۔ اس میں بابا ترت مراد کے مزار کا ذکر تھا۔میرے دل میں تجسس پیدا ہواکہ میں اس مزار کو دیکھوں۔اس بات کو کئی دن گزر گئے‘ ایک دن میں اپنے ایک دوست کے ہمراہ لاہور کی مال روڈ پر گھوم رہا تھا۔ رات کے اندھیرے میں سڑک کے کنارے لگی زرد روشنیاں ٹمٹما رہی تھیں‘ میرے دل میں پرانی خواہش جاگ اٹھی کہ بابا ترت مراد کا مزار دیکھا جائے۔میں اور میرا دوست رات کی تاریکی میں جب ترت مراد کے مزار پر پہنچے تو وہاں مٹی کے چراغ کی مدہم لو ٹمٹما رہی تھی اور چاروں طرف پھیلے سناٹے میں عجیب سا خوف رچ بس گیا تھا۔ بہت سالوں بعد جب اسلام آباد کے ایک فنکشن میں بانو قدسیہ سے ملاقات ہوئی اور میں نے انہیں لارنس گارڈن میں واقع بابا ترت مراد کے مزار پر حاضری کے بارے میں بتایا تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
لارنس گارڈن سے جڑی کئی کہانیاں‘ہیں ان میں ایک کہانی مزاحمت کی ہے۔اسی لارنس گارڈن میں اردو ادب کے جنوں پیشہ شاعر نے آمریت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں مزاحمت کی شمع جلائی تھی۔ اسی لارنس گارڈن میں انہوں نے اپنی معروف انقلابی نظم ''دستور‘‘سنائی۔یہ نظم ایوب خان کی آمریت کے خلاف حریت پسندوں کا ترانہ بن گئی۔ لارنس گارڈن نے تاریخ کے کتنے ہی الٹ پھیر دیکھے۔ یہ 1860ء کا سال تھا جب اس وسیع و عریض باغ کا آغاز ہوا۔ یہ باغ 176 ایکڑ پر پھیلا ہوا تھا۔ یہ محض باغ نہ تھابلکہ یہاں پر عوامی اجتماعات بھی ہوتے تھے‘ لوگ تھیٹر دیکھنے بھی آتے تھے۔کہتے ہیں انگریز جب ہندوستان آئے تو مختلف طریقوں سے انگلستان کی یادوں کو محفوظ کرنے کی کوشش کی‘لارنس گارڈن بھی لندن کے Kew Gardenکے تصور کی ایک جھلک تھی۔ لارنس گارڈن میں مختلف قسموں کے درخت لگانے کا آغاز کیا گیا۔ تاجِ برطانیہ کے چیف کمشنر اورلیفٹیننٹ گورنر جنرل آف پنجاب اور69-1864ء تک ہندوستان کے وائسرائے کی مسند پر بیٹھنے والے جان لارنس کااس باغ سے گہرا تعلق تھا۔ اسی جان لارنس کے نام پر اس باغ کا نام لارنس گارڈن رکھا گیا‘ بعد میں یہاں لارنس ہال اور منٹگمری ہال تعمیر کیے گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہاں انواع و اقسا م کے درختوں اور پھولوں کا اضافہ ہوتا گیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہاں اسی ہزار درخت تھے۔ یہ درخت بہت سے ممالک سے یہاں لائے گئے‘ جن میں یورپ‘ شام اور آسٹریا بھی شامل ہیں۔ ان میں سایہ دار درخت بھی ہیں‘ پھلدار درختوں کی کئی اقسام ہیں جن میں آڑو کے درخت بھی ہیں اور انگور کی بیلیں بھی تھیں۔ لارنس گارڈن میں ان خوش رنگ پھلوں کی مہک ہر طرف پھیلی رہتی۔
لارنس گارڈن کے بیچوں بیچ ایک خوب صورت کرکٹ گرا ؤنڈ تعمیر کیا گیا ہے‘جس میں پویلین کی عمارت سرخ اور سبز رنگوں کے امتزاج سے بنائی گئی ہے۔یہ جمخانہ کرکٹ گراؤنڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ باغ میں جاگنگ ٹریک بھی ہے۔ لارنس گارڈن قدیم لاہور شہر کا ایک خوب صورت باغ ہے جہاں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ آ تے ہیں۔ باغ کے مختلف حصوں میں لہکتے مہکتے پھولوں کے تختے ہیں جہاں خوش رنگ تتلیوں کا بسیرا ہوتا ہے۔ 1947ء میں جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی تو لاہور پاکستان کے حصے میں آیا‘کہتے ہیں لاہور ہندوستان کا پیرس تھا جہاں آرٹ اور ادب کی تحریکوں کا آغاز ہوتا اور جو باغوں کا شہر تھااور ان میں ایک لارنس گارڈن تھا۔ تقسیم کے بعد بہت سے بدیسی ناموں کو بدل دیا گیا۔ لارنس گارڈن کا نیا نام باغ جناح رکھا گیا۔لارنس گارڈن کے اندر تعمیر کردہ عمارت میں اب قائداعظم لائبریری واقع ہے جس میں نادر کتب دستیاب ہیں۔ مال روڈ سے گزرتے ہوئے یہ سفید دودھیا عمارت دور سے نظر آتی ہے۔ لائبریری کے ارد گرد رنگ رنگ کے پھول کھلے نظر آتے ہیں۔ اتنی مختلف اقسام کے پھولو ں کی فراہمی کے لیے باغ میں کئی نرسریاں بھی قائم ہیں جہاں ان پھولوں کی پنیری تیا ر کی جاتی ہے۔
آج اتوار کا دن ہے اور لوگوں کا رش عام دنوں سے زیادہ ہے۔ ہم نے پارکنگ میں گاڑی کھڑی کی اور باغ کے اندر بنی ہوئی روشوں پر چلنے لگے۔ ہمارے اردگرد اونچے لمبے درخت اور خوش رنگ پھولوں کے منظر ہیں۔ چلتے چلتے ہم جمخانہ کرکٹ گراؤنڈ کے قریب پہنچے تو ان دنوں کی یاد تازہ ہو گئی جب یہاں پر بین الاقوامی ٹیموں کے میچ ہوا کرتے تھے۔ یہ شام کا وقت تھا۔ کرکٹ کا میدان خالی تھا۔سکور بورڈ اپنی جگہ رک گیا تھا۔ ہم گراؤنڈ کی چار دیواری کے ساتھ چلتے چلتے کچھ دور واقع قائداعظم لائبریری کے سامنے آگئے۔ جس کے سامنے حد ِنظر تک پھول کھلے تھے۔ لوگ آ جا رہے تھے۔ میں سوچنے لگا یہی روشیں ہوں گی‘ یہی درخت اور یہی آسمان‘ جب ان روشوں پر اور لو گ چل رہے ہوں گے۔پھر میں سوچتا ہوں شاید زندگی اسی ادل بدل کا نام ہے۔ اب اندھیرا گہرا اہونے لگا تھا۔ ہم نے واپسی کا ارادہ کیا۔واپسی کے سفر پر ہمارے ارد گرد قدیم درختوں کی قطاریں تھیں۔ کہتے ہیں اس باغ میں پہلا درخت 1862ء میں لگایا گیا تھا۔ چلتے چلتے انعم ایک درخت کے قریب رک گئی اس درخت کی عمر ستر برس سے اوپر تھی اور یہ ملائیشیا سے درآمد کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ لگے بورڈ پر اس کی تفصیلات درج تھیں۔ انعم دیر تک اس درخت کو دیکھتی رہی اور پھر مجھے دیکھے بغیر کہنے لگی ''کیسا محسوس ہوا ہو گا اس درخت کو جب پہلے پہل اسے ملائیشیا کی مٹی سے جدا کر کے ایک اجنبی زمین میں لگایا گیا ہو گا‘ جہاں کی مٹی‘ ہوا اور آسمان سب کچھ مختلف ہوں گیـ‘‘۔میں خاموش رہا اور دل میں سوچنے لگا‘ جب وہ اگلے مہینے امریکہ چلی جائے گی تو وہاں بھی توسب کچھ مختلف ہو گا‘مٹی‘ ہوا اور آسمان۔ شا ید تب اسے اپنے سوال کا جواب مل جائے۔